دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
خادم رضوی بمقابلہ انور مقصود
یاسر پیرزادہ
یاسر پیرزادہ
جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ میں پڑھے لکھوں کے خلاف ہوں، اِس کلیے کی رُو سے میں خود اپنے بھی خلاف ہوا مگر جیسا کہ آج کل اسٹائل ہے کہ خود کو فیشن کے طور برا بھلا کہو اس سے پہلے کہ کوئی دوسرا کہے، سو اسی اسٹائل کی پیروی میں عرض ہے کہ میں اپنے جیسے پڑھے لکھوں کے اس لئے خلاف ہوں کہ ہم لوگ اپنے سے کم پڑھے لکھے یا یوں کہیے کہ اپنی ’’کلاس‘‘ سے تعلق نہ رکھنے والوں کو کم تر سمجھتے ہیں اور اُن کی کہی ہوئی باتوں کا تمسخر اڑاتے ہیں البتہ اسی سے ملتی جلتی باتیں ہم نام نہاد پڑھے لکھے لوگ اگر شستہ انگریزی یا نستعلیق اردو میں کریں تو انٹلیکچوئل کہلاتے ہیں۔ مثال حاضر ہے۔ سال 2017ء کی سپر اسٹار شخصیت علامہ خادم رضوی تھے، موصوف صاحب ِ طرز مقرر ہیں، آپ نے فن تقریر کو جِلا بخشی اور اسے ایک نیا لہجہ اور آہنگ عطا کیا، آپ سے پہلے بعض صاحبان اپنی تقاریر میں تند و تیز فقروں کا استعمال کر کے حاضرین کو گرمانے کی کوشش کرتے تھے مگر جس طرح جناب نے اِس فن کو گالیوں کا تڑکہ لگا کر ایک نئے عروج پر پہنچایا اُس کی مثال ہند سندھ میں نہیں ملتی، دلچسپ بات اِس میں یہ تھی کہ تقاریر میں اُن گالیو ں کا استعمال کیا گیا جو ہم بھول چکے تھے اور جو علامہ کی مہربانی سے اب دوبارہ ہاؤس ہولڈ نام (زبان زد عام) بن چکی ہیں۔ مگر مولانا کی بدقسمتی یہ ہے کہ آپ کسی گرامر اسکول میں نہیں پڑھے، آپ کو آکسفورڈ والی انگریزی بولنی نہیں آتی، کسی اسکول آف فیشن یا آرٹ سے آپ کا کوئی لینا دینا نہیں، آپ نے فرنچ کٹ داڑھی نہیں رکھی ہوئی، آپ کرتے کے نیچے جینز نہیں پہنتے، ڈرنک نہیں کرتے، بات بات پر Fسے شروع ہونے والا چار حرفی لفظ نہیں بولتے، شیکسپیئر کے حوالے نہیں دیتے، امریکن فلم سیریز کے سیزن نہیں دیکھتے، انہیں کوئی لٹریری فیسٹیول میں نہیں بلاتا، یہ اشرافیہ کے کسی کلب کے رکن نہیں، اِن کی پگڑی اور شلوار کرتا فیشن میں نہیں۔

اب اِس سے پہلے کہ آگے کوئی بات کی جائے، دو نکات کی وضاحت ضروری ہے۔ پہلی، علامہ کی تقاریر میں گالیوں کے استعمال کو تنقید کا نشانہ اس لئے بنایا گیا کیونکہ آپ مذہب کے نام پر یہ سب کچھ کر رہے تھے جو سراسر ناقابل قبول تھا جسے مذہبی طبقات نے بھی پسند نہیں کیا اور اس لحاظ سے یہ تنقید جائز اور درست تھی۔ دوسری، باقیوں کی طرح اس تنقید میں خاکسار نے بھی حصہ ڈالا اور بالکل ٹھیک کیا، وجہ وہی کہ اگر کوئی عام شخص کرتا تو ملال نہ ہوتا، ہمارے مذہب میں اِس قسم کی گالم گلوچ کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ آج موضوع مگر کچھ اور ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ اِس ملک میں اگر آپ کا گیٹ اپ علامہ خادم رضوی جیسا ہے، آپ کا تعلق ایلیٹ کلاس سے نہیں، آپ کے بچے امریکن اسکولوں میں نہیں پڑھتے، آپ کسی مسجد میں خطیب یا مولوی ہیں یا چہرے مہرے سے اُردو میڈیم لگتے ہیں تو پھر آپ کا تمسخر اڑایا جائے گا، اشرافیہ آپ کو کمتر سمجھے گی، پڑھے لکھے لوگ آپ کو گنوار کہیں گے اور آپ کی پنجابی گالیوں پر تو آپ کو کبھی معاف نہیں کیا جائے گا۔ البتہ اگر آپ کوئی کنسلٹنٹ یا بینکر ٹائپ چیز ہیں جو فنون لطیفہ اور ادب کی سرپرستی اور اپنے صاحب ذوق ہونے کا ثبوت دینے کی خاطر لٹریری فیسٹیولز میں شرکت کرتے ہیں تو پھر کوئی مسئلہ نہیں، وہاں جینز اور کرتے میں ملبوس کسی فرنچ کٹ دانشور کے مضمون پر جی کھول کے تالیاں بجائیں چاہے اس مضمون میں مادر زاد پنجابی گالیوں کا نستعلیق اردو ترجمہ ہی کیوں نہ پڑھا گیا ہو۔ جس کلاس کی میں بات کر رہا ہوں اس سے تعلق رکھنے والوں کی صبح کا آغاز چار حرفی Fوالے لفظ سے ہوتا ہے، آفس میں بات بات پر What the Fکہنا ان کا تکیہ کلام ہے، اس سے زیادہ میں لکھ نہیں سکتا ورنہ بتاتا کہ اس لفظ کے ساتھ جڑی ہوئی گالیوں کا فراخدلانہ استعمال جس طرح یہ پڑھے لکھے لوگ کرتے ہیں اگر کوئی پنجابی میڈیم مڈل کلاسیا یہ گالیاں اپنی مادری زبان میں دے تو ناک سکیڑ کر کہیں گے ’’What the F‘‘ !

مسئلہ کلاس کا ہے، اگر آپ اپر کلاس کے نمائندے ہیں تو پھر ستے ہی خیراں ہیں۔ اپر کلاس کے نمائندے کا مطلب ضروری نہیں کہ وہ طاقتور یا بااثر بھی ہو کیونکہ وہ تو کوئی ان پڑھ سیاست دان، مولوی، چوہدری یا وڈیرا بھی ہو سکتا ہے، اِس سے مراد وہ خاص کلاس ہے جو اردو بولے تو لگتا ہے جھوٹ بول رہی ہے۔ ’’What the F‘‘ کے استعمال کے علاوہ بھی اِن کی کچھ نشانیاں ہیں، مثلاً یہ خود کو عام لوگوں سے برتر سمجھتے ہیں، اول تو یہ ووٹ اور جمہوریت جیسی خرافات میں یقین ہی نہیں رکھتے لیکن اگر بادل نخواستہ جمہوریت کی بات کرنی پڑ جائے تو اِ ن کے نزدیک پڑھے لکھوں کا ایک ووٹ سو ان پڑھ ووٹوں کے برابر ہونا چاہئے، انہیں دیسی ناشتے کرنے والا ڈنگر اور اجڈ لگتا ہے، خود یہ ناشتے میں فرنچ ٹوسٹ کے ساتھ بٹر (مکھن نہیں) لگا کر کھاتے ہیں، سامنے انگریزی اخبار ہوتا ہے اور دوسرے ہاتھ میں کافی کا مگ، فیض میلے میں عابدہ پروین یا ٹینا ثانی کو سُن کر سر دھنتے ہیں جبکہ عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی انہیں unhygenicلگتا ہے، کلچر کی سرپرستی یوں کرتے ہیں گاہے بگاہے مصوری کی نمائشوں میں شرکت کرتے رہتے ہیں اور ادب کی سرپرستی کا بیان تو کیا جا چکا ہے کہ کسی ادبی میلے میں اپنی کلاس کے کسی لکھاری کی تحریر پر داد دیتے ہیں چاہے اُس نے علامہ خادم رضوی کی طرح گالیوں کا نیا اسلوب ہی کیوں نہ متعارف کروایا ہو، شرط صرف یہ ہے کہ گالیاں شستہ اردو میں بظاہر ادبی رنگ لئے ہوں اور اُن کا ہدف اِس کلاس کا ناپسندیدہ ترین سیاست دان ہو۔ یقین نہیں آتا تو حال ہی میں ہونے والے ادبی میلے میں ایک فرنچ کٹ دانشور کا ایسا ہی مضمون سوشل میڈیا پر لڈیاں ڈال رہا ہے، تلاش کر کے دیکھ لیں۔ یہی کام اگر علامہ خادم رضوی جیسا کوئی دیسی کرے تو اُس کا ’’کیریکٹر ڈھیلا ہے‘‘۔ اسی قسم کے ایک میلے میں چند سال قبل میں نے ایک پی ایچ ڈی ڈاکٹر صاحبہ سے کہہ دیا کہ منٹو کے افسانوں پر آپ گفتگو فرما رہی ہیں، یہ میلہ لاہور میں ہو رہا ہے، ہم سب پاکستانی اور اردو سمجھنے والے ہیں تو آپ انگریزی کیوں بول رہی ہیں؟ یہ سننا تھا کہ محترمہ ہتھے سے اکھڑ گئیں گویا میں نے اُن کی دُم پر پاؤں رکھ دیا ہو، اپنی تمام پڑھائی لکھائی اُس وقت وہ بھول گئیں اور غصے سے کہنے لگیں کہ ایک تو میں نے منٹو کا انگریزی میں ترجمہ کیا اور آپ جیسے لوگ ہیں کہ طعنہ زنی سے باز ہی نہیں آتے۔ وہ چونکہ زیادہ پڑھی لکھی تھیں اس لئے میں چُپ ہو گیا۔یہ ہوتی ہے What the F کلاس۔
واپس کریں