دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
اِس کائنات کا مصور کون ہے؟
یاسر پیرزادہ
یاسر پیرزادہ
ابن انشا نے ’استاد مرحوم‘ کے خاکے میں ایک جگہ لکھا ہے کہ ”آپ کے ایک ہاتھ میں چھ انگلیاں تھیں اِس لیے گیارہ تک باآسانی گن لیتے تھے۔“ سکردو میں تیسرے دن ہمیں جو ڈرائیور کم گائیڈ ملا اُس کے بھی ایک ہاتھ میں چھ انگلیاں تھیں مگر وہ بیچارہ فقط دس تک ہی گِن سکتا تھا کیونکہ اُس کے دوسرے ہاتھ میں چار انگلیاں تھیں، ایک انگلی اُس کی جلد بازی کی وجہ سے کسی حادثے میں کٹ گئی تھی۔ مگر اِس حادثے نے اُس کی ہیجان انگیز طبیعت پر کوئی اثر نہیں ڈالا تھا۔ جس رفتار سے گاڑی چلا کر اُس نے ہمیں سکردو گھمایا، اگر ہم جہاز میں بیٹھ کر بھی جاتے تو اِس قدر کم وقت میں اتنی جگہیں نہ دیکھ پاتے۔آدھا سکردو اُس کا جاننے والا تھا، ہم جہاں جاتے آگے اُس کا کوئی نہ کوئی واقف مل جاتا، وجہ یہ تھی کہ موصوف کا اصل کام نان کسٹم پیڈ گاڑیاں فروخت کرنا تھا۔ سوات کی طرح سکردو میں بھی یہ عام بات ہے، یہ گاڑیاں افغانستان کے راستے پاکستان آتی ہیں اور پھر وہاں سے اِن علاقوں میں استعمال ہوتی ہیں۔

سکردو سے خپلو جانے میں تقریباً تین گھنٹے لگتے ہیں مگر یہ راستہ بے حد خوبصورت ہے، سچ پوچھیں تو پورے سکردو کی دلکشی اسی راستے میں ہے۔ سڑک کے ساتھ ساتھ دریائے شیوک بہتا ہے جس کا رنگ ایسا ہے کہ لگتا ہے جیسے کائنات کے مصور نے کوئی عالی شان تصویر بنانے کی غرض سے فیروزی رنگ بکھیر رکھا ہو، یہی دریا آگے دریائے سندھ میں شامل ہوجاتا ہے اسی لیے اسے سندھ کا معاون دریا کہتے ہیں۔ پہاڑوں کی چوٹیوں پر جہاں برف نظر آتی ہے وہ پہاڑ چاندی کے دکھائی دیتے ہیں۔شیوک ابھی اپنے جوبن پر نہیں تھا، جون اور جولائی میں یہ دریا بھر جاتا ہے اور پھر اِس کی لہریں دور تک پہاڑوں سے ٹکراتی ہیں اور اٹکھیلیاں کرتی ہوئی آگے نکل جاتی ہیں۔ انڈیا نے اپنی فلموں میں اِن جگہوں کا خوب استعمال کیا ہے، شاہ رُخ خان کی فلم ’جب تک ہے جان‘ کا ابتدائی منظر اور عامر خان کی ’تھری ایڈیٹس‘ کا آخری منظر لداخ میں فلمایا گیا ہے۔ یہاں ہمیں ایسے ہی لگا جیسے ہم اِن فلموں کی لوکیشنز پر گھوم رہے ہوں۔ جیو ٹی وی نے حال ہی میں ’خئی‘ ڈرامہ بنایا جس کو یہیں سکردو میں فلمایا گیا، اِس ڈرامے میں دکھائی گئی گلگت بلتستان کی خوبصورتی بھی ایک وجہ تھی جس نے ہمیں سکردو آنے پر مجبور کیا۔

اپریل مئی کے مہینوں میں اِن جگہوں پر چونکہ رش کم ہوتا ہے اِس لیے راستے میں ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی۔ مجھے سنسان سڑکیں اور راستے بہت پسند ہیں بشرطیکہ چند کلومیٹر بعد کچھ نہ کچھ آبادی نظر آ جائے۔ خپلو کا راستہ ایسا ہی تھا۔ پہاڑوں کے بیچوں بیچ دریا کے ساتھ ساتھ ہماری گاڑی بھاگتی جا رہی تھی اور ہمیں یوں لگ رہا تھا جیسے ’ہم دونوں‘ جنت کی سیر کے لیے نکلے ہوں۔ ویسے اگر یہ راستہ ایسا دلفریب نہ بھی ہوتا تو میرا احساس پھر بھی یہی ہوتا کیونکہ میں ’اُس‘ کے ساتھ تھا جس کے ساتھ گزرا ہوا ہر پل مجھے جنت میں گزرے ہوئے وقت کی مانند لگتا ہے۔راستہ جب حد سے سنسان ہوجاتا تو اچانک دور کہیں اکا دکا گھر نظر آ جاتے اور پھر ہمیں پتا چلتا کہ یہ کوئی گاؤں ہے۔ خپلو کے سارے راستے میں ایسے کئی چھوٹے چھوٹے گاؤں آئے اور ہر گاؤں میں اسکول بھی نظر آیا۔ اِس علاقے کے بارے میں ایک دلچسپ بات معلوم ہوئی کہ یہاں کی عورتیں کام کرتی ہیں اور مرد سارا دن فارغ بیٹھے رہتے ہیں، اِس بات کا مشاہدہ ہم نے بھی کیا، جہاں بھی گئے راستے میں مرد سڑک کے کنارے ’ویلے‘ بیٹھے نظر آئے، سوائے آتی جاتی گاڑیوں کو گننے کے اُن کی کوئی ’جاب‘ نہیں تھی جبکہ عورتیں گھروں اور کھیتوں میں کام کرتی نظر آئیں۔

شگر کی طرح خپلو میں بھی ایک قلعہ ہے جو کسی زمانے میں علاقے کے راجہ کی ملکیت تھا مگر 1999 میں راجہ صاحب نے قلعے کو لیز پر دے دیا اور خود قلعے کے ساتھ ’رائل کاٹیج‘ میں منتقل ہو گئے۔ بعد ازاں اِس قلعے کی مرمت اور تزئین و آرائش کا کام آغا خان فاؤنڈیشن نے کیا جس کے بعد اسے سیرینا ہوٹل کے حوالے کر دیا گیا۔ ہوٹل کا کھانا بہت اچھا تھا اور قیمت بھی مناسب تھی مگر رہائشی کمروں کا کرایہ بہت زیادہ ہے، اگر آپ ایڈونچر ٹورسٹ نہیں تو یہاں قیام کرنے کی نہ ضرورت ہے اور نہ فائدہ، یہ ہوٹل غیر ملکی سیاحوں کے لیے ٹھیک ہے، اسی لیے ہم نے بھی فقط قلعے کی سیر پر ہی اکتفا کیا۔اِس کے تاریخی کمرے اب بھی محفوظ ہیں، آپ اُس کمرے میں بھی قیام کر سکتے ہیں جس میں کسی زمانے میں راجہ صاحب رہا کرتے تھے۔ یہ قلعہ دیکھتے ہوئے ایک بات کا شدت سے احساس ہوا کہ پرانے وقتوں میں راجوں مہاراجوں کی زندگیوں میں صرف عیاشی ہی نہیں ہوتی تھی بلکہ اُنہیں ہر وقت یہ دھڑکا بھی لگا رہتا تھا کہ کہیں کوئی دشمن راتوں رات حملہ کر کے انہیں خاندان سمیت قتل نہ کردے۔ اِس قلعے کے حوالے سے ایک بات یہ بھی مشہور ہے کہ اصل قلعہ اوپر پہاڑوں کے درمیان تھا جبکہ یہ جگہ راجہ صاحب کی رہائش گاہ تھی۔خدا جانے اِس بات میں کتنی صداقت ہے لیکن یہ رہائش گاہ بھی کسی قلعے سے کم نہیں تھی۔ راجہ اور اُس کے گھر والوں کے لیے ہنگامی حالت میں نکلنے کے لیے راستے بنائے گئے تھے حتّیٰ کہ اُن کے سونے کے کمروں کے باہر سیڑھیوں کو بھی دروازے سے بند کر کے تالا لگا دیا جاتا تھا اور اُس پر محافظ پہرا دیتا تھا۔ گائیڈ نے ہمیں راجہ اور رانی کی خوابگاہیں بھی دکھائیں مگر یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ دونوں الگ الگ کمروں میں کیوں سوتے تھے!

ہمارے ہر فن مولا ڈرائیور نے بتایا کہ سکردو سے خپلو جاتے ہوئے ایک مقام پر سڑک کارگل کی طرف جاتی ہے جس پر سفر کر کے آپ دو اڑھائی گھنٹوں میں کارگل پہنچ سکتے ہیں۔ ایک لمحے کے لیے ہمارا دل تو کیا کہ گاڑی کا رُخ کارگل کی طرف موڑ لیں مگر پھر یہ سوچ کر ارادہ ملتوی کر دیا کہ اتنا ایڈونچر اچھا نہیں۔خپلو کے قریب ہی سالنگ نامی ایک گاؤں کی بھی تعریف سنی تھی، یہ گاؤں خپلو سے بیس پچیس منٹ کی مسافت پر ہے۔ دریا کو ہم نے پُل کے ذریعے عبور کیا۔ دریا کے پار اترتے ہی ہمیں یوں لگا جیسے ہم دنیا کے آخری کونے میں آ گئے ہیں۔ یہاں نہ کوئی بندہ تھا نہ بندے کی ذات۔ کچھ مزید آگے گئے تو گاؤں کے آثار نظر آئے حتّی ٰ کہ وہاں ایک کرکٹ سٹیڈیم بھی تھا۔ سالنگ میں بہت سے فش فارم ہیں جہاں ٹراؤٹ فش ملتی ہے۔ ہم جس فارم پر گئے وہ ویران پڑا تھا مگر اُس کے مالک نے بتایا کہ دوپہر میں پانچ سات ٹولیاں کھانا کھا کر گئی ہیں سو کام چل رہا ہے، آگے سیزن میں رش ہو گا۔

واپسی پر جب ہم اسی پُل سے گزرے تو سامنے کا منظر دیکھ کر دھک سے رہ گئے۔ ہمارے دونوں جانب دریائے شیوک تھا جس کا پانی ہر پل رنگ بدل رہا تھا اور بالکل سامنے بلند و بالا پہاڑ۔ دنیا میں لا تعداد جگہیں ایسی ہیں جہاں پہاڑ اور دریا آپس میں ملتے ہیں مگر وہ پہاڑ دریا سے دور ہوتے ہیں، اِس قدر قریب پہاڑ میں نے خپلو کے علاوہ صرف ناروے میں ایک جگہ دیکھا تھا مگر اُس کے ساتھ بھی جھیل تھی ایسا دریا نہیں تھا۔ ہم ٹکٹکی باندھ کر اُس پہاڑ کو دیکھتے رہے، شام کے سائے گہرے ہونے والے تھے اور یہاں ویرانی بڑھتی جا رہی تھی، مگر اِس ویرانی میں عجیب سا رومانس تھا۔ میں نے گھڑی دیکھی، اُس کی سوئیاں حرکت نہیں کر رہی تھیں، شاید میرا وہم تھا یا پھر وقت سچ مُچ تھم گیا تھا۔ اُس لمحے مجھ پر آشکار ہوا کہ آئن سٹائن کا خصوصی نظریہ اضافیت درست ہے۔

لوگ کہتے ہیں کہ ہم سیاحت سے کروڑوں ڈالر کما سکتے ہیں، شاید یہ بات درست ہو، مگر سکردو میں چار دن گزارنے کے بعد میں اِس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ کروڑوں تو کیا ہم سیاحت سے چند لاکھ ڈالر بھی اُس وقت تک نہیں کما سکتے جب تک کمانے کا کوئی طریقہ دریافت نہ کر لیں۔ سکردو میں ہزاروں غیر ملکی سیاح آتے ہیں مگر اِس سے حکومت کو ایک دھیلے کا فائدہ نہیں پہنچتا۔ کیوں؟ اِس بات کا جواب اگلے کالم میں تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔

بشکریہ ہم سب
واپس کریں