دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پاکستان ، آزاد کشمیر اور کشمیر کاز
اطہرمسعود وانی
اطہرمسعود وانی
ہندوستان کی سپریم کورٹ کی طرف سے ہندوستانی حکومت کے5اگست2019کے اقدام کی توثیق کے فیصلے کے تناظر میں پاکستان کے عبوری وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے آزاد کشمیر کے دارلحکومت مظفر آباد کا دورہ کیا۔ انہوں نے آزاد کشمیر اسمبلی اجلاس میں شرکت کی اور آزاد کشمیر کے سیاسی رہنمائوںاور حریت نمائندگان سے ملاقاتیں کیں۔ عبوری وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ مسئلہ کشمیر سے متعلق پالیسی، حکمت عملی کے لئے کشمیریوں کی مشاورت کو یقینی بنایا جائے گا اور ان کے اس دورے کا مقصد بھی یہی ہے۔آزاد کشمیر کے سابق وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان نے اس اسمبلی اجلاس میں اپنی تقریر میں اس بات پہ زور دیا کہ کشمیریوں پہ اعتماد کیا جائے۔ انہوں نے اس بات کا شکوہ کیا کہ کشمیریوں پہ اعتماد نہیں کیا جا تا۔پاکستان میں عام انتخابات سے پہلے عبوری حکومت قائم کرنے کا طریقہ کار رائج ہے اور اس عبوری حکومت کا کام قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کرانا اور نئی حکومت کے قیام تک امور حکومت کو چلانا ہوتا ہے۔ یوں کشمیر سے متعلق پالیسی اور حکمت عملی ترتیب دینا عبوری وزیر اعظم کے دائرہ اختیار سے باہر کا معاملہ واضح طور پر ظاہر ہے۔

آزاد کشمیر کی طرف سے کافی عرصہ سے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ حکومت پاکستان کشمیر کاز کے تناظر میں آزاد کشمیر حکومت کو کردار تفویض کرے تا کہ آزاد کشمیر حکومت کشمیریوں کی نمائندگی کرتے ہوئے بیرون ملک کشمیریوں کا مقدمہ پیش کر سکے۔بظاہر تو یہ مطالبہ بہت اچھا معلوم ہوتا ہے تاہم جب آزاد کشمیر کی حکومتوں کے اس کردار کو دیکھا جاتا ہے کہ آزاد کشمیر کی حکومتوں نے حاصل اختیارات اور اپنے دائرہ کار میں کشمیر کاز کے لئے کیا کام کیا ہے ، تو ایک مایوس کن صورتحال سامنے آتی ہے۔کشمیر کاز سے متعلق آزاد کشمیر کی حکومتوں کی غیر سنجیدگی اور اس مسئلے پہ ان کا کردار محض کھوکھلے بیانات کی حد تک ہی نظر آتا ہے۔آزاد کشمیر کی حکومتوں کی طرح آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتیں بھی کشمیر کاز سے متعلق اپنی ذمہ داریوں سے بے پرواہ ، مجرمانہ غفلت میں مبتلا نظر آتی ہیں۔

1949میں طے پائے معاہدہ کراچی کی رو سے آزاد کشمیر حکومت سے کشمیر سے متعلق دفاع اور خارجہ امور حکومت پاکستان کے سپرد کئے گئے۔آج بھی حکومت پاکستان کی طرف سے آزاد کشمیر میں چیف سیکرٹری کی تعیناتی کے نوٹیفیکیشن میں معاہدہ کراچی کی متعلقہ دفعہ کا حوالہ دیا جاتا ہے۔آزادکشمیر کی حکومت اور سیاسی جماعتوں سے یہ سمجھ لیا کہ دفاع اور خارجہ امور حکومت پاکستان کے سپرد ہونے سے وہ ان امور سے لاتعلق ہو گئے ہیں،ان کا ان امور سے کوئی تعلق باقی نہیں رہا اور ان کی طرف سے بارہا اس بات کا اظہار بھی کیا جاتا ہے۔ جبکہ معاہدہ کراچی میں آزاد کشمیر کے دفاع اور خارجہ امور کو حکومت پاکستان کے سپرد کرنے کے امور شامل کرنے سے ہی واضح ہوتا ہے کہ آزاد کشمیر کے دفاع اور خارجہ امور کی نوعیت پاکستان کے دفاع اور خارجہ امور سے الگ طور پہ بھی ہے۔آزاد کشمیر کی حکومت ،سیاسی جماعتیں کشمیر کاز سے متعلق ان امورسے لاتعلق نہیں ہوجاتیں بلکہ ا ن کی ذمہ داری ہے کہ وہ کشمیر کاز سے متعلق دفاع اور خارجہ امور سے متعلق حکومت پاکستان سے قریبی رابطہ استوار رکھیں ، اس بات پہ زور دیں کہ کشمیر کاز سے متعلق ان امور پہ حکومت پاکستان نے کیا کیا ہے اور کیا کرنے کا ارادہ ہے۔

صرف آزاد کشمیر ہی نہیں بلکہ متنازعہ ریاست جموں وکشمیر کے تمام خطوں کے عوام کی نمائندگی میں کام کرنا آزاد کشمیر حکومت اور سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے۔کشمیریوں کے حقوق و امنگوں کی وکالت اس کی بنیادی ذمہ داری ہے ، جس سے یہ چشم پوشی نہیں کر سکتی۔کشمیریوں کی نمائندگی کی ذمہ داری کے طور پرآزاد کشمیر حکومت سفارتی کوششوں میں مشغول ہو سکتی ہے،مختلف ملکوں، عالمی تنظمیوں سے رابطے کر سکتی ہے۔ متنازعہ ریاست کے تمام خطوں کے عوام کے درمیان رابطے و تعاون کے لئے متحرک ہو سکتی ہے۔اس حوالے سے آزاد کشمیر حکومت سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی، کمیونٹی لیڈرز اور سٹیک ہولڈرز کا تعاون بھی حاصل کرتے ہوئے اپنی ذمہ داری کے مطابق کام کر سکتی ہے۔ہندوستانی مقبوضہ جموں وکشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے متحرک ہو سکتی ہے۔کشمیریوں کی نمائندگی میں پاکستان کی حکومت، اداروں سے کشمیر کاز سے متعلق مسلسل رابطے، باز پرس کا کام کر سکتی ہے۔لیکن افسوس ، آزاد کشمیر حکومت اور سیاسی رہنما بھی سرکاری ملازمین کے انداز میں تابعداری میںمحدود نظر آتے ہیں۔

آزاد کشمیر کی ہر حکومت کی طرح موجودہ حکومت بھی اس بات کا اعادہ کرتی رہتی ہے کہ وہ کشمیر کاز سے متعلق اپنا کردار بھر پور طور پر ادار کریں گے لیکن عملی طور پر ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔1987میںآزاد کشمیر میں کشمیر لبریشن سیل کا قیام کشمیر کاز سے متعلق علمی سطح کے کام، ڈاکومیٹیشن کی حوالے سے عمل میں لایا گیا تھا لیکن آزاد کشمیر کی حکومتوں نے آزادکشمیر میں کشمیر کاز سے متعلق واحد اس ادارے کو بھی مقامی، قبیلائی مفادات کی بھینٹ چڑھایا دیا۔پاکستان کی حکومت، اسٹیبلشمنٹ جب یہ دیکھتی ہیں کہ آزاد کشمیر کی حکومت، سیاسی جماعتوں کی طرف سے کشمیر کاز کا تذکرہ محض اپنی اہمیت جتلاتے ہوئے مزید مفادات کے حصول، سیاسی قد کاٹھ میں اضافے کے لئے ہی کیا جاتا ہے، عملی طور پر اپنے وسائل میں اس حوالے سے کچھ نہیں کیاجاتا ، تو وہ آزاد کشمیر حکومت ، سیاسی رہنمائوں کے اس مطالبے کو غیر سنجیدہ اور محض ایک سیاسی حربے کے طور پہ ہی دیکھتے ہیں کہ آزاد کشمیر حکومت، آزاد کشمیر کے سیاسی رہنمائوں کو کشمیر کاز کے حوالے سے کردار تفویض کیاجائے۔

وزیر اعظم آزاد کشمیر چودھری انوار الحق کی صدارت میں20دسمبر کو کشمیر ہائوس اسلام آباد میں آل پارٹیز جموں وکشمیر کانفرنس منعقد کی گئی جس میں آزاد کشمیر کی سیاسی ، مذہبی جماعتوں کے رہنمائوں، نمائندگان حریت کانفرنس اور ایک این جی او کے نمائندے نے شرکت کی۔حسب روایت اس کانفرنس میں بھی قرار دادیںمنظور کی گئیں اور اسی اعلان پہ اکتفا کو مناسب سمجھا گیا کہ کشمیر کا مسئلہ اندرون و بیرون ملک اجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کیا جائے گا۔آزاد کشمیر ہو یا پاکستان، کشمیر پہ بات ہو تو یہی کہا جاتا ہے کہ تمام سیاسی ، مذہبی جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس منعقد کر کے مسئلہ کشمیر پہ اتفاق رائے کیا جائے جبکہ کشمیری تو1990سے یہ دیکھتے آرہے ہیں کہ آزاد کشمیر، پاکستان، بیرون ملک کشمیر پہ کانفرنسیں ہوتی ہیں، اتفاق رائے کیا جاتا ہے لیکن اس بات پہ کوئی توجہ نہیں دی جاتی کہ موجودہ صورتحال میں کرنا کیا ہے؟ ان پہ کیا ذمہ داری عائید ہوتی ہے؟یہی وجہ ہے کہ ایسی کانفرنسوںکو محض ایک پروپیگنڈہ سٹنٹ کے طور پہ ہی دیکھا جاتا ہے اور حکومتوں، سیاسی رہنمائوں ، این جی اوز کے ایسے اجتماعات سے کشمیری کوئی توقع،کوئی امید وابستہ نہیں کر سکتے۔

گزشتہ دنوں پاکستانی میڈیا پہ بالخصوص یہ سوال اٹھایا گیا کہ مسئلہ کشمیر کی موجودہ صورتحال میں پاکستان کے پاس کیا آپشنز موجود ہیں؟ سوال تو اچھا ہے لیکن اس کا جواب مناسب طور پر سامنے نہیں آ سکا، باوجود اس کے کہ جواب دینے والوں میں سیاستدان، دانشور، صحافی، سابق سفارت کار بھی شامل تھے۔شاید اس کی وجہ مسئلہ کشمیر میں دلچسپی اور اخلاص میں کمی ہے۔حکومتی، انتظامی، سیاسی اور میڈیا کے محاذ پہ ایسے کئی اقدامات تجویز کئے جا سکتے ہیں جو پاکستان اپنے وسائل، موجودہ صورتحال کے باوجود کرنے کی اہلیت رکھتا ہے اور ان اقدامات کے اٹھائے جانے سے پاکستان کو درپیش کئی مسائل اور خطرات کا بھی بہتر انداز میں کائونٹر ہو سکتا ہے۔


اطہر مسعود وانی
03335176429



واپس کریں