دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سیاسی استحکام ناگزیر پہ اتفاق لیکن عمل ندارد
اطہرمسعود وانی
اطہرمسعود وانی
اس بات پہ سب کا اتفاق نظر آتا ہے کہ ابتر معاشی حالت کی بہتری کے لئے ملک میں سیاسی استحکام کا قیام ناگزیر ہے۔سیاسی استحکام سے مراد یہ نہیں کہ کوئی قوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سختی کے ماحول میں اپنی حاکمیت، حکومت کو طوالت دے بلکہ سیاسی استحکام کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں حاکمیت کا قبلہ درست کیا جائے اور عوامی پارلیمنٹ کی حقیقی بالادستی کویقینی بنایا جائے۔ملک میں سیاسی استحکام کو ناگزیر قرار دینے والوں میں مختلف شعبہ ہائے زندگی کے افراد کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ کا بھی اتفاق نظر آتا ہے۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے آتے ہی اس بات پہ زور دیا کہ فوج کو سیاست سے الگ کیا جائے ۔ سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کے اتفاق کے ساتھ قائم ' پی ڈی ایم' حکومت کے بعد عام انتخابات سے پہلے عبوری حکومت کا قیام عمل میں آیا تاہم ابھی تک ایسے کوئی اشارے نہیں مل سکے کہ ملک میں پائیدار سیاسی استحکام کے قیام کے لئے کوئی کام ہو رہا ہو۔

عمران خان کی گرفتاری کے بعد تحریک انصاف کی طرف سے9مئی کو دفاعی تنصیبات پر مظاہرین کے حملوں کے بعد ان عناصر کے خلاف ملک گیر کاروائی شروع ہوئی تو ساتھ ہی یہ توقع بھی ظاہر ہوئی کہ عمران خان کو لانچ اور استعمال کرنے والے افراد کے خلاف بھی کاروائی کی جائے گی۔ 9مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف کاروائی تو شروع ہوئی لیکن عمران خان کے ذریعے ملک کو تباہی کے راستے پہ ڈالنے والے منصوبہ سازوں کے خلاف کاروائی اب خارج از امکان کے طور پر واضح ہے۔ملک میں اقتصادی بہتری کے لئے مختلف نوعیت کے کئی اقدامات کئے گئے لیکن اس بات کو فراموش کر دیا گیا ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام کے قیام کے بغیر بہتری کے اقدامات عارضی اور مصنوعی نوعیت کے ہی ثابت ہوتے ہیں جس سے ملک میں بہتری لانا ممکن نہیں ہو سکتا۔

ملک میں عام انتخابات کی تاریخ طے ہونے اور الیکشن کمیشن کی طرف سے انتخابات کروانے کا عمل جاری ہونے کے باوجود انتخابات کو ملتوی کرانے کی کوششیں بھی نظر آ رہی ہیں۔انتخابی مہم کے ساتھ ہی سابق پی ڈی ایم حکومت کی دوبڑی اتحادی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان سیاسی مخالفت میں تیزی آتی جا رہی ہے۔مسلم لیگ ن اپنے قائد محمد نواز شریف کو وزیر اعظم بنوانے کے لئے لئے پر عزم ہے جبکہ پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کو نیا وزیر اعظم بنوانے کے انتخابی نعرے کے ساتھ متحرک ہے۔مسلم لیگ ن ایسے سیاسی گروپوں کے ساتھ بھی انتخابی اتحاد قائم کر رہی ہے جو واضح طور پر اسٹیبلشمنٹ کے آلہ کار کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔اس انتخابی حکمت عملی سے عام انتخابات میں کوئی فائدہ ہونا تو مبہم ہے لیکن اس سے مسلم لیگ ن اپنی اخلاقی برتری سے محروم ہو رہی ہے اور اس سے مسلم لیگ ن کو دوررس نتائج پر مبنی نقصانات سے دوچار ہونے کے امکانات میں تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔اس صورتحال کا ایک پہلو یہ بھی سامنے آتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کسی سیاسی جماعت کو اتنا مضبوط نہیں دیکھنا چاہتی کہ وہ ملک میں حاکمیت کا قبلہ درست کرنے اور عوامی پارلیمنٹ کی بالادستی کے حوالے سے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے لئے چیلنج کے طورپر سامنے آ سکے۔

اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ حکومت میں آنے کے بعد پارلیمنٹ کی بالادستی کا ہدف حاصل کرنے، عوامی حکومت کو ملک کی پالیسیاں بنانے اور ملک و عوام کی تقدیر کے فیصلے کرنے کے کا اختیار بتدریج حکومت کوحاصل ہو جائے گا، تو ایسی امید خود فریبی پہ مبنی ہو گی کیونکہ اس طرح کے تجربات کئی بار ناکامی سے ہمکنار ہو چکے ہیں۔فوجی اسٹیبلشمنٹ کے سامنے مجبور، تابعدار حکومت نہ تو ملک میں ایسی پائیدار اقتصادی اصلاحات لا سکتی ہے جس سے عوام مستفید ہو سکیں اور نہ ہی ملک میں معاشی بہتری کے لئے سیاسی استحکام کے قیام کے شرط پوری ہو سکے گی۔شخصیات بدستور اپنے معیاد عہدہ کے مفادات میں مقید نظر آتی ہیں اور ادارے طبقاتی بالادستی کو یقینی بنانے کے اہداف پہ بدستور پہرہ دیتے نظر آ رہے ہیں۔


اطہر مسعود وانی
03335176429

واپس کریں