دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آپریشن صدارتی نظام بذریعہ عمران خان
اطہرمسعود وانی
اطہرمسعود وانی
عمران خان کی حکومت ختم ہونے سے پہلے ہی یہ منصوبہ بے نقاب ہو چکا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ ملک کے پارلیمانی نظام کو ختم کرتے ہوئے صدارتی نظام قائم کرنے اور 18 ویں ترمیم کے مقاصد کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس منصوبے کی کامیابی کے لئے عمران خان کو الیکشن میں دو تہائی اکثریت دلانا ضروری تھا لیکن عمران خان کی بری حکومتی کارکردگی نے اسٹیبلشمنٹ کے اس خواب کو چکنا چور کر دیا۔ پی ڈی ایم کی حکومت قائم ہوئی تو یہ بھی واضح ہونا شروع ہو گیا کہ پارلیمانی بالادستی کے حوالے سے اسٹیبلشمنٹ کی ماورائے آئین بالادستی کے خلاف پی ڈی ایم کے عزم کے لئے وسیع عوامی حمایت مایوسی میں تبدیل ہو رہی ہے۔ ساتھ ہی سیاسی نظام کو کمزور کرنے کے مختلف اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوام کو پارلیمانی سیاسی نظام سے متنفر کرنے کا عمل بھی زیر کار ہے۔

عمران خان کی پارٹی کے خلاف مختلف اقدامات کا ایک مخفی پہلو یہ بھی ہے کہ عمران خان کی عوامی حمایت میں اضافے کی کوشش بھی کارفرما ہے تا کہ آئندہ چند سال میں عمران خان کو الیکشن میں دو تہائی اکثریت دلاتے ہوئے پارلیمانی نظام کے خاتمے اور صدارتی نظام قائم کرنے کی پرانی خواہش کو پورا کیا جا سکے۔ بلا شبہ یہ منصوبہ تنہا اس وقت کے فوجی عہدیداران کا ہی نہیں بلکہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی دیرینہ خواہش ہے جس کو مکمل کرنے کے لئے پس پردہ کوششیں محسوس کی جا سکتی ہیں۔

ملک کے سیاہ و سفید کے مالکان کی گزشتہ چند عشروں کی پالیسیاں دیکھنے سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ملک کے اہم ترین امور میں بھی دو کشتیوں پہ بیک وقت سواری کی حکمت عملی اپناتی آئی ہے۔ یعنی عمران خان کو مظلوم اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ظاہر کرتے ہوئے اس کے لئے عوامی حمایت میں اتنا اضافہ کر دیا جائے کہ وہ دو تہائی اکثریت سے الیکشن جیتے اور ملک میں صدارتی نظام کے قیام کا اسٹیبلشمنٹ کا خواب پورا کیا جا سکے۔

محاورہ ہے کہ اگر جھاڑیوں سے دھواں اٹھ رہا ہو تو کوئی نہ کوئی چنگاری ضرور ہوتی ہے۔ پوشیدہ جگہ کوئی چیز جل رہی ہوتو نظر نہ آنے کے باوجود اس کی بو سے معلوم ہو جاتا ہے کہ کیا جل رہا ہے۔ پاکستان میں حاکمیت کی تاریخی صورتحال کے تناظر میں حالیہ الیکشن کی واقعاتی شہادتوں سے ایسی ان کہی کہانی کے امکانات ظاہر ہوتے ہیں جس کی تفصیل شاید آئندہ کبھی کسی طور سامنے آ سکے گی۔ ایک بار پھر یہ تلخ حقیقت واضح ہو رہی ہے کہ ملک کا بنیادی مسئلہ حاکمیت کا توازن درست کرنے سے متعلق ہے اور معیشت سمیت تمام سنگین مسائل کے وجہ بھی ملک میں ماورائے آئین و قانون مسلط ہائبرڈ نظام ہے۔ پی ڈی ایم کا حکومت میں آنے کے بعد فوری الیکشن نہ کرانے کا فیصلہ اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ اسی وقت سے اس طرح کے اشارے بھی مل رہے تھے کہ عمران خان کے خلاف بظاہر کارروائیاں عمران خان کی تباہ ہوتی ساکھ کو بھر پور عوامی حمایت میں تبدیل کرنے کا مرحلہ وار پروگرام ہے۔

الیکشن یوں ہوئے کہ اپنے بیگانے سبھی حیران ہی نہیں پریشان بھی ہو گئے۔ کہتے ہیں کہ جو ہوتا ہے وہ دکھائی نہیں دیتا اور جو دکھائی دیتا ہے وہ ہوتا نہیں۔ دو کشتیوں پہ سواری اسٹیبلشمنٹ کی ریت پرانی ہے۔ الیکشن سے پہلے ہی یہ واضح ہو چکا تھا کہ کوئی بھی پارٹی اپنے بل بوتے حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہو گی اور آئندہ مخلوط حکومت ہی بنے گی۔ کل تک کوئی بھی شاہد خاقان عباسی کے موقف کو اہمیت نہیں دیتا تھا لیکن اب معلوم ہوتا ہے کہ وہ پس پردہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے درست طور پر خدشات کا اظہار کر رہے تھے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ بحیثیت مجموعی سیاسی جماعتیں ماتحت حکومت کے کردار کو ہی قبول کرتے ہوئے پارلیمنٹ کی بالادستی کے مطالبے سے دستبردار ہو چکی ہیں۔

پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں کو جتوانے، مسلم لیگ نون کو سادہ اکثریت سے روکنے اور نواز شریف کو وزیر اعظم نہ بننے دینے کے اقدامات سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان میں بہتری کے کوئی امکانات نہیں، بے ڈھنگی تھی جو چال، سو اب بھی ہے ۔ اگر مسلم لیگ نون اور مولانا فضل الرحمان اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کرتے تو عوام میں امید کی کرن دوبارہ جاگ سکتی تھی۔ ایسی صورتحال اسٹیبلشمنٹ کے سجائے گئے منظر نامے کو پلٹ سکتی تھی۔

لیکن حکومت سے مستفید ہونے کی چاشنی اتنی لذیذ ہوتی ہے کہ سیاسی جماعتیں اس سے مستفید ہونے کے لئے جمہوریت کی بالا دستی کے عزم کو پس پشت ڈالنے پر ہر دم آمادہ رہتی ہیں۔ سیاسی جماعتیں کو اس بات کا بھی خطرہ رہتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اپوزیشن کا کردار اپنانے سے مقدمات کے دروازے کھل جائیں گے اور مختلف الزامات میں سرکاری تادیبی کارروائیاں شروع ہو جائیں گی۔ ماضی قریب کے اتحادیوں کا ایک دوسرے کے خلاف الزامات میں ملوث ہو نا اور پھر مفادات کے لئے حکومت میں آ نے کے فیصلے سے بھی سیاسی شعبے میں انتشار کی صورتحال ظاہر ہوتی ہے۔ تاہم اس دلیل کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ حکومت حاصل نہ کرنے کی صورت معاملات مکمل طور پر ہاتھ سے نکل جاتے ہیں۔

پاکستان میں سرکاری تنخواہ داروں کی طرف سے آئین و قانون کی مکمل پاسداری نہ کرنا ایک بڑے مسئلے کے طور پر درپیش ہے اور اس سے کئی سنگین، مہلک، خطرناک خرابیاں درپیش ہیں۔ ان دنوں ٹویٹر کا بار بار بند ہونا اور کسی کی طرف سے ذمہ داری قبول نہ کرنے سے بھی واضح ہوتا ہے کہ ملک پہ ہائبرڈ نظام بدستور مسلط ہے اور نئی حکومت قائم ہونے کے بعد بھی قائم رہے گا۔ اسٹیبلشمنٹ کے منصوبوں کو ناکام مت کہو کہ یہ سلسلہ بلا کسی چیلنج ابھی جاری ہے۔

ایک طرف ملک میں حکومت سازی کی کارروائیاں جاری ہیں اور دوسری طرف یوٹیلٹی بلز، اشیائے خورد و نوش اور ادویات کی بھی قیمتوں میں تیزی سے اضافے کا سلسلہ بلا تعطل جاری ہے۔ پہلے غلام افراد کی ملکیت ہوتے تھے جو اپنی محنت کی کمائی کا غالب ترین حصہ اپنے مالک کو دینے کے پابند ہوتے تھے، پاکستان جیسے ملک میں اب غلاموں کو عوام کہا جاتا ہے جن کی ملکیت ملکی انتظامیہ، حکومت کے پاس ہوتی ہے، عوام اپنی کمائی کا غالب حصہ حکومت کو دینے کے پابند ہوتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ، سیاستدانوں کے پاس تیزی سے بڑھتی مہنگائی میں مزید اضافے کے جواز بہت سے ہیں لیکن مہنگائی کی ذلت سے نبرد آزما عوام کو ریلیف دینے کے لئے ان کے پاس محض دعائیں اور نیک خواہشات ہیں۔


اطہر مسعود وانی
03335176429




واپس کریں