دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آزاد کشمیر کے وزیر اعظم چودھری انوا ر حکومت کا ایک طائرانہ جائزہ
اطہرمسعود وانی
اطہرمسعود وانی
آزا کشمیر میں وزیر اعظم چودھری انوا ر الحق حکومت کی نااہلی کا ایک سنگین پہلو یہ بھی ہے کہ عوامی مسائل کے حل سے متعلق مزاکرات میں عوامی ایکشن کمیٹی کے ساتھ معاملات کو یکسو نہ کیا گیا جس سے یہ دن دیکھنا پڑا ہے کہ ایکشن کمیٹی کی طرف سے 5فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پہ آزاد کشمیر میں احتجاج کی کال دی گئی ہے۔وزیر اعظم انوا ر الحق کی طرف سے وزراء پہ مشتمل وزارتی کمیٹی اور ایکشن کمیٹی کے درمیان مزاکرات کے کئی دور ہوئے لیکن یہ معاملہ نتیجہ خیز ثابت نہ ہوا۔ یوں مزاکرات کے ذریعے عوامی مسائل کے حل کے لئے آمادہ ایکشن کمیٹی کو یہ موقع دیا گیا کہ وہ مقبوضہ جموں وکشمیر کے آزادی پسندوں سے یکجہتی کے دن آزاد کشمیر کے مسائل کے حوالے سے ہڑتال اور احتجاجی مظاہروں کا اعلان کرتے ہوئے آزاد کشمیر میں حالات خراب کرنے کا آغاز کرسکیں۔آزاد کشمیر میں کئی ہفتوں سے عوامی مسائل کے حوالے سے جاری احتجاجی تحریک کے دوران ایک پہلو یہ بھی سامنے آیا کہ بعض عناصر عوامی مسائل و مطالبات کے حوالے سے احتجاج کو اپنے مخصوص مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی کوشش میں ہیں۔یوں اس صورتحال میں آزاد کشمیر حکومت کی نااہلی اور غفلت مجرمانہ نوعیت میں بھی سامنے آتی ہے اور آزاد کشمیر میں حالات خراب کرنے کی کوشش میں آزاد کشمیر حکومت بھی برابر کی ذمہ دار ثابت ہوتی ہے۔

آزاد کشمیر میں تحریک انصاف کے عبدالقیوم نیازی کی حکومت کو تقریبا 8ماہ کے اقتدار کے بعد اپنی ہی پارٹی کے تنویر الیاس کی طرف سے عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے ہٹایا گیا اور اس کے بعد تقریبا ایک سال کے بعد تنویر الیاس توہین عدالت کے الزام میں وزارت عظمی کے عہدے سے محروم ہوگئے۔اس کے بعد تحریک انصاف حکومت کے سپیکر اسمبلی چودھری انوا رالحق غیر متوقع طور پر 20اپریل2023کو آدھی رات کے وقت اسمبلی اجلاس میں آزاد کشمیر کے وزیر اعظم بنوا دیئے گئے۔عموما حکومتیں ایک سال کے بعد اپنی کارکردگی کی تشہیری رپورٹ جاری کرتی ہیں لیکن وزیر اعظم چودھری انوار نے تقریبا ساڑھے آٹھ ماہ کے عرصے کے بعد ہی اپنی حکومت کی تشہیر کو ضروری تصور کیا۔اس حوالے سے تقریبا6درجن روزنامہ اخبارات میں وزیر اعظم چودھری انوا رالحق حکومت کی تشہیر میں ایک صفحے کے خصوصی اشتہارات شائع کرائے گئے۔ دلچسپ بات یہ کہ آزاد کشمیر حکومت کی دو ذمہ دار شخصیات کے بقول یہ اشتہار جاری کرنے والے اخبارات کا تعین وزیر اعظم چودھری انوار الحق نے خود کیا۔جب وزیر اعظم خود اشتہار جاری کرنے کی فہرستیں تیار کرنے لگے تو اس سے وزیر اعظم کی سوچ اور اپروچ کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے ۔

وزیر اعظم چودھری انوار الحق اپنے ہر بیان میں اپنی اور اپنی حکومت کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے۔کسی حکومت کے اچھے اقدامات کی لوگ تعریف کرتے ہیں، اس کے لئے حکومتی عہدیداروں کو خود اپنی تعریف نہیں کرنا پڑتی بلکہ حامی تو حامی مخالفین بھی ان اچھے اقدامات کا اعتراف کرنے پہ مجبور ہو جاتے ہیں کیونکہ ان اچھے اقدامات کا تعلق اجتماعی امور سے ہوتا ہے اور سب ہی اس سے مستفید ہوتے ہیں۔ اس کی ایک بڑی مثال آزاد کشمیر کے عبوری آئین کی13ویں ترمیم ہے۔ وزیر اعظم چودھری انوار الحق کی قابلیت ، اہلیت اور اعتبار کا تو یہ عالم ہے کہ ا ن کو وزیر اعظم بنوانے والوں کو وزیر اعظم چودھری انوا ر کی حکومت کو چلانے کے لئے کشمیر ہائوس اسلام آباد کے ریسٹ ہائوس میں چند کمروں پہ مشتمل '' سیکرٹریٹ '' قائم کرنا پڑا اور ایسا آزاد کشمیر کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ آزاد کشمیر کی حکومت کو چلانے کے لئے آزاد کشمیر کا انتظام چلانے والوں کو ایسا قدم اٹھانا پڑا ہے۔

آزاد کشمیر حکومت کے تشہیری اشتہار کے شروع میں وزیر اعظم انوار الحق کا سب سے بڑا کارنامہ یہ بتایا گیا ہے کہ ان کا بلامقابلہ 48ووٹوں سے انتخاب ہوا ہے۔کون نہیں جانتا کہ سابق وزیر اعظم تنویر الیاس کی سبکدوشی کے بعد پیپلز پارٹی کے مختلف دھڑے نئے وزیر اعظم کے لئے متحرک تھے اور پیپلز پارٹی کی مختلف شخصیات نئے وزیر اعظم کے طور پر سامنے آ رہی تھیں۔خیال یہی تھا کہ پیپلز پارٹی کے نئے وزیر اعظم کی تحریک انصاف کا ایک باغی دھڑا حمایت کرے گا۔تاہم غیر متوقع طور پر آزاد کشمیر کا نظام چلانے والوں کی طرف سے چودھری انوا ر الحق کو نئے وزیر اعظم کے لئے امیدوار کے طور پر سامنے لایا گیا اور تحریک انصاف کے باغی دھڑے کے علاوہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو بھی ان کی حمایت میں ووٹ دینے کی ہدایت کی گئی۔یوں48ووٹ لے کر بلا مقابلہ وزیر اعظم منتخب ہونا چودھری انوا رالحق کا کمال نہیں بلکہ مقتدر حلقے کی ان پہ نوازش ہے۔ اب اگر وزیر اعظم چودھری انوار اس کو اپنی شخصیت کا کارنامہ سمجھتے ہیں تو ایسا خلاف حقیقت ہے۔48 ووٹ تو انہیں پی ایم بنانے والوں کا کارنامہ ہے، جس کی وسل پہ '' محمود و ایاز'' ایک ہی صف میں کندھے سے کندھا ملاکر کھڑے ہو گئے اور یک زبان ہو کر '' یس سر'' کا کاشن بلند کرتے ہوئے ہدایت کردہ وزیر اعظم کے حق میں ووٹ ڈالتے گئے۔ تشہیری اشتہار میں اس کارنامے کے ساتھ ہی دوسری ہینڈ نگ میں وزیر اعظم صاحب کا فرمانا ہے کہ '' سہ جماعتی اتحاد اور سیاسی کارکنان کی عز ت و وقار کا تحفظ''۔سہ جماعتی اتحاد کا دعوی حیران کن ہے کیونکہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے علاوہ تیسری جماعت تو کوئی نہیں ہے، وزیر اعظم چودھری انوار الحق سمیت تحریک انصاف کے باغی ارکان اسمبلی اب تک کسی جماعت میں شامل نہیں ہوئے اور نہ ہی کوئی نئی سیاسی جماعت قائم کر سکے ہیں۔ یوں انہیں باغی یا بھگوڑے ارکان تو کہا جا سکتا ہے لیکن تیسری جماعت قرار نہیں دیا جا سکتا ۔وزیر اعظم صاحب سیاسی کارکنان کی عزت اور وقار کا تحفظ کیا کریں گے، یہاں تو ان کی اتحادی جماعتوں کے رہنما بھی بہ امر مجبوری اپنی اپنی عزت بچانے کی فکر میں ہیں۔

حکومت کے کارہائے نمایاں میں پہلے نمبر پہ تحریک آزادی کشمیر کی ہیڈنگ میں کہا گیا کہ آزاد کشمیر کو حقیقی معنوں میں تحریک آزادی کا بیس کیمپ بنایا گیا، مسئلہ کشمیر کے لئے عالمی سطح پہ موثر لابنگ کے لئے تفصیلی مشاورت، آل پارٹیز کانفرنس میں جموں وکشمیر حریت کونسل کے قیام کا فیصلہ اور اس حریت کونسل کے زیر اہتمام کوٹلی میں 7جنوری کو پہلا عوامی جلسہ کرنے کا فیصلہ۔تاہم وزیر اعظم صاحب یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ آخر انہوں نے ایسے کون سے اقدامات اٹھائے ہیں کہ جس سے آزاد کشمیر کو تحریک آزادی کا بیس کیمپ بنا یا گیا ہے؟کشمیر کاز کے حوالے سے ان کا یہی اتفاق ظاہر ہوتا ہے کہ بیرون ملک کے دورے کئے جائیں۔آزاد کشمیر حکومت پاکستان انتظامیہ کی کشمیر پالیسی کو شاندار قرار دیتی ہے ۔ اگر واقعی ایسا ہے تو آزاد کشمیر حکومت کے عہدیداران کی کیا ضرورت ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے خصوصی طور پربیرون ملک جا کرلابنگ کریں۔ آزاد کشمیر حکومت نے تو آزاد کشمیر حکومت کی خارجہ پالیسی بھی دیگر امور کے ہمراہ پاکستان حکومت کے سپرد کر رکھی ہے اور ساتھ ہی آزاد کشمیر حکومت پاکستان کی کشمیر پالیسی اور حکمت عملی کو شاندار بھی قرار دیتی ہے۔ ساتھ ہی یہ بات بھی اہم ہے کہ آزاد کشمیر حکومت کے عہدیدار بیرون ملک جا کر کشمیر کاز کے حوالے سے لابنگ کرنے، بات کرنے کی صلاحیت اور اہلیت سے ہی محروم ہیں۔حقیقت یہی ہے کہ چودھری انوار حکومت بھی کشمیر کاز کے نام کو اپنے سیاسی قد کاٹھ میں اضافے کا ایک طریقہ سمجھتی ہیں لیکن وہ اس بات کا تعین کرنے سے عاری ہیں کہ کشمیر کاز کے حوالے سے ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں اور وہ اپنے دائرہ کار میں اس حوالے سے کیا کیا کر سکتے ہیں۔

آزاد کشمیر حکومت نے 5 جنوری کویوم حق خود ارادیت کے موقع پہ خصوصی اشتہار جاری نہیں کیا لیکن کوٹلی میں 7جنوری کو حق خود ارادیت کے نام پہ وزیر اعظم کے جلسے کے موقع پہ حسب ہدایت وزیر اعظم مخصوص اخبارات کو تشہیری اشتہار جاری کیا گیا۔ کوٹلی جلسے میں سامعین کا بندوبست یوں کیا گیا کہ سرکاری استاتذہ اور لیڈی ہیلتھ ورکرز کو جلسے میں لازمی طور پر شرکت کی ہدایت کی گئی اور ان کی شرکت کو لازمی بنانے کے لئے جلسے میں ان کی تحریری طور پر حاضری بھی لگائی گئی۔پروٹوکول ختم کرنے کا دعوی کرنے والے وزیر اعظم چودھری انوا رالحق کی کوٹلی آمد کے موقع پہ سڑکوں کو شہریوں کے لئے بند کرنے کی وجہ سے ایک شدید علیل ضعیف شہری بروقت ہسپتال نہ پہنچ سکا اور جاں بحق ہو گیا۔ہسپتال میں وفات پانے والے اس شہری کی لاش کے ساتھ کھڑے اس کے بیٹے کی گفتگو کی وڈیو سوشل میڈیا پہ وائرل ہوئی اور وزیر اعظم چودھری انوار الحق کا پروٹوکول ختم کرنے کے دعوے کی حقیقت بھی کھل کر سامنے آ گئی۔کسی دانا نے خوب کہا ہے کہ جب چھوٹے دل اور چھوٹے دماغ والا شخص اگر بڑے عہدے پہ آ جائے تواس سے اس عہدے کی بھی بے توقیری ہوتی ہے۔آزادکشمیر کے حساس علاقے میں اس طرح کی شخصیت کو وزیر اعظم بنوانا انہیں اس عہدے پہ لانے والوں کی بھی ایسی زیادتی ہے جس سے نا صرف یہ خطہ بلکہ کشمیر کاز بھی متاثر ہوتے ہوئے سنگین خرابیوں کی طرف پیش قدمی ہو رہی ہے۔


اطہر مسعود وانی
03335176429


واپس کریں