دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
برطانیہ میں نسل پرستی کی نئی لہر اور ہماری ذمہ داریاں
واحد کاشر ۔ لندن۔ڈڈیال
واحد کاشر ۔ لندن۔ڈڈیال
برطانیہ ان دنوں شدید ترین نسل پرستی کی زد میں ہے ۔ یہاں کے مقامی انگریز نسل پرست ہر واقعے کو باہر سے آئے ہوئے اسائیلم سیکرز یا پناہ گزینوں سے جوڑ کر ان کی بیدخلی اور آمد کو روکنے کے لئے سخت قوانین کا مطالبہ کرتے ہوئے "We want our country back" ، "ہمیں ہمارا ملک واپس چاہیے" ، کے نعرے لگارہے ہیں۔ پرسوں لندن کے مشہور زمانہ ٹریفالگر سکوائر میں ایک لاکھ سے زائد لوگ جمع ہوئے تھے اور وہ بھی پناہ گزینوں کی آمد کو روکنے کا مطالبہ کررہے تھے ۔

میں ان میں کچھ خدشات کو کسی حد تک تو درست سمجھتا ہوں جیسا کہ یہاں کا ہیلتھ سسٹم یعنی نیشنل ہیلتھ سروس کام کے دباؤ کی وجہ سے بیٹھ چکا ہے ۔ ہسپتالوں میں چھوٹی سی چوٹ لگ جائے تو کم از کم چار سے پانچ گھنٹے انتظار کرنا پڑتا ہے ، ڈاکٹر کی اپوائمنٹ کے لئے بھی کئی کئی دن انتظار کرنا پڑتا ہے ۔ یہاں کا بینفٹ سسٹم یعنی کام نہ ہونے کی وجہ سے جو رقم آپکو ملا کرتی تھی وہ اب اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہوگئی ہے ۔ دیگر بینفٹس پر بھی کٹس لگائے جاچکے ہیں۔

برطانیہ کسی حد تک اب ایک فلاحی مملکت بھی نہیں رہا ۔ اس کی وجوہات کو تلاش کیا جائے تو اس کے لئے فقط باہر سے آنے والے پناہ گزینوں کو اکیلے ذمہ دار نہیں قرار دیا جاسکتا بلکہ عالمی کساد بازاری، مختلف ممالک کی جنگیں، عالمی مالیاتی سرمایہ دارانہ نظام اور دیگر وجوہات بھی سرفہرست ہیں ۔ برطانیہ کی اکثر خارجہ پالیسیاں امریکی اثرات میں رہتی آئی ہیں یعنی امریکہ جدھر جائے گا برطانیہ بھی اس کے پیچھے کھڑا ملے گا ۔ بے شمار انگریز لوگ عراق اور افغانستان میں برطانوی افواج کو امریکی تقلید میں بھیجنے پر سخت ناراض ہیں۔ فلسطین کے معاملے میں برطانوی کردار آج بھی انگریز عوام کی تنقید کا شکار ہے ۔ حالیہ انتخابات میں نسل پرست ریفارم یوکے پارٹی کے 5 ممبران پارلیمنٹ میں چلے گئے ہیں۔

العرض برطانیہ میں نسل پرستی کو عروج مل رہا ہے جس کا نزلہ لامحالہ طور پہ ایشیائی اور دیگر کمیونٹیز پر گرے گا ، یہی صورتحال جاری رہی تو آنے والے دنوں میں ایشیائی آبادی کے افراد پر نسل پرستانہ حملے بھی ہوسکتے ہیں ، مساجد اور دیگر عبادت گاہیں بھی ان حملوں کی زد میں آسکتی ہیں ۔ ٹیکسی اور بس ڈرائیورز جن میں اپنے لوگوں کی اکثریت ہے وہ بھی ان نسل پرستوں کا نشانہ بن سکتے ہیں ۔ وہ احباب جو ایشیائی آبادی کے علاقوں سے باہر رہتے ہیں انھیں اس سلسلے میں انتہائی زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوگی ۔ آپ کے وہ بزرگ جو آپ کے ساتھ گھروں میں رہ رہے ہیں انھیں اکیلے گھر سے باہر نہ بھیجیں۔ شاپنگ کے لئے جاتے ہوئے اپنی فیملی گروپ کے ساتھ جڑے رہیں، دوران سفر بھی اردگرد گہری نظر رکھیں۔ بالخصوص ہمیں اپنی ان بچیوں کی حفاظت کے لئے آنکھیں کھولنی رکھنی پڑیں گی جو حجاب پہنتے ہوئے کام کے لئے اکیلے سفر کرتی ہیں۔

اس ساری تحریر کا مقصد کوئی ڈرامائی سنسنی پھیلانا نہیں بلکہ زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے صورتحال کا حقیقت پسندانہ تجزیہ پیش کرکے احتیاطی تدابیر کی طرف آپ کی توجہ دلانا ہے ۔
مجموعی طور پر برطانیہ کی انگریز عوام بڑے دل کی مالک ہے، فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں ، انھیں تاج برطانیہ کے سامراجی دور پر کوئی فخر بھی نہیں اور ان کی اکثریت تعصب سے کوسوں دور ہے لیکن پھر بھی پانچ انگلیاں برابر نہیں ہوتیں ہر ملک کے معاشرے میں فساد پھیلانے والے موجود ہوتے ہیں جو کہیں نہ کہیں آگ لگانے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ اس لئے احتیاط کی ضرورت ہے ۔ آنکھیں کھول کر رکھنا ضروری ہے ۔مل کر آپسی اتفاق میں رہنا لازم ہے ۔

(واحد کاشر ۔ ایک آزاد صحافی اور جموں کشمیر ٹی وی کے ہیڈ آف کرنٹ آفئیرز ہیں )
واپس کریں