دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
مقبوضہ جموں و کشمیر میں ظلم و بربریت اور لاقانونیت کے 5 سال
 ڈاکٹر راجہ محمد سجاد خان
ڈاکٹر راجہ محمد سجاد خان
ڈاکٹر راجہ محمد سجاد خان ، ڈائریکٹر کشمیر پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ مظفرآباد

ہندو بنیاد پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کے عسکری ونگ آر۔ایس۔ایس کا شروع دن سے ہندوستان اور مقبوضہ جموں و کشمیر کو صرف متشدد ہندووں کا علاقہ بنانے کا ایجنڈا ہے جس کو ہندتوا ایجنڈا کا نام دیا گیا۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کی ہندوستان کے آئین میں خصوصی حثیت اور دفعہ 35 اے ان کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔ دفعہ 370 کی وجہ سے مقبوضہ جموں و کشمیر کا علیحدہ آئین اور جھنڈا تھا اور دفعہ 35 ۔اے کی وجہ سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کو مقبوضہ جموں و کشمیر کے مستقل رہاشیوں (باشندہ ریاست) کی تعریف اور ان کے حقوق وضع کرنے کا اختیار ملا جس کی وجہ سے مقبوضہ جموں و کشمیر کے دستور 1957 میں مستقل باشندگان ریاست کی وہی تعریف شامل کی گئی جو پشتنی باشندہ ریاست کے 1927 کے قانون میں موجود تھی۔ یہی باشندگان ریاست مقبوضہ جموں و کشمیر میں جائیداد خرید کر سکتے تھے، سرکاری ملازمتیں اور سرکاری سکالرشپ حاصل کر سکتے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے ہندوستان میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد اس خصوصی حثیت کو ختم کرنے کے اقدامات شروع کیے ۔

مودی کو اس بات کا اندازہ تھا کہ ہندوستان نواز جماعتیں بھی کشمیر کی خصوصی حثیت بدلنے میں ساتھ نہیں دیں گی اس لیے 2018 میں گورنر راج نافذ کر دیا گیا اور پھر 2019 میں صدارتی رول نافذ کیا گیا ۔ پھر 05 اگست 2019 کو ہندوستان نے آرٹیکل370 میں ترمیم کی اور 35-A کو آئین سے حذف کر دیا ۔جموں و کشمیر کی ریاستی حثیت ختم کرکے اس کو دو یونین علاقوں جموں کشمیر اور لداخ میں تقسیم کر دیا گیا، مقبوضہ جموں کشمیر کا علیحدہ دستور، جھنڈا اور شناخت چھین لی گئی ۔2020 میں ڈومیسائل کا قانون تبدیل کر کے ہندوستانیوں کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں زمینیں خریدنے اور سرکاری ملازمیتیں حاصل کرنے کا راستہ دیا گیا۔ 2019 میں جموں و کشمیر ری آرگنائزیشن ایکٹ کے نام پر جو تبدیلیاں لائی گئی ان میں گذشتہ 05 سال سے مزید ترامیم لائی جا رہی ہیں جن کا مقصد صرف اور صرف مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسلم آبادی کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنا، مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کا معاشی اور سیاسی استحصال کرنا، ان کے حق نمائندگی کو محدود کرنا، سخت ترین قوانین کا سہارا لے کر ان کو قید وبند میں رکھنا، ان پر جسمانی اور ذہنی تشدد کرنا اور انہیں اپنی ہی زمین میں بے زمین کرنا ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں قانون ساز اسمبلی رکھی گئی ہے لیکن اس کو بھی محدود اختیارات دئیے گئے ہیں ۔ وزراء کی کونسل بھی لیفٹینٹ گورنر کو جوابدہ ہو گی جو ہندوستانی حکومت کا مقرر کردہ ہو گا۔

مقبوضہ جموں و کشمیر میں 2018 سے ابھی تک صدارتی رول ہی نافذ ہے اور 31 اکتوبر 2019 سے ہندوستانی لیفٹینٹ گورنر ہی وہاں سیاہ سفید کا مالک ہے۔ گذشتہ پانچ سالوں میں مقبوضہ کشمیر میں قابض فوج کی تعداد میں اس وقت تک تقریباً ایک لاکھ کا اضافہ کیا گیا ،ہندوستان کی حکومت نے ڈومیسائل قانون میں تبدیل کر کے ہندوستانیوں کو کشمیر کے ڈومیسائل جاری کر رہی ہے اور اس وقت تک 6.15 ملین سے زائد لوگوں کو ڈومیسائل جاری ہو چکے ہیں ۔ قابض ملک ہندوستان کا یہ اقدام چوتھے جنیوا کنونشن کے آرٹیکل 49 کی خلاف ورزی ہے۔نئی صنعتی پالیسی اور زمینوں کے قانون میں تبدیلی کرکے ہندوستانی صنعت کاروں اور فوج کو چھاونیوں کے لیے مقبوضہ کشمیر میں زمین لاٹ کی جا رہی ہے۔سابق ہندوستانی فوجیوں کے لیے کالونیاں بنائی جارہی ہیں۔ اس طرح پنڈت کالونیاں بنا کر اسرائیل کے طرز پر کشمیر میں مذہبی منافرت پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہندوستانیوں کو ملازمتیں دی جا رہی ہیں۔ 2024 میں جموں و کشمیر ایڈمنسٹریٹیو سروس میں 209 تقرریاں ہوئی جس میں صرف 56 کشمیری تھے اسی طرح 116 پراسیکیوٹنگ آفیسرز میں سے صرف 30 کشمیری 1200 سب انسپکٹرز میں سے صرف 199 کشمیریوں کی تقرریاں ہوئی ، جموں و کشمیر جوڈیشل سروس میں 208 تقرریاں ہوئی جس میں صرف 48 کشمیری ہیں۔
میڈیا اور سوشل میڈیا پر عوامی مطالبات پر بھی بات کرنا جرم ہے ۔ مسلمان سرکاری ملازمین کے خاندان سے بھی اگر کوئی قابض افواج کے مظالم پر تنقید کرے تو سرکاری ملازم کو نوکری سے نکال دیا جاتا ہے۔ اس وقت تک سینکڑوں ملازم برطرف کیے جا چکے ہیں۔ حریت راہنما میر واعظ عمر فاروق، مسرت عالم بٹ، شبیر شاہ، یاسین ملک، آسیہ اندرابی، ناہیدہ نسرین، فہیمیدہ صوفی ، نعیم خان، ڈاکٹر قاسم فکتو، محمد ایاز اکبر، پیر سیف ا اللہ ، شاید الاسلام ، معراج الدین کلو سمیت کئی راہنما گذشتہ کئی سالوں سے مسلسل گرفتار/ نظر بند ہیں۔انسانی حقوق کے حوالہ سے عالمی شہرت یافتہ آواز خرم پرویز، سری نگر بار کے عہدیداران اور آزاد صحافی بھی جیلوں میں ہیں۔سنئیر حریت راہنما سید علی گیلانی زیر حراست طبی سہولیات نہ ملنے کی وجہ سے شہید ہو گئے ان کے جنازہ کو قابض افواج نے قبضہ میں لیکر رات کے اندھیرے میں زبردستی دفن کیا۔

مقبوضہ جموں و کشمیر اسمبلی جس کے ہر الیکشن میں دھاندلی کر کے وادی سے کٹھ پتلی وزیر اعلی مسلط کیا جاتا تھا اس کی نشستوں میں حدبندی اور بعدازاں ری آرگنائزیشن ایکٹ کے ذریعہ ترامیم کرکے ایک طرف تو حکومت سازی کا اختیارکشمیریوں سے چھین لیا گیا اور دوسری طرف بھارتیہ جنتا پارٹی کا وزیر اعلی لانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔جموں و کشمیر وقف بورڈ کا کنٹرول حکومت نے حاصل کر لیا جس سے تمام درگاہوں اور مساجد پر حکومت نے کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ جمعہ اور دیگر مذہبی اجتماعات پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں۔مقبوضہ جموں و کشمیر میں حریت کانفرنس سمیت تمام آزادی پسند جماعتوں پر پابندی عائد کر دی گئی ہے، فیک انکاونٹر میں ہزاروں جوانوں کو شہید کر دیا گیا ہے۔مقبوضہ جموں و کشمیر میں آر۔ایس۔ایس کے ورکروں کو ویلج ڈیفنس کمیٹیوں کے نام پر ہندوستان کی طرف سے اسلحہ تقسیم کیا جا رہا ہے۔ حالیہ ہندوستانی الیکشن کے بعد ایک اور ترمیم کے ذریعہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے جملہ انتظامی اختیارات لیفٹنیٹ گورنر کو دے دئیے گئے تاکہ اگرالیکشن کا انعقاد بھی ہو تو وزیر اعلی برائے نام ہو۔گذشتہ پانچ سال میں 907 عام شہریوں کو شہید کیا گیا، 24904 عام شہری گرفتار کیے گئے،133 خواتین کی عصمت دری کی گئی ۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کو ہندوستان کی عدالتوں سے کبھی انصاف نہیں ملا اور ہندوستان کی سپریم کورٹ نے اپنی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے ہندوستان کے غیر آئینی اقدام کی توثیق کی ۔

مقبوضہ جموں و کشمیر میں ترقی اور امن کے تمام دعوے کھوکھلے ہیں ، پینے کے پانی کی عدم دستیابی ، بجلی کی قیمتوں میں اضافہ، بے تحاشا لو ڈشیڈنگ اور وولٹیج کی کمی کی وجہ سے عوام احتجاج کر رہے ہیں اور ہندوستان کی قابض افواج نہ صرف خود بلکہ بی۔جے۔پی کے دہشت گردوں کے ذریعہ بھی پرامن احتجاجوں کو طاقت کے ذریعہ کچل رہی ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں لوگوں کی جائیدادوں کو تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ قرق کیا جا رہا ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کی گھریلو صنعتوں کو امرتسر منتقل کیا جا رہاہے ، اخروٹ، سیب اور زعفران کی پیدوار کو نقصان پنچایا گیا ۔ ایران اور امریکہ سے سیب امپورٹ کرنے کے لیے ڈیوٹی میں کمی کر دی گئی ہے۔ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز کی روپورٹ کے مطابق مقبوضہ جموں و کشمیر کی معشیت ابھی 2019 کی پوزیشن پر بھی بحال نہیں ہوئی۔ اپریل2015 سے مارچ 2019 تک مقبوضہ جموں و کشمیر کی خالص گھریلو پیدوار کی شرح نمو اوسطاً13.28 فیصد تھی جو اب 8.73 فیصد رہ گئی ہے۔ اس طرح فی کس گھریلو پیدوار کی شرح نمو 12.13 فی صد سے گھٹ کر 8.41 فی صدرہ گئی ہے۔ اپریل 2023 سے مارچ 2024 تک بے روزگاری کی سب سے زیادہ شرح مقبوضہ جموں و کشمیر میں رہی جو 18.3 فی صد ہے۔ ہندوستان کی وزارت صحت کے اپنے سروے کے مطابق مقبوضہ جموں و کشمیر میں 55.72 فیصد آبادی ڈپریشن کا شکار ہے۔ خود کشی اور منشیات استعمال کرنے والوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہوچکا ہے۔ فورم فار ہیومن رائٹس ان جموں و کشمیر جو ہندوستانیوں پر مشتمل ہے اس کی روپورٹ کے مطابق 2020 سے دسمبر 2023 کے دوران بدنام زمانہ کالے قوانین کے تحت 2700 سے زائد عام شہریوں کے خلاف مقدمات قائم کیے گئے۔

ہندوستان کے اقدامات عالمی قوانین اور کشمیر کے حوالہ سے اقوام متحدہ کی قراردادوں اور خصوصی طور پر91 (1951) اور 122(1957) کی خلاف ورزی ہے۔ ہندوستان کے ظلم و جبراور تمام تر ظالمانہ اقدامات کے باوجود مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کا آزادی کا جذبہ سرد نہیں ہوا یہی وجہ ہے کہ ہندوستان اپنی قابض افواج کی تعداد میں ایک فوجی کی بھی کمی نہیں کر سکا ۔ 1996 کے بعد پہلی بار بھارتیہ جنتا پارٹی کو وادی کی تین نشستوں پر اپنا امیدوار لانے کی ہمت نہیں ہوئی۔ ہندوستان کے آئین میں کوئی بھی تبدیلی یا اس کا کوئی بھی اقدام مقبوضہ جموں و کشمیر کی متنازعہ حثیت ختم نہیں کر سکتا۔




واپس کریں