جنریشن ذی (Generation Zee)کا رواں صدی میں پہلا عوامی انقلاب
فرحت علی میر۔فکر آگہی
مورخہ 5 اگست2024کو شیخ حسینہ واجد سابق وزیراعظم بنگلادیش اور سربراہ عوامی لیگ کی اپنے ہی شہریوں پر بدترین ریاستی پر جبرو تشدد ، ریاستی وسائل کے چنیدہ اشرافیہ میں ارتکاز، غیرمنصفانہ پالیسیوں اوران تمام برائیوں سے بڑھکرپست ترین درجہ کی سماجی ناانصافیوں جن میں سال ہا سال سے ریاستی ملازمتوں میںسال ١٩٧١ کی جنگ میں شامل افراد اور ان کے کنبہ جات کے لئے نافذ کردہ کوٹہ کے خلاف طلبااور پڑھے لکھے بے روزگار نوجوانوں کی جولائی میں شروع ہونے والی احتجاجی تحریک جو ریاست کی جانب سے ظلم و تشدد اورقیمتی انسانی کے قتل کے ناقابل برداشت اقدامات کے نتیجہ میں پر تشدد صورت اختیار کرگئی کے باعث عوامی انقلاب برپا ہوا اور شیخ حسینہ واجد کی قیادت میں قائم شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ اس طرح اپنے حقوق کی جنگ لڑنے والی بنگلا دیشی عوام کا احتجاج رنگ لے آیا۔ اور اس عوامی انقلاب کے سرخیل خاص کر بنگلا دیشی نوجوان تھے۔
آگے بڑھنے سے قبل اس مضمون کے عنوان یعنی جنریشن ذی اور مذکورہ انقلاب کو جنریشن ذی انقلاب قرار دینے کی وجہ واضح کرنا مناسب ہوگاْ۔ سال2000 کے بعدشروع ہونے والی رواں صدی کے دوران پیدا ہونے والی نسل انسانی کو جنریشن ذی کا نام دیا گیا ہے۔مزاحمتی تحریکوں کے تجزیہ کار موجودہ صدی کی پروان کردہ نسل کی جانب سے بنگلا دیش کی حالیہ احتجاجی تحریک اور پر تشدد مزاحمتی انقلاب کو جنریشن ذی انقلاب کا نام دیا ہے۔ گویا رواں صدی میں ریاستی ظلم و جبر ، سماجی ناانصافیوں اور اپنے انسانی بنیادی حقوق اور انصاف کے حصول کے لئے مزاحمت اورمنظم تحریک کی کامیابی کا پہلا انقلاب ماہ اگست ٢٠٢٤ کو بنگلا دیش میں برپا ہوا۔ سرکاری ملازمتوں میں سال 1971 کی عوامی لیگ کے خلفشاریوں اور انکی اولادوں اور اسی عنوان کے تحت خالصتا عوامی لیگ کے حمایت یافتہ لوگوں کے لئے 30 فیصد اور مجموعی طور پر میرٹ سے ہٹ کر 56 فیصد کوٹہ مقرر ہونے کے خلاف جولائی 2024 میں بنگلا دیشی تعلیمی اداروں کے طلباء نے منظم طور پر احتجاجی تحریک کا آغاز کیا ۔ اس طلبا احتجاجی تحریک کی قیادت کرنے والے سرخیل ڈھاکہ یونیورسٹی کے سوشیالوجی شعبہ کے طالب علم نائیدالاسلام ہیں۔ جن پرپولیس اور دیگر ایجنسیوں نے بدترین تشدد کیا مگر اس جوان نے حکومت کے سماجی انصاف کے اصولوں کی پامالی کو بے نقاب کرنے اور نیا جمہوری بنگلا دیش بنانے کے اپنے فولادی عزم کی بنیاد پر طلبا احتجاجی تحریک کو اپنے منطقی انجام تک پہنچادیا۔ نائید الاسلام کے والد ایک معلم ہیں ان کے بھائی نقیب الاسلام نے اپنے ایک انٹرویو میں نائید الاسلام پر پولیس کے بدترین تشدد کے خلاف ان کے فولادی جذبہ اور طلبا قیادت کی ذمہ داریوں کو کماحقہ پورا کرنے کے غیرمتزلزل ایمان اور حوصلہ کو فخریہ اندازمیںبیان کیا ہے۔
یاد رہے کہ5١ اگست1975 کو شیخ مجیب الرحمن کی ہلاکت اور ان کی اہلیہ بچوں سمیت بارہ افراد کنبہ کی ہلاکت کے بعد انکی بیٹی پندرہ سالوں سے اقتدار اور لگ بھگ بیس سالوں سے سیاسی طور پر متحرک رہنے والی بیٹی کو اقتدار کے ساتھ ساتھ ملک سے ہی بھاگنا پڑا۔ شیخ حسینہ واجد سابق وزیراعظم بنگلا دیش ایک فوجی ہیلی کاپٹر میں ملک سے فرار ہوکر اپنے فاشسٹ نظریات کے گرو فاشسٹ نریندرا مودی کے پاس بھارت پہنچ گیئں مگر ناکامی کا کوئی باپ نہیں ہوتا۔ چنانچہ نریندرا مودی انھیں عارضی پناہ دینے پر راضی ہوا اور بھارت میں ان کے مستقل قیام سے انکار کردیا گیا ۔ شیخ حسینہ واجد اس وقت جائے پناہ کے لئے کشکول لیکر برطانوی حکومت سے پناہ اور مستقل قیام کی بھیک مانگ رہی ہیں ۔ انکی بہن ریحانہ واجد برطانوی شہری اور بھانجی برطانوی پارلیمنٹ کی ممبر ہیں مگرابھی تک ان کی درخواست پر کوئی شنوائی نہ ہوسکی۔ البتہ بنگلادیش میں حکومت سے ظلم و تشدد کے نتیجہ میں چار سو کے قریب انسانی جانوں کے ضیاع اور پرتشدد اقدامات کو برطانوی وزیرخارجہ نے المناک واقعات قرار دیکر اقوام متحدہ کی نگرانی میں مکمل تحقیقات کا مطالبہ کردیا ہے۔
شیخ حسینہ واجد کی بدبختی کہ انہوں نے بھارتی گجرات کے قصاب، مذہبی جنونی، ہندوتا کے پجاری ، نازی ہٹلر اور اسرائیلی نسل کشی کی پالیسیوں کے پیروکار فاشسٹ نریندرا مودی کی شاگردگی اختیار کر لی تھی ۔ شیخ حسینہ نے پاکستان کے خلاف مودی کی زبان بولنا اور نفرت پھیلانا شروع کررکھا تھا۔ شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی نے اپنے ہی ملک کے لوگوں کو جائز حقوق مانگنے پر غدار قرار دیا ۔ تشدد اور غیر انسانی ہتھکنڈوں سے عوام کے حقوق کو غصب کرنے اورعوام کی جمہوری آوازوں کو خاموش کرنے کی پالیسی اختیار کر رکھی تھی۔انہوں نے اپنے لئے بھارتی فاشسٹ نریندرا مودی کی پشت پناہی کا انتخاب کر لیا تھا۔ انہوں نے اپنے طویل دور میں پاکستان کے خلاف نفرت اور ننگے نفرت کا کارڈ استعمال کیا۔ اپنے سیاسی حریفوں کو پاکستان کا ایجنٹ پکارا۔ اپنے ہم وطن شہریوں کو گالیاں دینے اور ان پر تشدد روا رکھنے کی پالیسی اختیار کر رکھی تھی ایسے حالات کو ہی توفاشزم کہا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنے تمام سیاسی مخالفین سمیت بنگلا دیش کے لئے گرانقدر خدمات دینے والی شخصیت گرامین بنک سے مائیکروفنانس اور قرضوں کی تقسیم کے ذریعے غربت کے خاتمہ کرنے والے نامور معیشت دان پروفیسر ڈاکٹر محمد یونس کو بھی بنگلا دیش کا دشمن قرار دیا اور انہیں قید اور پرتشدد سزائیں دلوائیں۔
شیخ حسینہ واجد نے اپنے باپ شیخ مجیب الرحمن کی طرح ہندوستان کی سامراجی اور شرانگیرنفرت پرستانہ ذہنیت اور روش اختیار کررکھی تھی جس کا شکار انہوں نے اپنی قوم اور عوام کو بنایا ۔ اقلیتوں کی زندگی اجیرن کررکھی تھی جیسا کہ فاشسٹ نریندرا مودی نے ہندوستان کے اندر مسلمانوں اور دیگر اقلیتی فرقوں پر ریاستی تشدد کے ذریعے زیر کررکھا ہے۔ان تمام ناعاقبت اندیشیوں کا نتیجہ دیکھئے کہ خود شیخ حسینہ واجد نے ملک میں نصب اپنے باپ کے جہازی مجمسوں کو شدید نفرت انگیز انداز میں مسمارکرنے پر آمادہ اور مجبور کردیا۔ عوام نے ان کے ذاتی رہائش گاہ پر حملہ اور تباہ و برباد کردیا۔ عوامی لیگ کے سیاسی راہنماوں سمیت ان کی املاک کو اپنے غم و غصہ کی بھینٹ چڑہا دیا ۔ المختصر رونما ہونے والے واقعات اور حادثات غیر جمہوری حاکمیت اور عوامی حقوق کو غصب کرنے والوں کے لئے تازیانہ ہیں۔
سال 2019 میں نریندار مودی نے مذہبی جنونیت اور آر ایس ایس کے ایجنڈا کے تحت ریاست جموں و کشمیر کی آئینی ، تاریخی، جغرافیائی ، تہذیبی اور ثقافتی حیثیت کے ساتھ ساتھ تنازعہ جموں و کشمیر پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی درجن بھر قراردادوں کر برعکس ہندوستان میں شامل کر دیا ۔ نریندرا مودی ریاست جموں و کشمیر کو مسلم اکثریتی ریاست سے ہندو اکثریتی آبادی میں تبدیل کرنے کے لئے بڑے پیمانے پر ہندوستان سے ہندووں کو آباد کر رہا ہے۔ ریاستی زمینوں کو فوجی چھاونیوں اور دیگر سیاحتی اور صنعتی مقاصد کے ناموں پر الاٹ کرنے کا سلسلہ جاری ہے ۔ ان منجملہ مذموم و مکروہ اقدامات کو کشمیریوں اور اقوام عالم نے مسترد کر دیا۔ ہندوستان بھر میں نریندرا مودی کے عوام کے خلاف بالخصوص اقلیتوں کے خلاف جاری پر تشدد ہتھکنڈوں ، غیرانسانی اور غیرآئینی اقدامات کے خلاف بھرپور مزاحمت اورہندوستان سرکار کے خلاف انقلاب نوشتہ دیوار ہے۔ نریندرا مودی کی پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے اور نفرت انگیر کاروائیوں کی مالی اور مادی پشت پناہی کا منطقی انجام بھی ہندوستان کی تباہی پر منتج ہونا فطری نتیجہ ہے۔
ڈاکٹر محمد یونس نے بنگلا دیش کی نوجوان طلبا کی درخواست پر عبوری حکومت کی سربراہی قبول کرتے ہوئے بیان دیا کہ بنگلا دیش کو نوجوانوں اور طلبا نے بچا لیا ہے۔اور ان کی مدد سے ہی ملک کو معاشی لحاظ سے مستحکم کریں گے۔ پاکستان کے عوام کی خواہش اور دعا ہے کہ بنگلا دیش میں رونما ہونے والے انقلاب کے حقیقی مقاصد پورے ہوں اور سینکڑوں انسانی جانوں کی قربانیوں اور عوامی جدوجہد کی عملی تعبیر کے طور پر صاف و شفاف انتخابات اور صحیح معنوں میں جمہوری حکومت وجود میںآکر اپنی عوام کی امنگوں اور ان کی توقعات کے مطابق انسانی بنیادی حقوق کو حد درجہ مقدم اور سماجی انصاف کے تمام تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ملک اور عوام کی معاشی ترقی اور خوشحالی کو یقینی بنائے گی۔ اورعوامی انقلاب کے بعد قائم ہونے والی جمہوری اور عوامی حکومت کسی طور اپنے پیشرو حکمرانوں کی روش اختیار نہ کرے گی بلکہ ان کے بدترین اور رسوائے زمانہ انجام کو ہرلمحہ پیش نظر رکھتے ہوئے عوامی فلاحی کے مقدس منشور کو ہی مقدم تصور کرکے حبیب جالب کے ذیل اشعار کو اپنی یادداشت کا حصہ بنائے رکھے گی۔
تم سے پہلے وہ جو ایک شخص تخت نشین تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے کا اتنا ہی یقین تھا
کوئی ٹھہرا ہو جو لوگوں کے مقابل تو بتاو
کہ کہاں ہے وہ جنھیں ناز بہت اپنے تہیں تھا
فرحت علی میر ۔ ایڈیشنل چیف سیکرٹری (ر)
واپس کریں