دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
قیام پاکستان کے بارے میں انڈین پروپیگنڈے سے متاثر بدگمان پاکستانی
 عامر یعقوب
عامر یعقوب
تحریر۔ عامر یعقوب

پین انڈین نیشنلسٹ گزشتہ 77 سالوں میں تواتر سے پراپیگنڈا کرتے چلے آئے ہیں کہ دو قومی نظریے نے ہندوستان کو دو ممالک میں تقسیم کیا جس کے نتیجے میں لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے لاکھوں جان سے گئے اور برصغیر مستقل بدامنی کا شکار ہوا۔ قیام پاکستان کے چشم دید گواہ تو اس کے سیاسی پسمنظر سے واقف تھے اس لیے اس پراپیگنڈے سے زیادہ متاثر نہ ہوئے لیکن بعد کے آنے والے اس بدگمانی کا شکار ہونے لگے کہ شاید واقعی دو قومی نظریے نے ہندو مسلم دشمنی کی بنیاد رکھی اور برصغیر کے مسلمانوں کو تین جغرافیائی زونز میں تقسیم کیا۔ لیکن تاریخ پر ایک غیرجانبدارانہ نظر بہت جلد اس حقیقت کو واضح کر دیتی ھے کہ دو قومی نظریہ ایک سماجی رویہ اور ضابطہ رہا ھے جس پر برصغیر کے ہندو اور مسلمان صدیوں سے عمل پیرا رہ کر بھی پرامن بقائے باہمی کے ماحول میں رہتے آئے ہیں۔ لیکن جب بیسویں صدی کے پہلے نصف کے دوران ہندو مڈل کلاس نے نئے تعمیر ہوتے ہوئے ہندوستان کے معاشی وسائل سرکاری اختیارات اور سیاسی طاقت پر تمام اقلیتوں کو باہر رکھ کر قبضہ کرنے کی کوشش کی تو اس کا ردعمل فطری امر تھا۔ اور یہ ردعمل تھا دو قومی نظریے کا سماجی درجے سے سیاسی درجے تک کا ارتقا اور اس کے خالق اور اولین عامل اونچی زات سے تعلق رکھنے والی ہندو مڈل کلاس اور ان کے مفادات کے نمائندہ کانگریسی سیاستدان تھے۔

مسلم لیگ کی تمام سیاسی جدوجہد ہندوستان کے اندر رہتے ہوئے چند بنیادی آئینی تحفظات تک محدود تھی اور مسلم لیگ آخری سالوں بلکہ آخری مہینوں تک متحدہ ہندوستان کے اندر رہتے ہوئے مسلمانوں سمیت تمام کمیونیٹیز کے سیاسی معاشی اور سماجی حقوق کے تحفظ کو ہی فوکس کرتی رہی۔ 23 مارچ 1940 کو لاہور میں پیش کی جانے والی قرارداد میں پاکستان کا کوئی ذکر نہ تھا۔ شمال مغرب اور شمال مشرق کے مسلم اکثریتی صوبوں کی گروپنگ ایک داخلی انتظامی مطالبہ تھا اور یہ قرارداد اقبال کے دس سال قبل خطبہ الہ آباد کا اعادہ ہی تھی جس کا مقصد ان مسلم اکثریتی علاقوں کو ہندو اکثریتی مرکز کی ناجائز دھونس سے بچانا تھا۔ علیحدگی تقسیم یا مذہبی بنیاد پر آبادیوں کے انخلا کا نہ اس میں ذکر تھا نہ اس کا کوئی اشارہ تھا۔ ستم ظریفی تو یہ ھے کہ اس قرار داد لاہور کو سب سے پہلے قرارداد پاکستان لاہور کے ہندو ملکیتی اخباروں نے ہی کہنا شروع کیا۔ قائد اعظم نے 1914 میں مسلم لیگ میں شمولیت کے بعد اپنی سیاسی جدوجہد کی بنیاد 1906 میں مسلم لیگ کے زمانہ قیام سے کیے جانے چند بنیادی مطالبات پر ہی قائم رکھی یعنی ہندوستان کے لیے یونیٹری کی بجائے وفاقی آئین، تمام کمیونیٹیز کے لیے جداگانہ انتخابات جن پر تمام سیاسی جماعتیں اپنے امیدوار نامزد کر سکتی تھی اور مقننہ اور سرکاری ملازمتوں میں سب کمیونیٹیز کی آبادی کے تناسب سے کوٹہ۔ لیکن 1942 میں کانگریس کے چھبیس سالہ ڈھٹائی پر مبنی انکار کا مقابلہ کرنے کے لیے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ ملک کی تحریک شروع کی۔ اس کے باوجود وہ ان آخری پانچ سالوں میں بھی ہندوستان میں رہنے کے لیے آمادہ رھے بشرطیکہ کانگریس قیادت ان بنیادی اور بے ضرر مطالبات پر کوئی لچک دکھا سکتی۔

ایک اور نہایت قابل توجہ پہلو یہ بھی ھے کہ تحریک پاکستان کے ان پانچ سالوں میں قائداعظم نے مذہبی بنیاد پر تقسیم یا آبادیوں کے انخلا کی کبھی کوئی بات نہیں کی بلکہ اس تاثر کو مسلسل رد کیا۔ قائداعظم کا مجوزہ پاکستان اگر وجود میں آ بھی جاتا تو اس میں گوڑگاوں اور دلی تک سارا پنجاب اور کلکتہ سمیت سارا بنگال و اسام شامل ہوتا اور اس ملک کی چالیس فیصد آبادی ہندو سکھوں پر مشتمل ہوتی اور مسلم لیگ قیادت اور خود قائداعظم بار بار اس عزم کا اعادہ کرتے رھے کہ اس ملک کا قانون اسلام کے سماجی انصاف کے اصولوں پر مبنی ہوگا جس میں تمام شہریوں کے حقوق بلا تفریق مذہب و ذات مساوی ہونگے لیکن کسی مخصوص مسلک کی شریعت کے نفاز کا انہوں نے کبھی کوئی زکر نہ کیا۔ انہوں نے مذہبی بنیاد پر تقسیم اور آبادیوں کے انخلا کا کوئی اشارہ تک نہیں کیا۔

ستم ظریفی تو یہ ھے کہ فیصلہ کن تارہخی لمحات کے دوران پنجاب اور بنگال کی مذہبی بنیاد پر تقسیم کا مطالبہ نام نہاد سیکولر اور متحدہ ہندوستانی قومیت کی داعی کانگریس کی جانب سے کیا گیا اور اس کی مخالفت اس مسلم لیگ کی طرف سے کی گئی جسے اس وقت کے کانگریسی اور نام نہاد بائیں بازو اور لبرلز کمیونلسٹ یعنی علیحدگی و فرقہ پرست کہتے تھے۔قائد اعظم تو مسلم لیگ کے ان مذکورہ بالا چار بنیادی مطالبات پر بھی کمپرومائز کرتے ہوئے قیام پاکستان سے محض چند ماہ پہلے 1946 میں کیبنٹ مشن پلان پر متفق ہوگئے تھے۔ اس پلان کے مطابق مسلم لیگ قیام پاکستان کے مطالبے سے عملا دستبردار ہو کر ہندوستان کے تین داخلی انتظامی زونز کے قیام پر رضامند ہو گئی تھی۔ یہ برطانوی حکومت کی ہندوستان کو متحد رکھنے کی آخری کوشش تھی۔ لیکن کانگریس نے پہلے اسے قبول کیا اور پھر مسترد کرکے جان بوجھ کر یہ موقع ضائع کر دیا۔ یہی نہیں 3 جون کو ہندوستان کے مقامی سیاسی تہزیبی اور جغرافیائی حلات سے قطعی نابلد اور زندگی میں پہلی مرتبہ ہندوستان میں وارد ہونے والے سائرل ریڈیکف نامی وکیل نے جب پنجاب اور بنگال کی انتہائی غیر منصفانہ اور غیرفطری مذہبی بنیاد پر تقسیم کا اعلان کیا تو سیکولر کانگریس نے اسے فورا تسلیم کیا جبکہ مسلم لیگ نے اس تقسیم کو مسترد کر دیا۔

کیا یہ واضح نہیں کرتا کہ مسلم لیگ قائداعظم کی قیادت میں جس پاکستان کے قیام کی تحریک چلا رھے تھی اس کا مقصد پنجاب اور بنگال کی مذہبی تقسیم اور آبادیوں کا انخلا نہیں تھا بلکہ شمال مغربی اور شمال مشرقی مسلم اکثریتی صوبوں کی گروپنگ پر مبنی نئے ملک کا قیام تھا جس میں کسی ایک کمیونٹی کی دھونس کے بغیر مسلمانوں ہندوں سکھوں اور دیگر تمام اقلیتوں کو اپنے آبائی علاقوں میں ہی آباد رہنے کی آزادی اور مساوی شہری حقوق کی ضمانت تھی اور ساتھ ہی اس وقت ہندوستان کی آبادی کے لحاظ سے دو تہائی مسلمانوں کو براہ راست ہندو راج سے بھی بچایا جانا مقصود تھا۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان میں آباد ہندو سکھوں کی موجودگی کے ذریعے مسلم لیگ اور بعد میں پاکستانی قیادت کے پاس ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ لیے ہندوستانی قیادت کے ساتھ bargain کرنے کی پوزیشن بھی برقرار رہتی۔ سب سے بڑھ کر اچھی بات یہ ہوتی کہ نہ صرف لاکھوں لوگ قتل اور بے گھر ہونے کی عزاب سے بچ جاتے اور پاکستان اور ہندوستان کے درمیان بدترین دشمنی کا ماحول بھی نہ پیدا ہوتا اور ان دونوں ممالک کے لوگوں کے سماجی اور معاشی تعلقات پر اس نئے ملک کے قیام کا کوئی منفی اثر مرتب نہ ہوتا۔

لیکن کانگریس قیادت ہندوستان کو سیکولرازم اور جمہوریت کے پردے میں ایک نئی ہندو سیاسی قیادت بنانے پر تلی ہوئی تھی۔کانگریس قیادت کے فوری طور پر 3 جون کے پارٹیشن پلان کو تسلیم کر لینے کے پیچھے بھی یہ محرک کار فرما تھا۔ مسلم لیگ کی جانب سے اس پلان کو مسترد کیے جانے کے جواب میں برطانوی حکومت نے اپنا Demission Plan جاری کیا جس میں یہ دھمکی دی گئی کہ اگر مسلم لیگ اور کانگریس دونوں نے غیرمشروط طور پر تسلیم نہ کیا تو برطانوی حکومت یکطرفہ طور پر ہندوستان سے انخلا شروع کر دے گی۔ یعنی مسلمانوں اور مسلم لیگ کو کانگریس اور ہندو اکثریت کے رحم و کرم پر چھوڑ کر چلتی بنے گی۔ اس دھمکی کے بعد مسلم لیگ کی مرکزی مجلس عاملہ نے بہ امر مجبوری 3 جون پارٹیشن پلان کی منظوری دی۔

لیکن اس لمحے میں بھی جب مذہبی لحاظ سے اس تقسیم شدہ ملک کے شہری بدترین قتل عام اور بے گھر ہونے کے عذاب سے گزر رھے تھے بانی پاکستان نے واضح اعلان کیا کہ ملکی معاملات میں انفرادی مذہبی شناخت کی کوئی اہمیت نہ ہوگی۔ایک رائے یہ بھی ہوسکتی ھے کہ اس کمزور پاکستان کو قبول کرنے سے بہتر تھا کہ قائداعظم اس پلان کی مخالفت پر قائم رہتے ہوئے پاکستان کے مطالبے سے دستبردار ہوتے اور متحدہ ہندوستان کو ترجیح دیتے۔ یہ بات current wisdom کی حد تک شاید کسی کو اچھی لگے لیکن اس وقت کے سیاسی حالات میں یہ ممکن نہیں تھا کیونکہ پھر پاکستان میں مجوزہ طور پر شامل ہونے والے علاقوں کے مسلمانوں کو اسی سماجی بے انصافی کا سامنا کرنا پڑتا جو آج ہندوستان میں رہنے والے مسلمان کے ساتھی ہوتی نظر آرہی تھی۔

آج کس ڈھٹائی سے پین انڈین نیشنلسٹ لیفٹسٹ لبرلز اور مذہبی شدت پسند یہ کہہ دیتے ہیں کہ قیام پاکستان کی تحریک سارے ہندوستان کے مسلمانوں کی تحریک تھی لیکن مسلم لیگ نے ہندوستان کے کروڑوں مسلمانوں کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا اس لیے پاکستان روز اول سے ناکام ریاست ھے۔ ایسا کہتے وہ ایک لمحے کو یہ نہیں سوچتے یا شاید نہیں جانتے کہ مسلم لیگ نے ہندوستان کو متحد رکھنے اور بعد میں قیام پاکستان کے باوجود مذہبی بنیاد پر تقسیم اور آبادیوں کے انخلا کو روکنے کی کوشش کی۔ جبکہ نام نہاد سیکولر کانگریسی قیادت کی اقلیتوں کے حقوق پر متعصابانہ ہٹ دھرمی اور آخرکا برطانوی حکمرانوں کی سرپرستی میں زمینی بنیاد پر تقسیم کی حمایت کا زکر گول کر جاتے ہیں جس کے نتیجے میں لاکھوں لوگ قتل ہوئے کروڑوں بے گھر ہوئے ایک تہذیب برباد ہوئی اور دو ممالک کے درمیان ایسی دشمنی کی بنیاد پڑی جس نے ان ممالک کے عوام سے خوشحالی کے مواقع تک چھین لیے ۔

ایک اور اہم پہلو جس پر پاکستان کے تعلیم یافتہ لوگ بھی توجہ نہیں دینا چاہتے کہ اگرچہ پنجاب و بنگال کی مذہبی تقسیم کے باوجود 3 جون پارٹیشن پلان میں آبادیوں کے انخلا کا ذکر نہیں تھا۔ بعد کے تاریخی واقعات سے اس شک کو تقویت ملتی ھے کہ مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کو قتل و غارت کے ذریعے مجبور کر کے دلی سے امرتسر تک کے مسلمانوں کو پاکستان دھکیلنے کا منصوبہ پہلے سے تیار تھا۔ اور دیگر کئی وجوہات کے علاوہ سکھوں کے سکھ اکثریتی صوبے کے قیام کا جنون اس کا سب سے بڑا محرک نظر اتا ھے۔ یہی وجہ ھے بنگال کی تقسیم کے باوجود دونوں جانب کے بنگالی ہندوں اور مسلمانوں کی بڑی تعداد نے نقل مکانی نہیں کی اور وہ اج بھی سرحد کے دونوں جانب اپنے ابائی علاقوں میں اباد ہیں لیکن پنجاب میں اس کے برعکس ہوا۔

قیام پاکستان کے فورا بعد قائداعظم نے پہلی تقریر اردو زبان میں کی جس کی ریکارڈنگ موجود ھے۔ اس تقریر میں پاکستان کے قیام پر اپنی فتح و کامرانی کے جذبات کے اظہار کی بجائے ان کی آواز اور الفاظ میں شدت غم کا اثر نمایاں تھا "ہمارے دشمن نے ہمارے ساتھ وہ بے انصافی کی ھے جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی"۔ یہ بے انصافی کانگریس اور برطانوی اتحاد کی غیر فطری غیر منصفانہ تقسیم اور اس کے نتیجے میں پنجاب میں قتل عام اور ابادیوں کا انخلا تھا۔ اگر قائداعظم کی سیاسی جدوجہد کو ان کے متعین مقاصد کی روشنی میں دیکھا جائے تو کہا جا سکتا کہ شاید وہ اپنے تمام مطلوبہاہداف حاصل نہ کر سکے۔ یعنی وہ ہندوستان کے تمام لوگوں خصوصا مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے لیے مساوی سماجی سیاسی اور معاشی حقوق حاصل نہ کرسکے اور انہیں کانگریس اور برطانوی حکومت کی مسلط کردہ ناپسندیدہ تقسیم کو بھی قبول کرنا پڑی۔ لیکن اس کے باوجود وہ تاریخ کے مقدمے میں واضح طور حق و انصاف کا ساتھ دیتے نظر آئیں گے جبکہ نام نہاد سیکولر اور جمہوری کانگریس اور برطانوی حکمران اپرکلاس ہندوں کی نسل پرستانہ برتری کے قیام و دوام کی حمایت کے جرم کے مرتکب پائے جائیں گے۔ اور نسل پرستی وہ گناہ جس کی سزا قدرت کبھی معاف نہیں کرتی اور اسی دنیا میں دیتی ھے خواہ اس کا ارتکاب کرنے والا گروہ کتنا ہی طاقتور اور قابل کیوں نہ ہو۔
واپس کریں