دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
نورانی صاحب بھی چلے گئے
ارشادمحمود
ارشادمحمود
ارشادمحمود

نورانی صاحب کے انتقال سے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی بحالی اور مسئلہ کشمیر کے حل کی ایک اور مضبوط آواز خاموش ہوگئی۔ اے جی نورانی، جنہیں میری نسل کے لکھاری احترام اور محبت سے "نورانی صاحب" کہہ کر پکارتے تھے، صرف ایک وکیل یا لکھاری نہیں تھے بلکہ وہ زندگی بھر ہندوستان، پاکستان اور کشمیر کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کرتے رہے۔ وہ ایک ایسے ہندوستان اور پاکستان کا خواب دیکھتے تھے جہاں کے لوگ امن سے رہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ کاروبار، روزگار اور سماجی رشتوں میں بندھے ہوں، نہ کہ ایک دوسرے پر نیزے تانے ہوئے ہوں۔

1989 میں جب کشمیر میں آزادی کی تحریک شروع ہوئی، تو یہ طالب علم کراچی یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم تھا۔ بے شمار دوسرے نوجوانوں کی طرح میری بھی کشمیر کی تحریک سے گہری جذباتی دلچسپی اور وابستگی تھی۔ ہمارے ہم عصر فلسطینی طلبہ بھی ان دنوں کراچی میں بڑی تعداد میں تعلیم حاصل کرنے آتے تھے۔ وہ ہر موقع پر فلسطین کا علم بلند کرتے۔ ان دنوں فلسطین میں "انتفادہ" کے عنوان سے ایک زبردست تحریک چل رہی تھی۔ نوجوان منہ پر سرخ رنگ کے رومال لپیٹ کر فلسطینی انتفادہ سے اظہارِ یکجہتی کرتے تھے۔ یہ مناظر بہت متاثر کن تھے۔ اسی دوران کشمیر میں بھی ایک غیر معمولی عوامی تحریک برپا ہوئی، جس کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ رفتہ رفتہ لاکھوں کشمیری گھروں سے نکل پڑے۔ جلسوں اور جلوسوں نے سری نگر کے گلی کوچوں میں ایسا رنگ جمایا کہ برطانوی اور امریکی میڈیا نے لکھا کہ سری نگر کی آدھی آبادی نے شہر میں موجود اقوامِ متحدہ کے مبصرین کے دفتر کی طرف مارچ کیا۔

سوشل میڈیا کا زمانہ تو نہیں تھا کہ لوگ اس تحریک کے بارے میں برق رفتاری سے معلومات حاصل کرتے، لہٰذا بڑی کوششوں کے بعد کچھ خبر ملتی۔ بی بی سی لندن یا یوسف جمیل کی وائس آف امریکہ پر کوئی رپورٹ آتی تو حالات کا کچھ اندازہ ہوتا۔ کراچی میں جسارت اخبار میں سری نگر سے اخبارات کی فائل آتی تھی۔ ان تک رسائی ملی تو کچھ حالات سے آگاہی ہونا شروع ہوئی۔ اگست 1990 میں، میں اسلام آباد منتقل ہوگیا، جہاں کشمیر کے ہزاروں نوجوان آچکے تھے، لیکن کسی کے پاس کوئی مستند خبر نہیں ہوتی تھی۔ فون بہت کم عام تھا۔ فیکس ابھی ایجاد ہوا تھا لیکن چند اداروں اور پی ٹی سی ایل کے دفتر کے سوا کہیں اور دستیاب نہیں تھا۔

فیض آباد میں ہفت روزہ کشیر کے مالک اور مدیر جناب عبدالصمد وانی کا دفتر تھا۔ عبدالقیوم فاروقی صاحب کشمیر پریس انٹرنیشنل کے ایڈیٹر تھے اور میں اس ادارے سے وابستہ تھا۔ ہم دونوں اور کبھی کبھی میں اکیلا صمد وانی صاحب کے دفتر جاتا۔ بیٹھ کر اخبار پڑھتا۔ بڑے نستعیلق بزرگ تھے۔ شفقت کرتے اور چائے بھی پلاتے۔ بعض اوقات اخبارات کی فوٹو کاپیاں کرکے دفتر لے آتا۔ کشمیر سے آنے والے اخبارات اور رسائل سے وہاں کے حالات سمجھنے میں بڑی مدد ملتی تھی۔ ریڈیو پاکستان بھی ایک مانیٹرنگ رپورٹ جاری کرتا تھا جس میں دنیا بھر کے اہم ریڈیو اسٹیشنز سے نشر ہونے والی خبروں کی تلخیص دی جاتی تھی۔ یہ بھی ایک خاصے کی چیز تھی۔ اس کے مطالعے سے کشمیر کے حالات کے علاوہ بھارتی سیاست کے بارے میں بھی آگاہی ہوتی۔

پھر خبر ملی کہ بلیو ایریا، نیف ڈیک سینما کے بغل میں انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹیڈیز کے نام سے ایک ادارہ قائم ہے۔ وہاں بھارت میں چھپنے والے اخبارات کی فائل موجود ہوتی ہے۔ 1992 سے ریجنل اسٹیڈیز جانا شروع کیا، تو بہت سارے ہندوستانی صحافیوں اور دانشوروں کی تحریروں سے شناسا ئی ہوئی۔ نورانی صاحب کی تحریروں نے سب سے زیادہ متاثر کیا۔ جس تفصیل اور موضوع پر گرفت کے ساتھ وہ لکھتے تھے، ویسا کوئی اور نہیں تھا۔ فرنٹ لائن، بھارت کا پندرہ روزہ میگزین ہے جو سنسنی خیزی سے دور رہتا ہے۔ اس میں چھپنے والی ہر تحریر بہت احتیاط اور ذمہ داری سے لکھی جاتی ہے۔ نورانی صاحب کے مضامین محض معلومات کا خزانہ ہی نہ ہوتے تھے بلکہ انہوں نے میرے دل و دماغ کے بے شمار دریچے کھول دیے۔ تاریخی تناظر، قانونی حوالے اور سیاست کے جوڑ توڑ کی مکمل تصویر ان کے مضامین میں ملتی تھی۔

پرویز مشرف نے بھارت کے ساتھ مذاکرات کاڈھول ڈالا تو سرحدوں پر تناؤ کم ہوا۔ شعلے اگلتی توپیں خاموش ہوئیں تو بات چیت کا ماحول بنا۔دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات اور پھر انٹرا کشمیر ڈائیلاگ کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔ 2005 میں دہلی میں ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے گیا تو معروف صحافی شجاعت بخاری انڈیا انٹرنیشنل سنٹر لے گئے، جہاں نورانی صاحب سے ملاقات ہوئی۔ کافی لمبی گفتگو ہوئی، لیکن نہ وہ ایک لمحے کے لیے مسکرائے اور نہ ہی ان کی بدن بولی دوستانہ تھی۔ اگرچہ میں ان کی شخصیت کے سحر میں تھا لیکن نورانی صاحب ایک ناراض بزرگ کی طرح لگے۔ تاہم وہ حالات سے بخوبی آگاہ تھے۔ پرویز مشرف سے وہ ملاقات کر چکے تھے اور بھارت کے اعلیٰ ترین عہدیدار بھی ان سے رابطے میں تھے۔وہ ایک طرح کے غیر سرکاری سفارت کار تھے یا پیغام رساں بھی تھے۔

اگست 2006 میں جب نورانی صاحب پاکستان آئے، تو انہوں نے پرویز مشرف کا فرنٹ لائن کے لیے انٹرویو کیا۔ یہ انٹرویو پڑھنے کے لائق ہے۔ پرویز مشرف نے کہا کہ اگر پاکستان اور بھارت کشمیر پر پیش رفت کرتے ہیں تو پاکستان اقوام متحدہ سے کشمیر کے مقدمے سے دستبردار ہو سکتا ہے۔ نورانی صاحب نے پرویز مشرف سے درخواست کی کہ وہ حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین سے ان کی ملاقات کروا دیں۔ پرویز مشرف نے براہِ راست حکم دینے کے بجائے کہا کہ "وہ آزاد کشمیر میں ہوتے ہیں، اور میں آزاد کشمیر کے صدر جنرل (ر) انور خان سے کہتا ہوں‘‘۔نورانی صاحب انور خان سے ملے، لیکن جنرل انور خان ان کی ملاقات صلاح الدین سے نہ کرا سکے۔ ایک بریگیڈیئر صاحب نے رکاوٹ ڈالی۔ نورانی صاحب چاہتے تھے کہ صلاح الدین کو قائل کریں کہ وہ امن کے عمل (پیس پراسیس) میں شامل ہو جائیں اور سید علی گیلانی کو بھی اس میں شریک کریں۔ لیکن یہ کوشش کارگر نہ ہو سکی۔

2007 کے اوائل کی بات ہے۔ اسلام آباد میں سخت سردی پڑ رہی تھی کہ ایک دوست نے دہلی سے فرمائش کی کہ نورانی صاحب اگلے چند دنوں میں اسلام آباد میں ہوں گے، انہیں پروفیسر خورشید احمد سے ملوائیں۔ میریٹ ہوٹل سے میں نے انہیں اپنی کلٹس سوزوکی میں پک کیا اور نورانی صاحب کی پروفیسر خورشید صاحب سے ملاقات کروائی۔ خورشید صاحب اور نورانی صاحب دونوں بڑے تپاک سے ملے۔ نورانی صاحب نے انہیں بتایا کہ بھارت اور پاکستان کے پاس شاید کوئی اور موقع نہ آئے اپنے تنازعات حل کرنے کا، کیونکہ بھارت میں دائیں بازو کی جماعت بی جے پی کی مقبولیت تیزی سے بڑھ رہی ہے اور وہ اس خطے پر ہندو راج قائم کرنے کی خواہش مند ہے۔ انہوں نے کہا کہ موقع ہے، فائدہ اٹھا لیں۔

نورانی صاحب نے بتایا کہ سید علی گیلانی ان کے دوست ہیں اور دونوں کے درمیان بہت قریبی تعلق ہے، لیکن وہ وقت کی نزاکت کا احساس نہیں کر رہے۔ یہ موقع ہاتھ سے نکلنا نہیں چاہیے۔ وہ چاہتے تھے کہ پروفیسر خورشید، گیلانی پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں اور انہیں فور پوائنٹ فارمولے کی مخالفت سے روکیں۔ خورشید صاحب نے کہا کہ وہ گیلانی کی رائے کا احترام کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ گیلانی اپنے معروضی حالات کے مطابق فیصلہ کریں، پوری آزادی اور اعتماد کے ساتھ۔ دونوں بزرگوں کی یہ ملاقات کچھ نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئی۔گاڑی میں نورانی صاحب کا موڈ بہت خراب تھا۔ انہوں نے کہا کہ مارگلہ روڈ کا ایک چکر لگا کر مجھے میریٹ ہوٹل ڈراپ کر دیں۔ میریٹ پہنچنے ہی والے تھے کہ مجھے پتہ نہیں کیا سوجھی کہ میں نے خشونت سنگھ کی کتاب "مین اینڈ وومن ان مائی لائف" میں نورانی صاحب کے نیم مزاحیہ اور استہزائیہ خاکے کا ذکر چھیڑ دیا۔ نورانی صاحب کا موڈ، جو پہلے ہی خراب تھا، مزید بگڑ گیا۔ کہنے لگے، "آپ جیسے سنجیدہ آدمی کو خشونت جیسے شخص کا نام نہیں لینا چاہیے تھا۔"

بعدازاں، وہ دہلی میں سید علی گیلانی صاحب کے فلیٹ میں بھی ایک بار ملے۔ پہلی نظر میں ہی پہچان گئے۔ زیادہ دیر گفتگو نہ ہوئی، لیکن ان کے ساتھ کچھ وقت گزارا۔ بھولنے سے بھی بھولتا نہیں۔
اے جی نورانی، نورانی صاحب ایک غیر معمولی شخصیت تھے۔ انہوں نے اپنے ذاتی اور پیشہ ورانہ تعلقات کو پاکستان اور ہندوستان کے درمیان امن اور آشتی کا ماحول پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا۔ محض کتابیں ہی نہیں لکھیں بلکہ ایک ذمہ دار شہری کی طرح اپنا کردار بھی ادا کرنے کی کوشش کی۔ اب شاید ایسے چند لوگ بھی نہ ہوں جنہیں لوگ سری نگر، دہلی، اور اسلام آباد میں احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہوں اور ان پر اعتماد کرتے ہوں۔ افسوس! ہر روز ہم ایک سے ایک نابغہ کھو رہے ہیں، لیکن اس خلا کو پر کرنے والا کوئی نہیں۔ قحط الرجال ہے، اور ایسا قحط الرجال! خداوندا، اس سے ہمیں نکال دے۔

واپس کریں