دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
گارڈین میں’ اہتمام سے چھپوایا گیا‘ مضمون
نصرت جاوید
نصرت جاوید
بچپن میں جو کہانیاں سنی تھیں اکثر ایسے شہروں کا ذکر کرتیں جہاں روزمرہّ زندگی اچانک ساکت ہو جاتی ہے۔ اس کا سبب سحر یا کسی نیک بزرگ کی دی بددعا ہوتی۔ سحر کا توڑ ڈھونڈنے میں کامیاب افراد جو عموماًشاہزادے ہوتے ان کہانیوں کے ہیرو تھے۔ کسی نیک بزرگ کی بددعا سے منجمد زندگی کو بحال ہوتا بتانے والی کہانی میں نے کبھی نہیں سنی۔بچپن میں سنی یہ کہانیاں نویں جماعت تک پہنچتے ہی بھول بھال گیا۔ ذہن میرا اس کے بعد بتدریج بہت منطقی انداز میں سوچنا شروع ہو گیا۔ غالب کی طرح بے خودی بھی بے سبب محسوس نہیں ہوتی تھی۔ 1980ء کی دہائی کا آغاز ہوتے ہی گبرائیل گارسیا مارکوئز کا نام سنا۔ دوست اسے ”گابو “پکارتے تھے۔ جب گابو کے لئے نوبل انعام کا اعلان ہوا تو میں ان دنوں لندن میں تھا۔ وہاں کے اخباروں اور ٹیلی وژن چینلوں میں اس پر طویل مضامین شائع ہوئے۔ دستاویزی فلمیں چلیں۔ ان مضامین کو پڑھنے اور دستاویزی فلمیں دیکھنے کے بعد مجبور ہوا کہ کتابوں کی دکان میں جاﺅں۔ وہاں گابو کی لکھی کتابوں میں سے جس کتاب کا بھی ترجمہ موجود تھا میں نے خریدلیں اور اپنی قیام گاہ لوٹ کر کئی دنوں تک کمرے میں محصور ہوا انہیں پڑھتا رہا۔

گابو نے جو طرز تحریر متعارف کروائی اسے Realism Magical کہا جاتا ہے۔ ”جادوئی حقیقت پسندی“ اس کا لفظی ترجمہ ہے۔ اس ترکیب کی ساخت ہی میں تضاد ہے۔ جادو اور حقیقت پسندی کا ملاپ ظاہر ہے ناممکن ہے۔ واضح تضاد کی حامل اس ترکیب کو مگر ادبی حلقوں میں پذیرائی نصیب ہوئی۔ سادہ ترین الفاظ میں صرف یہ بیان کرنے کی سکت مجھ کو میسر ہے کہ گابو روزمرہّ زندگی کی حقیقتوں کو بعینہ بیان کرنے کا عادی تھا۔ اس کے کردار مگر محیرالعقول واقعات کو حقیقت مانتے تھے۔ وہ شگونی و بدشگونی پر مبنی تصورات پر کامل اعتقادرکھنے کے علاوہ نہایت سنجیدگی سے خود کو تقدیرکے لکھے سکرپٹ کا بے بس کردار محسوس کرتے۔ اس کے علاوہ اس کے ناولوں میں ایسے قصبوں،شہروں یا کرداروں کا ذکر بھی ملتا ہے جو واضح طورپر یا تو کسی سحر کی زد میں ہیں یا تقدیر نے انہیں ازخود پیش قدمیوں کی قوت سے محروم کررکھا ہے۔ بسااوقات معاملہ فقط ایک فرد تک ہی محدود نہیں رہتا۔ گابو کے اکثر ناولوں میں ملک اور شہر اجتماعی اعتبارسے سحرزدہ ہوئے ایسے انداز میں جی رہے ہوتے ہیں کہ جیسے کسی بددعا کی زد میں ہوں۔

بچپن میں سنی کہانیوں اور جوانی میں پڑھے ”جادوئی حقیقت پسندی“ پر مبنی ناولوں کا طویل تمہیدی ذکر کرنے کو مجبور اس لئے ہوا ہوں کہ رات سونے سے قبل ارادہ باندھا تھا کہ صبح اٹھ کر جو کالم لکھا جائے اس میں ملک کے معاشی حالات کا ذکر ہو۔ سوال اٹھایا جائے کہ ہمیں حکومت کی جانب سے دلائے تمام تر دلاسوں کے باوجود آئی ایم ایف وہ معاہدہ کرنے کو تیار کیوں نہیں ہورہا جس کی بدولت آئندہ تین سال میں ہمیں سات ارب ڈالر کی رقم مختلف اقساط میں ملنے کی توقع ہے۔ وزیر خارجہ اورنگزیب نے یقین دلایا تھا کہ متوقع معاہدے پر 28 اگست کو دستخط ہوجائیں گے۔ابھی تک دستخط نہیں ہوئے اور ہم ستمبر میں داخل ہو چکے ہیں۔ گزرے ہفتے اتفاقاًتین سے چار ایسے افراد سے بے تکلفانہ گپ شپ ہوگئی جو معاشی امور پر دسترس کے حامل ہیں اور حکومت پاکستان کے لئے طویل برس تک کام کرنے کے بعد ریٹائر ہوئے۔ ان کی بدولت آئی ایم ایف کے ساتھ ممکنہ معاہدے کو درپیش رکاوٹیں کسی حد سمجھنے میں آسانی ہوئی۔ اس تناظر میں ذکر چین کا بھی ہوا۔ جو کچھ سنا اسے ایک کالم میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ مختلف موضوعات کو سیاق وسباق میں رکھ کر وقتا ً فوقتاً بیان کرنا پڑے گا۔

پیر کی صبح اٹھ کر مگر جب اخبارات دیکھے تو بخدا وہ مجھے کسی اور ملک کی ”خبریں“ سناتے محسوس ہوئے۔ جو معاملات اخبارات میں شہ سرخیوں کے ساتھ بیان ہوئے تھے وہ اس ”پاکستان“ سے حیران کن انداز میں لاتعلق نظر آئے جس کو درپیش ٹھوس معاشی مسائل کا ذکر میں نے گزشتہ ہفتے کے دوران ہوئی ملاقاتوں میں صاحبان علم سے فکرمندی کے ساتھ سنا تھا۔اپنے دل میں کئی دنوں سے جمع ہوئے خدشات کو ردکرتی یا ان کے اثبات فراہم کرتی ”خبروں“ کو ڈھونڈتے ہوئے اچانک میری نگاہ ایک ”خبر“ پر پڑی جس نے چسکہ فروش انداز میں رپورٹ کیا تھا کہ انگلستان کے مشہور اخبار ”گارڈین“ میں ایک مضمون چھپا ہے۔ اس میں عمران خان کی ”طالبان دوستی“ کے ذکر کے علاوہ ان سے منسوب وہ فقرے بھی دہرائے گئے ہیں جو وہ خواتین کے لباس کے بارے میں ادا کرتے رہے ہیں۔ اسامہ بن لادن کو ”شہید“ پکارنے کا بھی ذکر اس مضمون میں ہوا۔ مذکورہ مضمون کا یک سطری پیغام یہ ہے کہ عورتوں کے بارے میں ایسے ”فرسودہ“ خیالات کا حامل فرد جو افغانستان میں طالبان کی فاتحانہ واپسی کا پرجوش خیرمقدم کرتابھی بتایا گیا تھا اس گماں میں مبتلا کیوں ہوگیا ہے کہ وہ انگلستان کی پہچان تصور ہوتی آکسفورڈ یونیورسٹی کا چانسلر منتخب ہو سکتا ہے۔

اس کالم کے باقاعدہ قاری بخوبی آگاہ ہیں کہ میں تحریک انصاف کے بانی کی سیاست کا مداح نہیں۔ اکثر انہیں تنقید کا نشانہ ہی بنایا اور اس کی وجہ سے ان کے پرستاروں سے ”لفافہ“ وغیرہ کے طعنے سنے۔ اگست 2018 میں عمران حکومت کا آغاز ہونے کے چند ماہ بعد ہی مجھے ایک ٹی وی چینل سے نکلوا دیا گیا تھا۔ اس کے بعد کسی ٹی وی چینل نے مجھے ملازمت کی پیشکش کرنے کی جرات نہیں دکھائی۔ اس سب کے باوجود میں اصرار کروں گا کہ بانی تحریک انصاف کو ”خبروں“ میں رہنا آتا تھا۔ وہ میڈیا ماہرین کی بھرپور معاونت کی بدولت رسمی اور سوشل میڈیا میں جاری مباحث کا کلیدی موضوع بنے رہتے ہیں۔

بچپن میں سنی کہانیوں اور ”جادوئی حقیقت پسندی“ پر مبنی ناولوں کی یاد نے مجھے یہ بھی سوچنے کو مجبور کیا کہ موجودہ پاکستان غالباََ ”سحرِ عمران خان“کی گرفت میں ہے۔ آپ موصوف کی شخصیت یا سیاست سے نفرت کریں یا محبت۔ ان کا دن کے ہر گھنٹے ذکر کسی نہ کسی صورت سننے کو مجبور ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کا انتخاب لڑنے کا ارادہ ظاہر کرنے کے بعد موصوف نے ایسی چال چلی ہے کہ ہمارے ریگولر اور سوشل میڈیا کو پڑھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے جیسے آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کا انتخاب انگلستان میں نہیں، میرے اور آپ کے ووٹوں سے ہونا ہے۔ غالباً اسی باعث گارڈین میں ان کے خلاف چھپے مضمون کو ہمارے اخبارات کے صفحہ اوّل پر بہت اہتمام سے چھپوایا گیا ہے۔ ”چھپوایا گیا“ کا لفظ میں نے سوچ سمجھ کر استعمال کیا ہے۔ اسے قلم کی روانی میں سرزد ہوئی خطانہ سمجھا جائے۔

(بشکریہ نوائے وقت)


واپس کریں