دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آزاد کشمیر کے لوگوں کا شعبہ زراعت کی طرف بدلتا منفی رجحان اور اس کا سد باب
 سندس سلیم،پبلسٹی آفیسر محکمہ زراعت
سندس سلیم،پبلسٹی آفیسر محکمہ زراعت
(تحریر: سندس سلیم،پبلسٹی آفیسر محکمہ زراعت)

زراعت بنیادی انسانی ضروریات کو پورا کرنے کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ ایک طرز معاشرت بھی ہے۔آزاد جموں وکشمیر کی آبادی کا غالب حصہ کسی نہ کسی درجہ میں زراعت سے وابستہ ہے ۔اقتصادی سروے 24-2023 کے مطابق، پاکستان کی مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) میں زراعت کا 23.37 فیصد حصہ ہے، یعنی ملک کی اقتصادی سرگرمیوں کا تقریباً پانچواں حصہ زراعت سے آتا ہے۔ اس کے علاوہ، زرعی شعبہ 37 فیصد ملازمتوں کے مواقع فراہم کرتا ہے، اس کے ذریعے نہ صرف معیشت کو فروغ ملتا ہے بلکہ یہ لاکھوں افراد کے روزگار کا بھی ذریعہ ہے۔ یہ بات واضح کرتی ہے کہ زرعی شعبہ پاکستان کی معیشت کی بنیاد ہے اور اس کی ترقی ملک کے معاشی استحکام کے لیے انتہائی ضروری ہے۔آزاد جموں و کشمیر خوبصورتی، زرخیز زمینوں اور روایتی کھیتی باڑی کے لیے دنیا بھر میں مشہور ہے۔

آزاد کشمیر کا کل رقبہ 13,297 مربع کلومیٹر (sq km) ہے۔ اس میں کل زرعی اراضی( فارم ایریا) 642,702 ہیکٹرز پر مشتمل ہے۔ اس رقبے میں سے 197,162 ہیکٹر رقبہ پر کاشت کی جاتی ہے ۔تاریخ گواہ ہے کہ زرعی ترقی کا اتار چڑھاؤ مجموعی طور پر قومی معیشت کو مستحکم اور غیر مستحکم کرنے میں اہم ہے۔ آزادکشمیر میں گندم، مکئ، چاول، اور دیگر اہم فصلات کاشت کی جاتی ھیں ۔ ریاست غلہ دار اجناس کی پیداوار میں خود کفیل نہیں اور ریاست کی مجموعی ضروریات کا صرف نصف حصہ ہی مقامی طور پیدا ہوتا ہے اور بقیہ نصف پرائیویٹ سیکٹر اور محکمہ خوراک پنجاب سے درآمد کرتا ہے ۔
موجودہ دور میں ریاست کا زرعی شعبہ مختلف مسائل کا سامنا کر رہا ہے۔ ان مسائل میں جہاں آبادی میں تیزی سے اضافہ، فی گھرانہ اوسط زمینی ملکیت کی حد میں کمی ، ذرائع آبپاشی کی کمی ، زمینوں کی زرخیزی اور کٹاؤ کی وجہ سے زرعی پیداوار میں کمی، پرانے طریقوں سے کاشتکاری، زرعی اراضی کا غیر زرعی مقاصد کیلئے استعمال، اور موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلیاں اہم اور بنیادی وجوہات ہیں۔ وہاں ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ آزادکشمیر میں لوگ خصوصا” نوجوان نسل زراعت کی سرگرمیوں کی طرف مائل نہیں اور انکی اس شعبہ سے عدم دلچسپی کی صورت حال ریاست کے زرعی شعبے کی ترقی کے لیے گھمبیر چیلنج ہے، کیونکہ جب لوگ زراعت میں دلچسپی کم کرتے ہیں تو اس سے نہ صرف پیداوار میں کمی آتی ہے، بلکہ یہ ملک کی معیشت اور فوڈ سیکیورٹی پر بھی منفی اثرات کا سبب بنتی ہے۔ اس کے علاوہ، دیہی معیشت کے پائیدار مستقبل کے لیے بھی یہ ایک خطرہ ہے، جس کا حل تلاش کرنا ضروری ہے تاکہ زراعت کو تنزلی کی راہ پر جانے سے محفوظ رکھا جا سکے۔

اقتصادی سروے کے اعداد و شمار کے مطابق، 2020 سے 2023 کے دوران تقریباً 19 فیصد زرعی گھرانے روزگار کے دوسرے ذرائع کی طرف منتقل ہو چکے ہیں۔ مزید برآں، لیبر انٹرنیشنل تنظیم کے ڈیٹا سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا بھر میں زرعی شعبے سے وابستہ کسانوں کی تعداد میں 44 فیصد سے 26 فیصد تک کمی ہوئی ہے۔ شعبہ زراعت میں عوامی دلچسپی کم ہونے کے پیچھے کئی وجوہات ہیں، جو وقت کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہیں۔ کسانوں کے لیے زراعت جاری رکھنے یا چھوڑنے کا فیصلہ مختلف معاشی، سماجی، ماحولیاتی اور پالیسی عوامل کے باہمی اثرات پر منحصر ہوتا ہے۔ ان عوامل کو سمجھنا زرعی شعبے کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے۔ آزاد کشمیر جیسے خطے میں بارشوں اور لینڈ سلائیڈنگ کے خطرات بھی موجود ہیں جو فصلوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ایسی غیر یقینی صورتحال کسانوں کو مالی مشکلات کا شکار بناتی ہے۔

زراعت سے حاصل ہونے والی آمدنی موسمی حالات، منڈی کی قیمتوں اور پیداوار کی غیر یقینی صورتحال کے باعث اتار چڑھاؤ کا شکار رہتی ہے۔ یہ مالی غیر یقینی صورتحال بہت سے کسانوں کو اضافی آمدنی کے لیے زراعت کے علاوہ دیگر ذرائع روزگار اختیار کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ تاہم، دیہی علاقوں میں غیر زرعی ملازمتوں کے مواقع محدود ہونے کی وجہ سے کئی کسان کم آمدنی اور غربت کے دائرے میں پھنسے رہتے ہیں۔ علاوہ ازیں آزادکشمیر میں جہاں زیادہ دارومدار بارانی زراعت پر ہے، بے موسمیاتی بارشیں تباہ کن ثابت ہو سکتی ہیں۔خشک سالی، سیلاب اور دیگر قدرتی آفات کسانوں کی کمزوریوں کو بڑھا دیتے ہیں، جس کی وجہ سے صرف زراعت پر انحصار کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ زرعی پیداوار میں سرمایہ کاری کے لیے مالی وسائل اور منڈیوں تک رسائی ضروری ہے تاکہ کسان بیج، کھاد اور جدید آلات خرید سکیں۔ تاہم، کئی چھوٹے کسانوں کو قرض حاصل کرنے میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے، اور مناسب منڈیوں تک رسائی کے بغیر انہیں اپنی پیداوار اچھی قیمت پر فروخت کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ مالی شمولیت اور منڈی تک رسائی کا فقدان اکثر کسانوں کو متبادل روزگار کی تلاش پر مجبور کرتا ہے۔

ترقی یافتہ علاقوں میں کسان جدید مشینری اورٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہیں، جبکہ آزاد کشمیر میں زیادہ تر کسان روایتی طریقوں پر انحصار کرتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے زراعت کے فروغ کے لیے موثر منصوبہ بندی اور سبسڈی کا فقدان بھی اس پیشے کو غیرمنافع بخش بناتا ہے۔ اس کے علاوہ مارکیٹ تک رسائی میں مشکلات اور مناسب تربیت کا نہ ہونا بھی مسائل میں اضافہ کرتا ہے۔
قرضوں کا بوجھ جو بڑے مارک اپ کے ساتھ آتا ہے ترقی پسند کسانوں پر اضافی دباؤ ڈال رہا ہے۔ کسانوں کو ادارہ جاتی اور مالی خدمات تک رسائی حاصل نہیں ہوتی، جہاں سبسڈی اور آسان اقساط پر قرضہ دیے جاتے ہیں ۔ یہ بیان اس مسئلے کی وضاحت کرتا ہے کہ حال ہی میں کومی کوٹ کے ترقی پسند زمیندار ثاقب امین، جو 120 کنال رقبے پر مختلف سبزیوں کی کاشت کرتے ہیں اور اس سے معقول منافع بھی حاصل کرتے ہیں، کو کئی مشکلات کا سامنا ہے۔ان کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ بروقت قرضوں کی فراہمی ممکن نہیں ہو پا رہی، جس کی وجہ سے انہیں اپنی زراعت کو وسعت دینے میں رکاوٹ پیش آ رہی ہے۔ اس کے علاوہ، مارک اپ ریٹ زیادہ ہونے کی وجہ سے بھی ان کے لیے اضافی سرمایہ کاری مشکل ہو گئی ہے۔ زیادہ سودی شرحوں کی بدولت زمینداروں کو قرض لینا مہنگا پڑتا ہے، جس سے وہ اپنے کاروبار کو بڑھانے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔

یہ صورت حال اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اگرچہ زمیندار محنت کر کے منافع کما رہے ہیں، لیکن مالیاتی مسائل ان کی ترقی میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ بروقت قرضوں کی فراہمی اور سود کی شرحوں میں کمی ان جیسے کسانوں کے لیے نہایت ضروری ہے تاکہ وہ اپنی پیداوار بڑھا سکیں اور زراعت کے شعبے کو مزید فروغ دے سکیں۔آزاد کشمیر میں زراعت کے شعبے کو دوبارہ فعال اور پرکشش بنانے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اور نجی ادارے مل کر اقدامات کریں۔ جدید زرعی ٹیکنالوجی کا تعارف، کسانوں کو سبسڈی فراہم کرنا، اور مارکیٹ تک بہتر رسائی کے مواقع پیدا کرنا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو زراعت میں کاروباری امکانات سے روشناس کرایا جائے تاکہ وہ اس شعبے کو ایک نفع بخش کیرئیر کے طور پر دیکھ سکیں۔اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو زرعی زوال کا یہ رجحان نہ صرف معیشت پر منفی اثرات ڈالے گا بلکہ آزاد کشمیر کی خوراکی خودکفالت کو بھی خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ حکومت، سماجی ادارے، اور نوجوان مل کر اس مسئلے کا حل تلاش کریں تاکہ زراعت کو دوبارہ ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکے۔اضافی سرمایہ کاری مشکل ہو گئی ہے۔ زیادہ سودی شرحوں کی بدولت زمینداروں کو قرض لینا مہنگا پڑتا ہے، جس سے وہ اپنے کاروبار کو بڑھانے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔

یہ صورت حال اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اگرچہ زمیندار محنت کر کے منافع کما رہے ہیں، لیکن مالیاتی مسائل ان کی ترقی میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ بروقت قرضوں کی فراہمی اور سود کی شرحوں میں کمی ان جیسے کسانوں کے لیے نہایت ضروری ہے تاکہ وہ اپنی پیداوار بڑھا سکیں اور زراعت کے شعبے کو مزید فروغ دے سکیں۔آزاد کشمیر میں زراعت کے شعبے کو دوبارہ فعال اور پرکشش بنانے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اور نجی ادارے مل کر اقدامات کریں۔ جدید زرعی ٹیکنالوجی کا تعارف، کسانوں کو سبسڈی فراہم کرنا، اور مارکیٹ تک بہتر رسائی کے مواقع پیدا کرنا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو زراعت میں کاروباری امکانات سے روشناس کرایا جائے تاکہ وہ اس شعبے کو ایک نفع بخش کیرئیر کے طور پر دیکھ سکیں۔اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو زرعی زوال کا یہ رجحان نہ صرف معیشت پر منفی اثرات ڈالے گا بلکہ آزاد کشمیر کی خوراکی خودکفالت کو بھی خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ حکومت، سماجی ادارے، اور نوجوان مل کر اس مسئلے کا حل تلاش کریں تاکہ زراعت کو دوبارہ ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکے۔

واپس کریں