دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کشمیر کو معاف فرمائیے
طاہر احمد فاروقی
طاہر احمد فاروقی
پورے ملک کی طرح آزاد کشمیر کے منظر نامے میں بھی بے یقینی فولاد کی طرح طاقت ور ہو چکی ہے کس پر یقین کیا جائے کس پر یقین نہ کیا جائے۔ اجتماعی یا انفرادی طور پر کوئی کسی پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہے۔ ایسے سناٹا دار ماحول میں سچ خود زبانوں پر آنے لگا ہے خصوصا کنٹرول لائن کے دوسری طرف کشمیر کے تناظر میں حقیقت کا اعتراف ہو رہا ہے۔ مسلم لیگ کے لیڈر سابق وزیراعظم راجہ فاروق حیدر کا ایک جملہ میڈیا سے ایک طویل نشست کی طویل گفتگو میں سب سے بھاری تھا کہ کشمیر کے نام پاکستان کو بلیک میل کیا جاتا رہا ہے جبکہ مسلم لیگ ن آزاد کشمیر کے سیکرٹری جنرل چوہدری طارق فاروق نے بھی صاف شفاف الفاظ میں حقیقت کا اظہار کیا کہ کنٹرول لائن کی دوسری طرف کے کشمیریوں نے پاکستان اور آزاد کشمیر سے امیدیں ختم کر دیں ہیں۔ ان سے چند دن قبل عوامی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے شوکت نواز میر کا ایک جملہ بھی قیمتی ہے کشمیر کے نام کا چورن اب نہیں بکے گا جبکہ باقی سب طرف سے رواں سال کے حالات واقعات خصوصا پانی بجلی تحریک کے دوران بھولی بسری تحریک کشمیر کو بطور ڈھال زبانوں پر لا کر حقیقت حال پر مٹی ڈالنے کی کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی جارہی ہے۔

درحقیقت پاکستان اور آزاد کشمیر میں اپنی اپنی آسائشوں کو بچانے بڑھانے اور خلق خدا کے مسائل مصائب سے توجہ ہٹانے کیلئے ہمیشہ مذہبی قومی علاقائی کتنے ہی ناموں خصوصا یہاں تحریک کشمیر کے لاحقہ کو استعمال کیا جاتا رہا ہے اور اتنا اندھا دھند استعمال کیا گیا ہے کہ اب اس کی طرف توجہ دینے کو کوئی تیار نہ ہے۔ کم از کم جاری صدی کے دوران آزاد کشمیر کا جائزہ لیا جائے تو یہاں پاسبان حریت تنظیم کے 20 پچس لوگ ننھے منے پروگرام کرتے ارہے ہیں ۔سرکاری سطح پر بلدیہ ڈیم کے ملازمین کو جمع کرکے خانہ پوری کی جاتی رہی ہے ۔عوام مکمل لاتعلق کر دیئے گئے بجلی آٹا تحریک کی آڑ میں کشمیر کا نام لیکر بہت سے عناصر نے خود کو پھر زندہ کرنے کی کوشش میں اس تحریک کو نا دانستہ طور پر نقصان پہنچانے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن یہ بچ گئی ۔مجموعی طور پر پاکستان خصوصا آزاد کشمیر کے نظام کا باریک بینی سے جائزہ لے کر سمندر کو کوزے میں بند کرکے نچوڑ دیا جائے تو ایک بوند نتیجہ صرف یہ نکلتا ہے سب اپنی اپنی انا اور ذاتی دل چسپیوں کی بقا تسلسل کیلئے وہ سب کچھ کر رہے ہیں جو نہیں کرنا چاہیے ۔حکومتوں قیادتوں تمام تر اداروں پالیسی سازوں فیصلہ سازوں تنظیموں کمیٹی یا کوئی بھی نام ہو سب گلے پھاڑ پھاڑ کر ملک ملت اور اس سے جڑے عوامل کو بیان کرتے ہیں لیکن جب انکی اپنی اپنی ذات ا آجائے تو یہ سب پر مقدم ہو جاتی ہے۔

آج بھی اوپر سے نیچے تک یہی ہو رہا ہے لیکن اپنے لیے جو پیمانہ بنا چکے ہیں اسکے برعکس دوسروں سے توقع رکھیئے نہ انکو اشتعال دلائیں کنٹرول لائن کی دوسری طرف کے عوام نے اپنی اجتماعی بہتری میں فیصلے کر لئے ہیں کر رہے ہیں کہ اپنی چادر سے پاوں باہر نہیں نکالنے ہیں بلکہ نئی نسل کو اچھا مستقبل دینا ہے۔ ان کا اب کنٹرول لائن کی ہماری طرف سے کوئی لینا دینا باقی بچا ہے نہ امید لگائی ہوئی ہے۔ وہ خود اپنے پیروں پر کھڑے ہو کر اپنی قسمت سنوارنے کے سفر پر گامزن ہوچکے ہیں لہذا انکے نام پر یہاں والے بھی بلیک میل کرنے اور یہ بنے گا وہ بنے گا نعرے لگا کر نئی نسل کو تباہ کرکے اپنی نسلوں کا مستقبل شاہانہ بنائے رکھنے کا کھیل ختم کریں ۔سب جانتے ہیں ماسوائے خوف خدا رکھنے والے چند ناموں کرداروں کے باقی سب جس صف میں کھڑے ہیں۔ قومی اجتماعی باتیں کرتے ہیں انصاف اصول پرستی کے آمین کہلواتے ہیں لیکن جہاں اپنی اور خود سے جڑی دل چسپی آتی ہے وہاں وہ سب پر بالا دست ہو جاتی ہے ۔

لہذا سب ہی حکومتوں اداروں تنظیموں شخصیات افراد اجتماعی انفرادی طور پر مہربانی کریں اب کشمیر کو معاف فرمائیے اور اپنے اپنے ایجنڈے موضوع کی حد تک محدود رہے کر جو مرضی کریں دوسری طرف کے کشمیر اور کشمیریوں کے نام لیکر ڈھال بنانے کا کھیل ختم کیجئیے ۔حقیقت یہ ہے کہ آپ سب نے اپنی اپنی بہت خدمت کرلی اب عوام پر رحم کریں ان کو کسی میگا پراجیکٹ نعروں تقریروں کی ضرورت نہیں ہے ۔صرف انکے باورچی خانے تعلیم علاج اور سر چھپانے کی جگہ سمیت روزگار کا بندوبست کی فکر کریں انکے لیئے آسانیاں ہوگئیں تو ملک خود خوش حال ہو جائے گا ورنہ بالآخر وہی ہوگا جو بھوکے گدھ لاشوں کے ساتھ کرتے ہیں؟
واپس کریں