جاوید ایاز خان
ہمارا گھر ڈیرہ نواب صاحب میں جس جگہ واقع ہے کسی زمانے میں اس کے اردگرد کوئی آبادی نہ تھی سامنے عید گاہ گراؤنڈ اور گھر پیچھے آرمی کی ورکشاپ اور چاروں اطراف سرسبز کھیت لہلاتے تھے۔ سردی میں ان کھیتوں میں اکثر سرسوں کاشت کی جاتی تھی۔ سرسوں کی بھینی بھینی خوشبو والے زرد کھیتوں کی بہار ان پر رقصاں شہد کی مکھیاں اور خوبصورت تتلیاں عجب سماں باندھ دیتی تھیں۔ ان کھیتوں کے درمیان سے بلوچوں کی بستی کی جانب جاتی ہوئی پگڈنڈی اور چار اونچے کھجور کے لمبے درخت مجھے کبھی نہیں بھولتے۔ دربانوں کا بیلوں سے چلتا ہوا رہٹ اور اس سے بہتا ہوا صاف و شفاف پانی دل کو اس قدر بھاتا تھا کہ اپنے دوست فیاض خان درانی کے ہمراہ وہاں ہی بیٹھے رہتے۔ جونہی سرسوں پر جولانی آتی ہماری امی جان سرسوں کے ساگ کے لیے شور مچا دیتیں اور کہتی جلدی جاؤ اور ماسی نذیر کے کنویں سے ساگ لا کر دو مگر ٹہنیوں ( گندلوں ) سمیت توڑ کر لانا ہے اور ہاں صرف سرسوں کا ساگ ہی نہیں بلکہ باتھو یا بتھوے کا ساگ، پالک، میتھی اور ہری مرچیں منگواتیں اور مجھے یاد ہے کہ اس ساگ کی من بھر وزن کی بڑی بھاری پنڈ سر پر رکھ کر لانا مشکل ہو جاتا تھا۔ پھر تو گویا پورے گھر میں ساگ ساگ ہی ہوجاتا تھا امی جان پورا دن ساگ دھوتی اور کاٹتی رہتیں اور اپنے ساتھ پورے گھر کی خواتین کے علاوہ ہمسائیوں کو بھی بلا لیتیں اور ساگ پکانے کا اہتمام بڑے پیمانے پر کیا جاتا تھا۔ پھر نمک، ادرک، ہرا دھنیا، گندم اور مکئی کا آٹا، پیاز، لہسن، سرخ و سبز مرچ کے علاوہ نا جانے کیا کیا ڈال کر ایک بڑے سارے مٹی کے دیگچے یا ہنڈیا میں پورا دن پکایا اور گھوٹا یعنی بلینڈ کیا جاتا اور آخر میں پیاز اور تازہ مکھن یا گھی کا تڑکا لگا کر ہمیں کھلانے سے پہلے پورے محلے میں ایک ایک کٹورہ ساگ بانٹ دیتی تھیں۔ اک جانب تو گھر بھر میں ساگ کی خوشبو اور ایک مخصوص مہک سی پھیل جاتی تو دوسری جانب پورا محلہ ساگ سے لطف اندوز ہوتا تھا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہماری امی جان نے ساگ پکانا اور مکئی و باجرے کی روٹی لگانا خود بھی اماں بچل مائی سے باقاعدہ سیکھا تھا۔ جب بھی وہ ساگ یا مکئی کی روٹی پکاتیں تو اپنی مدد کے لیے چچا شریف نظامی کی بیگم چاچی جمیلہ مرحومہ کو بلا لیتیں۔ ساگ کی یہ سوغات سردی میں صرف ایک مرتبہ ہی نہ پکتی تھی بلکہ کئی مرتبہ اس کا اہتمام ہوتا تھا۔ ریاست بہاولپور میں یہ رسم تھی کہ سردیوں میں ساگ اور سوہن حلوہ گھر گھر بنایا جاتا اور بلا تفریق ایک دوسرے کے گھروں میں بھجوایا جاتا تھا۔ آج میں سوچتا ہوں کہ یہ رسم تھی یا آپس میں پیار اور محبت بڑھانے کا ایک بہانہ تھا؟
ہماری والدہ مرحومہ کوئی زیادہ پڑھی لکھی خاتون تو نہ تھیں اور نہ ہی انہوں نے کھانے پکانے کی کوئی خصوصی تربیت لی تھی البتہ ایک بہترین ماں ہونے کے ناتے وہ کھانا بنانے میں مہارت کے ساتھ ساتھ وقت کی اہمیت کو بھی خوب سمجھتی تھیں۔ ان کی غذاؤں کی ترتیب گرمی میں الگ اور سردی میں الگ ہوتی تھی گرمیوں میں پکنے والی اشیاء یکایک سردی میں غائب ہو جاتی تھیں۔ ساگ سردی میں ان کی پسندیدہ ڈش ہوا کرتی تھی۔ وہ کہتی تھیں کہ ساگ کے بغیر سردی کا لطف نہیں آتا۔ سردی کے شروع ہوتے ہی وہ ساگ کے علاوہ گڑ اور گاجر کی کھیر، تل اور آٹے کے لڈو، باجرے کا گوشت والا کھچڑ، گنے کے رس کی کھیر، گاجروں کا حلوہ، سوجی اور بیسن کا دیسی گھی کا حلوہ اور سبزیوں میں میتھی، پالک، گاجر، مولی، شلجم کا اضافہ کر دیتی تھیں۔ کہتے ہیں کہ ماں کے ہاتھ کے پکے کھانے اولاد تو زندگی بھر یاد رکھتی ہی ہے لیکن ہماری امی جان کے پکے ہوئے کھانے پورا محلہ اور ہمسائے بھی یاد رکھتے تھے کیونکہ ان کی ہر ڈش ہر صورت ان تک پہنچ جاتی تھی۔ بعض اوقات وہ کسی گھر میں بھجوانا بھول جاتیں تو خواتین کہتیں کہ بہن اس مرتبہ ساگ نہیں بنایا یا گڑ کے لڈو نہیں بنائے؟ تو ان کو پھر سے بنا کر بھجوایا جاتا تھا۔ یہ سب یک طرفہ نہ ہوتا تھا بلکہ پورے محلے سے ہر روز کسی نہ کسی کے گھر سے کچھ نہ کچھ پکا ہوا ضرور ہمارے گھر بھی آتا تھا۔ مقدار کی بات نہ سوچی جاتی تھی بس چاہے تھوڑا ہی ہو گھر گھر بجھوانا فرض سمجھا جاتا تھا۔ ساگ، مکئی اور باجرے کا آٹا، بھجوانا یہاں کی ایک روایت ہوتی تھی۔ ہمیں اس وقت ساگ کی قدر و قیمت کا اتنا احساس نہ تھا بہرحال پوری سردی یہ گھر میں موجود رہتا اور جب امی جان کا دل کرتا دیسی گھی کا تڑکا لگا کر سامنے رکھ دیتیں تھیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ باسی ہونے کی بجائے مزید ذائقہ دار ہو جاتا تھا۔ ہماری امی جان کہتی تھیں کہ یہ روایتی سرسوں کا ساگ صحت کا خزانہ ہے۔ سردی میں اس سے زیادہ طاقتور غذا کوئی اور نہیں ہوتی، اس وقت یہ بات عجیب سی لگتی تھی لیکن جب بڑے ہوئے تو پتہ چلا واقعی یہ سرسوں کا ساگ تو سردیوں کے موسم میں وہ نعمت ہے جو ہر غریب اور امیر کے دسترخوان کی زینت بن کر خاندان بھر کو سردی کی شدت سے محفوظ رکھتی ہے۔ ہمارے بزرگ اس ساگ کی بدولت لوگوں میں صرف محبت ہی نہیں بلکہ صحت بھی بانٹتے تھے۔ یہ ساگ صرف ہمارے گھر اور شہر تک ہی محدود نہ رہتا بلکہ یہ سردی میں کبھی خراب نہ ہوتا تھا اور دور دور تک عزیز و اقارب اور اہل خانہ کو بھجوایا جاتا تھا۔ میرا ایک دوست سعودی عرب سے فرمائش پر یہ ساگ منگواتا تھا اور محبتوں کا یہ سفر سات سمندر پار تک جا پہنچتا تھا۔
جب گھروں میں فرج کی سہولت آ گئی تو اس ساگ کو فریز کر کے پورے سال محفوظ کرنے کا رواج چل پڑا ہے۔ اب جب چاہیں اسے گرم کر لیں پھر پیاز، لہسن اور تازہ مکھن کا تڑکا لگا لیں۔ لیکن اس کے بانٹنے اور تقسیم کرنے کا رواج رفتہ رفتہ دم توڑ رہا ہے۔ نہ وہ محبتوں بھرا ساگ پکانے والی مائیں ہی نظر آتی ہیں اور نہ ہی ساگ کے بہانے آپس کی محبتوں اور پیار کو بڑھانے کی خواہش ہی دکھائی دیتی ہے۔ دوسری جانب ہماری مالی حیثیت تو بہتر ہو گئی لیکن دل تنگ ہوتے چلے گئے۔ لوگوں نے یہی ساگ جسے گھاس سمجھا جاتا تھا اب مفت دینے کی بجائے فروخت کرنا شروع کر دیا اور اب رفتہ رفتہ یہ دوسری سبزیوں کی طرح تول کر مہنگے داموں فروخت کیا جاتا ہے۔
طبی ماہرین کہتے ہیں کہ قدرت نے اس میں ذائقے کے ساتھ ساتھ شفا بھی رکھی ہے۔ گندلوں کا تازہ تازہ پکا ہوا ساگ ہو اور لسی، مکھن اور مکئی، باجرے، چاول یا گندم کی روٹی ہو تو کھانے کا مزہ دوبالا ہوجاتا ہے۔ سرسوں کے ساگ میں کیلشیم، آئرن اور وٹامن وافر مقدار میں ہوتے ہیں جو خون بنانے کے ساتھ ساتھ بھوک میں بھی اضافہ کرتے ہیں۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے ساگ میں کیلشیئم، سوڈیم، کلورین، فاسفورس، فولاد، پروٹین ( جسم کو نشو و نما دینے والے اجزا) اور وٹامن اے، بی اور ای کافی مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ شہری لوگ بھی موسمی سبزی کے طور پر اسے بے حد پسند کرتے ہیں۔ پنجاب کی دھرتی کو سرسوں کی کاشت اور افزائش میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ اس کے بیجوں سے سرسوں کا تیل نکالا جاتا ہے جو ہمارے روزمرہ کھانوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ آج طبی ماہرین بتاتے ہیں کہ یہ جراثیم کش ہونے کی وجہ سے زخموں کے لیے مفید ہے گردوں کو فعال کرتا ہے، خون صاف کرتا ہے، کھانسی اور گلے کی خراش کا علاج ہے، اس سے دائمی امراض کا خطرہ کم ہوتا ہے۔ مدافعتی نظام کو مضبوط بناتا ہے۔ جسم میں تمام وٹامنز کی کمی دور کرتا ہے۔ دل کے امراض میں کمی لاتا ہے۔ ہڈیوں کو مضبوط کرتا ہے۔ ہاضم ہوتا ہے اور معدے کو قوت بخشتا ہے، جسم میں آئرن کی کمی کو پورا کرتا ہے، آنکھوں اور بینائی کی کمزوری سے تحفظ دیتا ہے۔ دماغی ٹشوز کو فائدہ پہنچا کر اس کی کارکردگی بہتر بناتا ہے۔ جوڑوں کے درد میں آرام دیتا ہے۔ اس میں پالک سے زیادہ وٹامن اے اور مالٹے سے زیادہ وٹامن سی ہوتا ہے۔
لیکن کتنی حیرت کی بات ہے کہ ہماری مائیں اس کے فوائد سے سو سال پہلے سے واقف تھیں کیونکہ ماں سے بڑا ڈاکٹر کوئی نہیں ہوتا اور مائیں یہ سب کچھ دماغ سے نہیں دل سے پڑھتی ہیں۔ اولاد کی محبت انہیں یہ سب کچھ سکھا اور پڑھا دیتی ہے۔ وہ جانتی تھیں کہ ان کے بچے ایک قمیض شلوار پہنے ننگے سر اور ننگے پیر سخت سردیوں میں بھی ساگ کھا کر ہی جوان ہو سکتے ہیں۔ اب جونہی سردی کا آغاز ہوتا ہے مجھے اپنی والدہ کے ساتھ ساتھ ان کے ہاتھوں کا پکا ہوا ساگ مکئی کی روٹی اور اس پر رکھی مکھن کی ڈلی یاد آجاتی ہے جو وہ ساگ سمجھ کر نہیں بلکہ آپس کی محبت اور پیار بڑھانے کے لیے تقسیم کیا کرتی تھیں۔ شاید اسی لیے پورہ محلہ ان کی عزت و احترام اپنی ماؤں کی طرح کرتا تھا۔ شاید یہی ہمسایوں اور محلے بھر کی خواتین میں ان کی قدرومنزلت کا پوشیدہ راز تھا۔
بشکریہ ہم سب
واپس کریں
جاوید ایاز خان کے دیگرکالم اور مضامین