دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کشمیر ریزرویشن پالیسی ، اوپن میرٹ کا قتل
نعیمہ  مہجور
نعیمہ مہجور
کسی قوم کو ختم کرنا ہو تو اس کے نوجوانوں کو اتنا دیوار سے لگاؤ کہ اُن میں سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت ہی نہ رہے اور وہ قوت برداشت سے محروم ہو جائیں۔ یہی سب کچھ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی 65 فیصد آبادی سے ہو رہا ہے جو مرکزی حکومت کی نئی ریزرویشن پالیسی سے اس قدر ذہنی پستی کا شکار ہو رہی ہے کہ سینکڑوں اپنی تعلیم چھوڑ کر معمولی روزگار کی تلاش میں بھٹکنے لگے ہیں اور وہ بھی اُنہیں میسر نہیں ہے۔انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی نوجوان نسل اس وقت کئی محاذوں پر لڑ رہی ہے۔ ایک، آبادی کا 10 فیصد حصہ یعنی 12 لاکھ سے زائد منشیات کے عادی بنا دیے گئے ہیں یا بن گئے ہیں، دوسرا 23 فیصد نوجوان بے روزگار ہیں کیونکہ گذشتہ ایک دہائی سے مجال ہی کسی کو روزگار دیا گیا ہے اور پھر نئے قوانین لاگو کرکے اوپن میرٹ طلبہ کے مواقع محدود کردیے گئے ہیں۔

پانچ اگست 2019 کے اندرونی خودمختاری ختم کرنے کے فیصلے کے بعد بی جے پی نے پسماندہ طبقوں، درجہ فہرست اور نچلی ذاتوں کے لیے تعلیم اور روزگار میں مزید نشستیں دینے کے نئے قوانین بنائے، جن کی رو سے 70 فی صد اوپن میرٹ طلبہ کے لیے صرف 30 فیصد آسامیاں میسر ہیں جبکہ 30 فیصد پسماندہ طبقوں کے لیے 70 فیصد اسامیاں مہیا رکھنے کی پالیسی بنا دی گئی ہے۔حال ہی میں جب سرکار کی جانب سے میڈیکل میں چند آسامیوں کے لیے درخواستیں طلب کر لی گئی تھیں تو اوپن میرٹ والوں کے لیے محض چند آسامیاں مختص رکھی گئی تھیں جبکہ پسماندہ طبقوں کے لیے اُن کی آبادی سے زیادہ نشستیں مختص تھیں۔ نوجوانوں نے سڑکوں پر آ کر مظاہرے بھی کئے مگر کسی نے ان کی پروا نہیں کی۔نوجوانوں کی بیشتر انجمنیں کہتی ہیں کہ بی جے پی کی سرکار نے جان بوجھ کر یہ پالیسی بنائی جس کا مقصد محنتی اور پڑھے لکھے نوجوانوں کے لیے تعلیم اور روزگار کے مواقع مسدود کرنا ہے اور ان کی جگہ باہر سے غیر کشمیریوں کو روزگار مہیا کرکے یہاں کی آبادی کا تناسب اقلیت میں منتقل کرنا ہے۔ایک انجمن کے رہنما اصغر علی کہتے ہیں کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں پسماندہ طبقے یا او بی سیز 32 فیصد سے کم ہیں، گجر اور بکر والوں کے لیے پہلے ہی 10 فیصد ریزرویشن رکھی گئی تھی جو کشمیر کے پہاڑی علاقوں میں ووٹ حاصل کرنے کے لیے مزید بڑھا دی گئی ہے اور جس میں پہاڑی برادری کو شامل کرلیا گیا ہے۔

اس کے باوجود بی جے پی کو ووٹ نہیں ملے مگر اس کی رو سے ذہین اور اوپن میرٹ طلبہ کے لیے مواقع محدود کر دیے گئے ہیں اور اکثر اعلیٰ تعلیم چھوڑنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔خطے کے نوجوان پوچھتے ہیں کہ حکومت اصل میں اوپن میرٹ کے خلاف کیوں ہے؟ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے نوجوان اسد مرزا نے غصے میں آ کر کہا: ’جب ہم نے اپنے حصول حقوق کے لیے بندوق اُٹھائی تھی تو ہم پر دہشت گردی کا لیبل چسپاں کر دیا۔ ’تعلیم حاصل کر کے میرٹ پر روزگار حاصل کرنا چاہتے ہیں تو وہ راستے ہی بند کر دیے جاتے ہیں بلکہ جو چند آسامیاں روزگار کی نکلتی بھی ہیں تو اُس پر انڈیا کی دوسری ریاستوں کے باشندوں کو تعینات کیا جاتا ہے یا پسماندہ طبقے جتا کر ذہین نوجوانوں کا استحصال کیا جاتا ہے۔ کیا اوپن میرٹ حاصل کرنے کی اتنی بڑی سز ا ہوسکتی ہے؟‘

نیشنل کانفرنس کی نئی حکومت نے اوپن میرٹ نوجوانوں کی جانب سے اُٹھائے گئے شدید اعتراضات کے پیش نظر ایک کمیٹی بنائی ہے جس کے اکثر ممبران پسماندہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ اوپن میرٹ کی بات کرنے والا شاید ہی کوئی ہے۔نیشنل کانفرنس نے حال ہی میں جنوبی کشمیر کی پارلیمانی نشست پسماندہ طبقوں کی ووٹ سے حاصل کی جہاں گجر اور پہاڑی برادری کی بڑی آبادی رہتی ہے، انتخابات تک پارٹی ریزرویشن پالیسی پر جان بوجھ کرخاموش رہی اور اب بھی کمیٹی بنا کر کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جس سے اوپن میرٹ والوں کی تسلی ہوتی۔ درجہ فہرست ذاتوں کی بہبود یا انہیں مزید مواقع فراہم کرنے کے خلاف کوئی نہیں ہے مگر انہیں اگر مرکز کی ریزرویشن پالیسی کے بدولت پہلے ہی مراعات دی جارہی ہیں تو جموں و کشمیر کے لیے ایک اور الگ پالیسی بنانے کا مقصد کیا ہے؟

نوجوان ایکٹوسٹ زبیر احمد کہتے ہیں کہ ’بی جے پی نے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے جموں و کشمیر کی عوام کو مختلف حصوں میں بانٹنے کی پالسیاں بنائی ہیں لیکن اس کو بنیاد بنا کر کشمیر کی سیاسی جماعتیں فائدہ اٹھا رہی ہیں۔’نوجوانوں یا اوپن میرٹ طلبہ کی فکر کسی کو نہیں، شاید یہی کوشش ہے کہ اس خطے کے نوجوان منحت کرنا چھوڑ دے، پڑھنا لکھنا چھوڑ دے اور مزدوری کرنے تک خود کو محدود رکھیں، باہر کے نوجوانوں کو اس خطے میں لا کر ہم پر مسلط کریں تاکہ آبادی کا تناسب خود بخود کم ہو سکے جو بی جے پی کا دیرینہ ایجنڈا ہے۔‘ بعض نوجوانوں کا کہنا ہے کہ جموں اور کشمیر کے بیچ اس پالیسی کا اطلاق مختلف ہے، یہاں مذہب کا سہارا لے کر مسلم نوجوانوں کا استصال کیا جاتا ہے مگر جموں میں سرگرم نوجوان کارکن ونکل شرما اس کو رد کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ اس پالیسی کا ادراک پورے خطے پر ہے اور ہمیں ایسی دلیل کو رد کرنا چاہیے جو ہمیں تقسیم کرنے کے لیے پھیلائی جارہی ہے۔ ہم حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ نئی پالیسی پر جب تک نظر ثانی نہیں ہوتی اس وقت تک پرانی پالیسی کے تحت روزگار مہیا کیا جائے یا مختلف اداروں میں داخلہ دیا جائے۔

نوجوانوں کی انجمنوں نے مختلف سیاسی جماعتوں سے مل کر اس مسئلے کو ہر فورم میں اُٹھانے کی اپیل کی ہے مگر اقتدار میں رہ کر یہ جماعتیں مرکزی پالسیوں کے ساتھ کھڑی رہتی ہیں وہ چاہیے نیشنل کانفرنس ہو یا پی ڈی پی۔ اپوزیشن میں رہ کر شور کرنا ان کی سیاست رہی ہے حالانکہ نیشنل کانفرنس کے رکن پارلیمان آغا روح اللہ نے کئی بار اس مسئلے کو پارلیمان سمیت مختلف فورمز پر بھی اُٹھایا۔بقول ایک نوجوان محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی اس وقت اوپن میرٹ کے سوال پر بات تو کرتی ہے مگر دوران اقتدار اس پارٹی نے ہزاروں نوجوانوں پر پیلٹ پھینک کر بینائی سے محروم کر دیا اور پھر الزام دیا کہ فوجی بیرکوں کے سامنے جا کر کیا دودھ یا ٹافی لینے جاتے ہو جہاں سے پیلٹ سے ہم پر وار کیا جاتا تھا۔

کشمیر کی بدقسمتی ہے کہ یہاں کی سیاسی جماعتیں مرکزی سرکار کی پالسیوں کے لیے کھڑی ہوجاتی ہیں اور اپنے لوگوں کی زندگیوں، روزگار یا اوپن میرٹ کے خلاف اقدام کرتی ہیں۔جموں و کشمیر میں اس وقت 10 لاکھ سے زائد نوجوان بے روزگار ہیں جو انڈیا کی تین بے روزگار ریاستوں میں پہلے نمبر پر ہے۔ گذشتہ ایک دہائی میں آسامیاں نہ نکلنے کے باعث 50 فیصد بے روزگار عمر کے اس حد کو عبور کرچکے ہیں جو روزگار حاصل کرنے کے لیے مختص رکھی گئی ہے گو کہ حال ہی میں مقامی حکومت نے عمر کی حد بڑھا دی ہے اور جو بھی اسامی نکلتی ہے اس میں 70 فیصد پسماندہ طبقوں کو جاتی ہے جو سپریم کورٹ کے 1992کے اس منڈل فیصلے کے مخالف ہے جس میں صرف پچاس فیصد ریزرویشن پسماندہ طبقے کو دینے کی سفارش کی گئی تھی۔نوجوان انجمنوں نے عدلیہ میں اس معاملے کو اُٹھا لیا ہے اور اُمید ہے کہ اس کو ترجیحاتی بنیادوں پر حل کیا جائے گا۔جموں و کشمیر کے بالائی علاقوں میں تقریبا 20 فیصد آبادی پسماندہ طبقے سے تعلق رکھتی ہے اور ریزرویشن پالیسی سے انہیں روزگار اور دوسرے اداروں میں 70 سے زائد فیصد نشستیں حاصل ہو رہی ہیں۔اوپن میرٹ کا کھاتہ بھی ان کو دینے سے نوجوانوں کی بڑی تعداد مایوسی اور غیر یقینی صورت حال سے گزر رہی ہے اور یونین ٹریٹری کے ہائیبرڈ نظام حکومت کے ہتھے چڑھ رہی ہے۔

بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو

واپس کریں