دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
جمہوریت کے قا تل کا یوم جمہوریہ
نجیب الغفور خان
نجیب الغفور خان
کنٹرول لائن کے دونوں طرف اور دنیا بھر میں مقیم کشمیری بھارت کی طرف سے اپنے جمہوری حق خودارادیت سے مسلسل انکار کے خلاف احتجاجاً آج بھارت کا یوم جمہوریہ،یوم سیاہ کے طور پر منا رہے ہیں۔ ہر سال یہ دن یوم سیاہ کے طور پر مناکر عالمی برادری کو پیغام دیا جاتا ہے کہ کشمیری اپنے مادر وطن پر بھارت کے جبری قبضے کو مسترد کرتے ہیں۔نام نہاد جمہوریت کے علمبردار بھارت نے گذشتہ کئی دہائیوں سے ریاست جموں و کشمیر کے ایک بڑے حصے پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے اور قابض علاقے میں انسانیت کیخلاف جنگی جرائم میں ملوث ہے۔بھارت دراصل آج کے دن نام نہاد یوم جمہوریہ مناکر دنیا کی آنکھوں میں جمہوریت کے نام پر دھول جھونکتا ہے جس نے اپنی افواج کے ذریعے مقبوضہ علاقے میں بندوق کی نوک پر لاکھوں مظلوم کشمیریوں کو یرغمال بنا رکھا ہے جو اپنے حق کیلئے آواز بلند کرنیکی پاداش میں آج بھی مختلف بھارتی جیلوں میں قید ہیں، ان حالات میں بھارت کا یوم جمہوریہ منانا جمہوریت کیساتھ مذاق ہے کیونکہ مقبوضہ جموں و کشمیر پر قابض اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے مرتکب بھارت کو یہ حق نہیں کہ وہ یوم جمہوریہ منائے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے مقبوضہ جموں کشمیر میں غیر جمہوری طرز عمل اپنائے ہوئے ہے۔ جہاں معصوم کشمیریوں پر رائج ہندوستانی کالے قوانین، مکمل طور پر جمہوریت کے متضاد ہیں۔

کشمیریوں کا موقف ہے کہ ایک ایسا ملک جس نے جموں و کشمیر پرعوام کی خواہشات کے برعکس قبضہ کر رکھا ہو اس کو یوم جمہوریہ منانے کا کوئی حق نہیں۔ دوسری طرف یوم جمہوریہ کہ نام پر قابض فورسز نے مقبوضہ علاقے میں حفاظتی اقدامات کے نام پر اضافی چوکیاں قائم کی ہیں، گشت میں اضافہ اور عوامی مقامات کی کڑی نگرانی کی جارہی ہے۔ حکام کی توجہ نام نہاد یوم جمہوریہ کی تقریبات کے پرامن انعقاد کو یقینی بنانے پر مرکوز ہے۔ مقبوضہ علاقے میں بھارتی فورسز جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کرکے لوگوں کی جامہ تلاشی لے رہی ہیں اور فورسز اہلکارہرگزرنے والے شخص خاص طورپر نوجوانوں سے پوچھ گچھ کررہے ہیں۔وادی جموں و کشمیر جس کے باشندے اپنی قومی آزادی کیلئے بھارت کی ریاستی دہشت گردی اور بھارتی افواج کے جابرانہ ہتھکنڈوں سے گذشتہ کئی دہائیوں سے نبردآزما ہیں اور گذشتہ کئی عشروں سے تو ان کی اس جدوجہد نے مزید شدت اختیار کرلی ہے لیکن ان کی زبوں حالی اور کسمپرسی کسی کو دکھائی نہیں دے رہی حالانکہ کشمیریوں کی تحریک آزادی تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا ہونے کے باعث بھی لائق توجہ ہے اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں بھی اس کا جلد از جلد اپنے منطقی انجام تک پہنچنا ایک ایسی ناگزیر ضرورت ہے جس کے بغیر جنوبی ایشیا میں قیام امن کا خواب کبھی پورا نہیں ہوسکتا۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کا بنیادی سبب مسئلہ جموں و کشمیر ہے اور اگر اس کو حل کرنے کا کوئی راستہ نکال لیا جائے تو اس سے جموں و کشمیر کے کروڑوں باشندوں کی سیاسی و اقتصادی ترقی کے راستے کھل سکتے ہیں۔ مگر اس حقیقت کو سمجھنے کیلئے بدمعاش بھارتی حکمران تیار ہیں نہ ہی سامراجی عزائم اور ایجنڈے والا امریکہ حتیٰ کہ عالمی برادری بھی اپنے مفادات کی سرحدوں سے آگے بڑھ کر دیکھنے کیلئے آمادہ نہیں ہے جبکہ اقوام متحدہ جس کی تشکیل دوسری جنگ عظیم کے بعد لیگ آف نیشنز کی جگہ اس لئے عمل میں لائی گئی تھی کہ وہ اپنے رکن ممالک کے درمیان پائے جانے والے باہمی تنازعات کو طے کرنے کیلئے ٹھوس اور موثر جدوجہد کریگی، وہ بوجوہ اپنے آپ کو امریکی و یورپی مفادات کا اس قدر گرویدہ بنا چکی ہے کہ اس کی جانب سے کسی آزادانہ کردار کی توقعات بری طرح متاثر ہورہی ہیں۔ اقوام متحدہ خاص طور پر مسئلہ فلسطین اور کشمیر کو حل کرنے میں جس بری طریقے سے ناکام ہوئی ہے اس کی وجہ سے کئی ممالک نے تو ایک نئی اقوام متحدہ کی تشکیل کیلئے آوازیں بلند کرنا شروع کردی ہیں۔ اگر امریکہ اور عالمی برادری واقعی جنوبی ایشیاء میں مستقل اور پائیدار امن کے خواہشمند ہیں تو انہیں پاکستان اور بھارت کے درمیان ان بنیادی تنازعات کے تصفیہ کیلئے بھی ٹھوس اور بامعنی کوششیں کرنی چاہئیں جو پاکستان اور بھارت کے درمیان تناؤ اور بداعتمادی میں مسلسل اضافہ کرتی جارہی ہیں۔ مسئلہ کشمیر ان سارے تنازعات میں سرفہرست ہے۔ اس لئے امریکہ اور اقوام متحدہ کو اس کے منصفانہ حل کیلئے بھی خصوصی جدوجہد کرنی چاہئے کیونکہ اگر یہ تنازعہ طے ہوگا تویہ خطہ ترقی کی طرف گامزن ہوگا۔

بھارت کے نام نہاد یوم جمہوریہ کے موقع پر کشمیریوں کی آواز دبانے کیلئے ہر سال طاقت کا اندھا دھند استعمال کیاجاتا ہے۔ کشمیری عوام بھارتی جمہوریت کو، جو فسطائیت کا روپ دھار چکی ہے، مسترد کرتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر پر جابرانہ تسلط برقرار رکھنے کیلئے بھارت نے فوجی طاقت کا سہارا لیاہوا ہے۔ سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں بھارت کو وہاں صرف اتنی ہی فوج رکھنے کا حق حاصل ہے، جو قیام امن کے لیے نا گزیر ہو، لیکن آج یہ تعداد 10 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے قبرستانوں میں پچھلے دس سالوں میں اسی ہزار نئی قبروں کا اضافہ ہوا ہے۔ 5اگست 2019ء کے بعد بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کر کے جمہوریت کا بڑے پیمانے پر قتل کیا اور اس کے بعد سے مسلسل غیر جمہوری اقدامات کے ذریعے کشمیریوں پر مظالم کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے، کہیں جعلی پولیس مقابلے ہیں تو کہیں نام نہاد سرچ آپریشن کئے جاتے ہیں۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے اپنی سالانہ رپورٹ میں بھارت میں مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں کے خلاف امتیازی پالیسیاں اختیار کرنے پربھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کو کڑی تنقیدکانشانہ بنایا ہے۔ دوسری طرف جمہوریت کا دعویٰ کرنے والے بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ برس سال (2024) میں اپنی ریاستی دہشت گردی کی جاری کارروائیوں کے دوران 3 کم عمر لڑکوں سمیت 101 بے گناہ کشمیریوں کو شہید کیا۔ ان میں سے 50 افراد کو جعلی مقابلوں میں یا دوران حراست بہیمانہ تشدد کے ذریعے شہید کیا گیا۔ کشمیر میڈیا سروس کی رپورٹ کے مطابق ان شہادتوں کے نتیجے میں 8 خواتین بیوہ اور 24 بچے یتیم ہو گئے۔ بھارتی فوجیوں نے اس عرصے کے دوران دو خواتین کو بے حرمتی کا نشانہ بنایا جبکہ 12 رہائشی مکان تباہ کئے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ 2024 میں مظاہرین پر طاقت کے وحشیانہ استعمال کی وجہ سے 67 افراد زخمی ہوئے۔ بھارتی پولیس نے پانچ غیر مسلموں کو دوران حراست قتل کیا جبکہ بھارتی پیرا ملٹری بارڈر سیکورٹی فورس(بی ایس ایف) نے ایک غیر مسلم کو فائرنگ کرکے مار دیا۔ بھارتی فورسز نے تلاشی کی کارروائیوں اور گھروں پر چھاپوں کے دوران حریت رہنماوں، انسانی حقوق کے کارکنوں، طلبا، وکلا سمیت 3 ہزار 4 سو 92 افراد کو گرفتار کیا جن میں کئی خواتین بھی شامل ہیں۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین مسرت عالم بٹ، محمد یاسین ملک، شبیر احمد شاہ سمیت 5 ہزار سے زائد کشمیری نئی دلی کی بدنام زمانہ تہاڑ اور دیگر بھارتی جیلوں کے علاوہ مقبوضہ علاقے کی جیلوں میں کالے قوانین کے تحت قید ہیں۔

مودی حکومت نے کشمیری مسلمانوں کے دینی حقوق سلب کئے جانے کا سلسلہ بھی جاری رکھا اور قابض حکام نے سرینگر میں نماز جمعہ،عید الفطر، عید الاضحی کی نمازوں کی اجازت نہیں دی گئی۔ صرف اس عرصہ میں مودی حکومت نے کئی کشمیریوں کی جائدادیں بھی ضبط کرلیں تاکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں بھارت کی طرف سے تسلیم شدہ حق خودارادیت کے مطالبے کیلیے لوگوں کی آواز کو خاموش کرایا جائے۔ بھارت نے میڈیا ایکٹ کے تحت کشمیریوں پر پابندی لگا کر سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی لگائی ہے جس کی وجہ سے کشمیریوں پر سوشل میڈیا کے استعمال پر مسلسل پابندی عائد ہے جبکہ دور حاضر میں کشمیریوں کے لئے سوشل میڈیا ہی واحد ذریعہ ہے جس کے ذریعے وہ اپنی آواز عالمی سطع پربلند کر سکتے ہیں۔ اس سلسلہ میں جموں و کشمیر لبریشن سیل کا سوشل میڈیا ونگ مختلف سوشل میڈیا پیجز مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کو بھرپور انداز میں عالمی برادری کے سامنے لاتے ہوئے اور بھارت کا حقیقی چہرہ دنیا کو دکھا رہے ہیں۔بھارت کے یوم جمہوریہ کے موقؑع پرکشمیری ی عالمی برادری سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ کشمیر میں بھارتی مظالم روکنے کے لئے اپنا کردار ادا کرے اور کشمیریوں کو ان کا بنیادی حق خودارادیت دیا جائے۔ بھارت ایک بڑی جمہوریہ کا دعویدار ہونے کے باوجود کشمیریوں کی جدوجہد کو دبانے کے لئے اپنی طاقت کے بل بوتے پر جمہوریت کا قتل کررہا ہے۔ مگر کشمیریوں کا جزبہ ہے کہ وہ روز بروز بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ان کا عزم ہے کہ بھارت 10 لاکھ کے بجائے پندرہ لاکھ فوج بھی کشمیر بھیج دے تو بھی جدوجہد آزادی ختم نہیں ہوسکتی۔ آج تک کشمیری قوم اپنے زور بازو پر بھارتی فوج کے ظلم و جبر کیخلاف جدوجہد آزادی کررہے ہیں، حالانکہ پاکستان نے ہر موقع پر ان کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت کی ہے کیونکہ مسئلہ کشمیر کوئی سرحدی تنازعہ نہیں ہے بلکہ ڈیڑھ کروڑ سے زائد کشمیری عوام کے سیاسی مستقبل کا مسئلہ ہے جو ایک سیاسی مسئلہ ہے جس سے سیاسی طور پر ہی حل کیا جانا چاہئے۔ مسئلہ کشمیر جنوبی ایشیاء میں ایک سلگتی ہوئی چنگاری ہے اور اس دیرینہ مسئلے کو حل کیے بغیر دونوں ملکوں سمیت جنوبی ایشیاء میں امن قائم نہیں ہو سکتا ہے۔ عالمی اداروں سمیت اقوام متحدہ پر یہ ذمہ داری عائد ہو تی ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے اپنا کردار ادا کریں اور کشمیریوں کو ان کا پیدائشی حق، حق خودارادیت دلائیں۔مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد انتہاپسند مودی سرکار کے سفاکانہ اقدامات کے باوجود کشمیریوں کی جدوجہد آزادی جاری ہے۔ ایسے حالات میں جمہوریت کی دھجیاں بکھیرنے والے بھارت کا یوم جمہوریہ منانا سمجھ سے بلا تر ہے۔

نجیب الغفور خان (میڈیا انچارج جموں و کشمیر لبریشن سیل)
liberationcellajk@yahoo.com
واپس کریں