عامر پرے
اساتذہ کی تنخواہوں پر حکومت کی طرف سے پچیس فیصد انکم ٹیکس کی چھوٹ ختم کرنے پر بہت سا شور برپا ہے اور اسی سلسلے میں بہت سارے افراد کی جانب سے مذمتی بیانات بھی داغے جارہے ہیں۔ اتفاق سے میرا تعلق بھی اسی شعبے سے ہے لہذا خبر دیکھتے ہی میرے اندر ایک پل کےلئے اس حکومتی اقدام پر چند الفاظ بھیجنے کی ہلچل ہوئی لیکن میں نے ایسا نہیں کیا کیونکہ مراعات کی گمبھیر تاریخ نے مجھے آڑے ہاتھوں لے لیا۔
ان رعایات، مراعات اور سہولیات کا موجد برطانوی سامراج ہے۔ جب وہ اس خطے میں آیا تو اپنے زیر تسلط نظام چلانے کےلئے ایک خاص طبقے کو تشکیل دے دیا اور پھر کسی Rule of Law سے ماورا کرامات کے ذریعے اس طبقے پر رعایات اور مراعات نچھاور کرتا رہا۔ بات یہیں تک نہیں رہی بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دیکھا دیکھی پورے خطے کی عوام کے جینز میں بھی مراعاتی تبدیلی رونما ہوئی اور آج تک اس لت میں مبتلا ہے۔
در اصل مسلہ استاذہ کو ٹیکس چھوٹ واپس لینے یا دینے کا نہیں بلکہ اس ملک میں رائج ایک ظالمانہ نظام کا ہے جو برطانوی سامراج نے اس خطے پر اپنا تسلط قائم رکھنے کےلئے بنایا تھا۔ یہ نظام طاقتوروں کی عیاشی کے حق میں اور عوام کی خوشحالی کے مخالف تمام سروسز بروئے کار رکھے ہوئے اپنا کام سر انجام دیتا آیا ہے اور آئیندہ دور تک اس میں کسی تبدل کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ جس نظام میں ایک طرف جج کی تنخواہ، مراعات اتنی زیادہ ہوں اور دوسری طرف عدل و انصاف اور جج صاحبان کی کارکردگی بھی شرمناک حد تک پست درجہِ کی ہو اس نظام میں عوام کا جینا مشکل ہی ہوتا ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جس طبقے کو بھی اس ملک میں یہ رعایتی اور مراعات ملی وہ اس قوم کو بہت بھاری پڑ گیا اور اسی طبقے نے عوام کا زیادہ استحصال کیا۔
قرضوں کے بوجھ تلے سسکتی عوام کے کندھوں پر افسر شاہی اور سرکار کی شاہ خرچیوں کا بوجھ اس حد تک افسوس ناک ہے کہ اس ملک کا ہر بچہ دنیا میں آنے سے پہلے ہی مقروض پیدا ہوتا ہے۔مراعات، ٹیکس چھوٹ، اور دیگر رعایتیں اگر دینی ہیں تو غریب عوام کو ملنی چاہئے جس میں اساتذہ بھی شامل ہیں شاید ان کی زندگیوں میں کوئی بہتری آسکے۔ اور قرضوں کے بوجھ تلے پیدا آنے والی نسلوں کو بچانے کےلئے اگر کچھ کرنا ہے تو سب سے پہلے اس فرسودہ تعلیمی نظام کو بدلنے کی جرآت کا مظاہرہ کریں جو میری نظر میں سب سے بڑا کام ہے۔
واپس کریں