وسعت اللہ خان
جمعے کے خطبے میں کسی نہ کسی مسجد کے منبر سے یہ صدا آ ہی جاتی ہے کہ آج پھر ایک صلاح الدین ایوبی کی ضرورت ہے جو یروشلم کو آزاد کروائے۔مگر جدید نمازی سیانے ہو گئے ہیں۔ وہ خطیبِ بے مثل کے موٹیویشنل وعظ پر قرونِ اولی کے مومنوں کی طرح داڑھیاں منھ میں دبا کر مکے لہراتے ہوئے باہر نہیں نکلتے بلکہ سبحان اللہ سبحان اللہ، کیا بات ہے کہتے کہتے رکعتیں پوری کر کے گھروں کی راہ لیتے ہیں۔کسی بھی سیاسی ریلی میں کوئی نہ کوئی مقرر آج بھی کہہ ہی دیتا ہے کہ کہاں ہے وہ جذبہ جس نے ایوبی آمریت کا قلعہ ڈھا دیا اور ضیا الحق کو لرزہ براندام کر کے رکھ دیا اور پرویز مشرف کی چولیں ہلا دیں۔ آخر کب تک اپنے بنیادی حقوق پر ڈاکہ ڈالنے والوں کو برداشت کرتے رہو گے ساتھیو۔سیاسی لمڈوں کو بھی عقل آ گئی ہے۔ وہ اس شعلہ بیانی کے سبب جدوجہد کی آگ میں ایندھن بننے کے بجائے ظالمو مولانا آ رہا ہے، قدم بڑھا نواز شریف، ہماری آن باچا خان اور جیے بھٹو کے نعرے لگاتے ہوئے نیویں نیویں منتشر ہو جاتے ہیں۔
پریس کلب کے کسی بھی اجتماع میں کوئی نہ کوئی سفید بالوں والا لخلخاتا صحافی نوجوان قلم گیروں کو یاد دلانا نہیں بھولتا کہ تم میں سے کوئی نثار عثمانی یا منہاج برنا آخر کیوں نہیں اٹھتا۔کہاں ہیں وہ سرفروش اہلِ قلم جو ایوب شاہی کے خلاف سینہ سپر تھے۔ جنھوں نے 1980 کے عشرے میں کوڑے کھائے، شاہی قلعے کی سیر کی مگر حقوق کی جدوجہد میں پیٹھ نہیں دکھائی۔سامعین صحافی بار بار گھڑی دیکھتے ہیں کہ کب یہ اسیرِ رسمِ احتجاج بازی ماضی میں مقیم بڈھا اپنا بھاشن مکائے اور ہم اپنے اپنے دھندے پر روانہ ہوں۔شاعروں کے جھنڈ میں جوش تھا، فیض تھا، جالب تھا، فراز تھا۔ اب بس تھا تھا تھیا ہے۔اس بل کے مطابق جو شخص آن لائن فیک نیوز پھیلانے میں ملوث پایا گیا اسے تین سال قید یا 20 لاکھ تک جرمانے یا دونوں سزائیں دی جا سکیں گی۔ایسا کیا ہو گیا کہ وہی نمازی، سیاسی کارکن، صحافی اور شاعر جو چار عشرے پہلے اپنے بنیادی حقوق کی ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے تھے، ایک آواز پر باہر نکل آتے تھے، کیا سب نے اور ان کے حالیہ بچوں نے دھنیا پی لیا؟
اب زیادہ سے زیادہ یہ موبائل فون پر ویڈیو بنا کے سوشل میڈیا پر ڈال دیتے ہیں، یا پھر اپنے پیج پر کسی مخالف کی ماں بہن یاد کر لیتے ہیں یا پھر بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی ٹائپ کمنٹ لکھ کے سائن آف ہو جاتے ہیں۔ایسا نہیں کہ لوگوں کو ککھ پتہ نہیں اور وہ چھری تلے آہ بھرنا نہیں جانتے۔ مگر اب شاید کسی کو کسی پر اعتماد نہیں رہا۔زبان کا دل سے رشتہ ٹوٹ کے دماغ سے جڑ گیا ہے۔ دل نہیں مانتا کہ یہ مولوی جو مجھ میں جہادی شعلہ بھڑکانے کی کوشش کر رہا ہے اس کے اپنے بچے اس صف میں کیوں نظر نہیں آ رہے اور خود باڈی گارڈز کے گھیرے میں چمکتے ڈالے سے اترنے والے اس بھڑکا کی تاریں کس کس شخص، ادارے یا ایجنڈے سے جڑی ہوئی ہیں۔اور اس کی کیا ضمانت ہے کہ یہ مجھ جیسے ہزاروں مورکھوں کو بیچ سڑک پر چھوڑ کے میری اجتماعی طاقت کا اکا دکھا کے دام کھرے نہیں کر لے گا۔
میں کس عزت ماآب کے پیچھے جا کے کھڑا ہوں؟ کل یہ یزید کے محل میں دیکھا گیا۔ آج حسین کا قصیدہ پڑھ رہا ہے اور شمر کو بھی آنکھ ٹکا رہا ہے۔میں اپنے صحافتی ٹریڈ یونین رہنما کے پیچھے تو چل پڑوں مگر کون یقین دلائے کہ اس کا کسی میڈیائی مالک کے ساتھ رات گئے اٹھنا بیٹھنا نہیں۔ کہیں یہ کسی غیر اخباری ادارے کو میری ہی خبر نہ پہنچا رہا ہو۔ کیا یہ بے روزگاری کی صورت میں مجھ سے اجنبی نہیں ہو جائے گا؟ یہ واقعی سچ کہہ رہا ہے کہ موٹر سائیکل سے فور وہیلر تک کا سفر اس نے اپنی تنخواہ کی پگڈنڈی سے ہی طے کیا۔ مگر 20 برس پہلے تک تو اسے ایک جملہ سیدھا کرنا نہیں آتا تھا۔ پھر یہ راتوں رات اتنا بڑا انویسٹی گیٹر، اینکر، کالم باز اور عہدیدار کیسے ہو گیا اور میں جو اس کی رپورٹیں ری رائٹ کرتا تھا آج بھی اپنی اسی پھٹپھٹی کو کک لگا رہا ہوں۔ کب، کیسے، کیوں؟
کسی بھی جدوجہد کا محور سیاسی جماعتیں ہوتی ہیں۔ ان کی معاون ہم خیال طلبا تنظیمیں، ٹریڈ یونینیں، بار ایسوسی ایشنز اور صحافتی ادارے و تنظیمیں ہوتی ہیں۔ یوں ایک جمہوری ماحول پنپتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور اگر آب و ہوا مسلسل موافق ہو تو کھلے پن اور برداشت کا پودا جڑ بھی پکڑ لیتا ہے۔ایسا کہیں نہیں ہوتا کہ سب جماعتیں انقلابی یا نظام دشمن ہوں۔ بہت سی قدامت پرست ہوتی ہیں اور کچھ ترقی پسند بھی ہوتی ہیں۔ مگر جب ایسا اکال آ جائے کہ ہر قابلِ اقتدار سیاسی جماعت، برسرِ اقتدار اتحاد اور حزبِ اختلاف ایک ہی نادیدہ برانڈ کے مختلف ماڈل نظر آنے لگیں، ان کی دو دو زبانیں صاف دکھائی دیں۔
ان کے لیے کسی بھی مدعے پر یو ٹرن لینا کوئی ضمیری مسئلہ نہ ہو۔ وہ شکار اور شکاری کے ہمراہ بیک وقت دوڑنے کی ماہر ہو جائیں۔ ان کے دائیں طرف عام آدمی کے ساتھ کھڑا ہونے کا راستہ ہو اور بائیں جانب ادھار کا اختیار اور خزانے کا منھ ہو تو دل پر ہاتھ رکھ کے بتائیے کہ انھیں کس طرف جانا چاہیے؟اس فضا میں جو دو چار پاگل چیختے چلاتے ہاتھ پاں مارتے رہ جاتے ہیں انھیں اس 21ویں صدی میں کسی روایتی دماغی ہسپتال بھیجنے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا 26ویں ترمیم، پیکا قوانین، مقدمات کا جھنڈ یا کالے شیشوں والی سفید بے شناخت فور وہیلرز کافی نہیں؟ویسے پاگلوں کو پابہ زنجیر کرنا کب مسئلہ تھا؟ اصل مسئلہ تو سوال کو پابندِ سلاسل کرنا ہے۔ کمینہ قابو میں ہی نہیں آ پا رہا یہ موا سوال۔۔۔ یہی مسئلہ تو امید کی آخری کرن بھی ہے۔
بشکریہ بی بی سی اردو
واپس کریں