دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
انڈین ایجنسی را کا خالصتان تحریک کے لیڈر کو ہیلی کاپٹرز کی مدد سے اغوا کرنے کا منصوبہ ۔ بی بی سی رپورٹ
No image لندن(کشیر رپورٹ) بھارت کی انٹیلی جنس ایجنسی ' را' نے سکھوں کے مقبول و معروف آزادی پسند رہنما جرنیل سنگھ بھڈرانوالہ کو ' را' کے کمانڈوز کے ذریعے اغوا کرنے کا منصوبہ بنایا تھا اور اس منصوبے میں بھارت کو برطانیہ کی انٹیلی جنس ایجنسی ' ایم آئی سکس' اور برطانوی وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر کی مدد بھی حاصل تھی۔ برطانیہ کے سرکاری میڈیا ادارے ' بی بی سی ' نے اپنی ایک رپورٹ میں ' را' کے اس منصوبے کے بارے میں انکشاف کیا ہے۔رپورٹ کے مطابق 1982 کے آخر میں جب انڈین پنجاب میں حالات بے قابو ہوئے تو بھارتی خفیہ ایجنسی را کے سابق سربراہ رام ناتھ کا نے خالصتان تحریک کے لیڈر جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کو پہلے چوک مہتا گورودوارہ اور بعد میں ہرمندر صاحب سے ہیلی کاپٹر آپریشن کے ذریعے اغوا کرنے کے منصوبے کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔اسی منصوبے کے سلسلے میں را کے سربراہ کا نے برطانوی ہائی کمیشن میں کام کرنے والے برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی سکس کے دو جاسوسوں سے اکیلے میں ملاقات کی۔را کے سابق ایڈیشنل سیکریٹری بی رامن کا بوائز آف را نامی کتاب میں لکھتے ہیں کہ دسمبر 1983 میں برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی سکس کے دو جاسوسوں نے ہرمندر صاحب کا معائنہ کیا۔ ان دو جاسوسوں میں سے کم از کم ایک وہی شخص تھا جس سے کا ئونے علیحدگی میں ملاقات کی تھی۔
یہ تمام تر تفصیلات اس وقت سامنے آئیں جب ایک برطانوی محقق اور صحافی فل ملر نے برطانوی آرکائیوز سے سری لنکا میں برطانوی کمانڈو فورس ایس اے ایس کے کردار کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی۔فل ملر کو آرکائیوز سے کچھ خطوط ملے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ جرنیل سنگھ کو اغوا کرنے کے کمانڈو آپریشن کی منصوبہ بندی میں انڈیا نے برطانیہ سے مدد لی تھی۔ان خطوط کے 30 سال بعد ظاہر کیے جانے کی مدد سے یہ پتہ چلا کہ اس وقت کی وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر نے ایم آئی سکس کے سربراہ کے ذریعے را کے چیف کا کی طرف سے بھیجی گئی درخواست سے اتفاق کیا تھا جس کے تحت برطانیہ کی ایلیٹ کمانڈو فورس کے ایک افسر کو دہلی بھیجا گیا تھا۔انڈیا نے اس برطانوی افسر سے مشورہ طلب کیا تھا کہ مسلح سکھ نوجوانوں کو گولڈن ٹیمپل سے کیسے نکالا جائے۔
فل ملر نے 13 جنوری 2014 کو شائع ہونے والے اپنے بلاگ ریویئلڈ ایس اے ایس ایڈوائزڈ امرتسر ریڈ میں اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ ایک طرف وہ سری لنکا میں خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت کے سخت خلاف تھیں تو دوسری طرف وہ گولڈن ٹیمپل آپریشن میں مدد لینے کے لیے بیرونی ایجنسی سے مدد لینے میں نہیں ہچکچائیں۔برطانوی پارلیمنٹ میں اس معاملے پر ہنگامہ آرائی کے بعد جنوری 2014 میں وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے تحقیقات کا حکم دیا تھا۔تحقیقات کے بعد برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ نے اعتراف کیا کہ ایس اے ایس افسر نے 8 فروری سے 14 فروری 1984 کے درمیان انڈیا کا سفر کیا تھا اور انڈیا کی سپیشل فرنٹیئر فورس کے کچھ افسران کے ساتھ گولڈن ٹیمپل کا دورہ کیا تھا۔
اس وقت بی بی سی نے خبر دی تھی اور کہا تھا کہ برطانوی انٹیلیجنس افسر کا مشورہ تھا کہ گولڈن ٹیمپل میں سکھوں نوجوانوں کے خلاف فوجی آپریشن کو آخری حربے کے طور پر رکھا جائے۔انھوں نے یہ مشورہ بھی دیا کہ سکھ نوجوانوں کو باہر لے جانے کے لیے سکیورٹی فورسز کو ہیلی کاپٹرز کے ساتھ ہرمندر صاحب کمپلیکس بھیجا جائے تاکہ کم سے کم نقصان ہو۔برطانوی پارلیمنٹ میں اس موضوع پر ہونے والی بحث کی بنیاد پر انڈیا ٹوڈے کے سینیئر نامہ نگار سندیپ اونیتھن نے میگزین کے 31 جنوری 2014 کے شمارے میں سنیچ اینڈ گریب کے عنوان سے ایک مضمون لکھا، جس میں انھوں نے وضاحت کی کہ اس انٹیلی جنس آپریشن کو آپریشن سن ڈان کا نام دیا گیا تھا۔اس آرٹیکل میں لکھا گیا تھا کہ منصوبہ یہ تھا کہ جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کو گرو نانک کی رہائش گاہ کے قریب سے پکڑ کر ہیلی کاپٹر کے ذریعے باہر لے جایا جائے۔یہ منصوبہ اندرا گاندھی کے سامنے ان کے سینیئر مشیر رام ناتھ کا کی موجودگی میں ان کی 1 اکبر روڈ رہائش گاہ پر رکھا گیا تھا لیکن اندرا گاندھی نے اس منصوبے کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا تھا کہ اس میں بہت سے لوگ مارے جائیں گے۔
یہ پہلا موقع نہیں تھا جب انڈین سکیورٹی ایجنسیوں نے جرنیل سنگھ کو اس کے ٹھکانے سے پکڑنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ کا نے جرنیل سنگھ پر اس وقت سے نظر رکھی ہوئی تھی جب وہ چوک مہتا میں رہتے تھے اور بعد میں 19 جولائی 1982 کو گرو نانک نواس منتقل ہو گئے۔جی بی سدھو را میں سپیشل سیکریٹری کے طور پر کام کر چکے ہیں اور سابق وزیر خارجہ سوارن سنگھ کے داماد ہیں۔ جی بی سدھو کی حال ہی میں شائع شدہ کتاب دی خالصتان کنسپیریسی اس منصوبے پر مزید روشنی ڈالتی ہے۔ان دنوں رام چند ناگرانی ڈائریکٹر جنرل سکیورٹی ہوا کرتے تھے۔ ایس ایف ایف را کا ایک کمانڈو یونٹ تھا جس میں فوج، بارڈر سکیورٹی فورس اور سینٹرل ریزرو فورس کے 150 منتخب اہلکاروں پر مشتمل تھا۔اس کمانڈو یونٹ کے پاس اپنے دو ایم آئی ہیلی کاپٹر تھے۔ اس کے علاوہ ضرورت پڑنے پر وہ ایوی ایشن ریسرچ سینٹر کا طیارہ بھی استعمال کر سکتے ہیں۔
سنہ1928 میں پیدا ہونے والے رام چند ناگرانی آج بھی دہلی میں رہتے ہیں۔ خرابی صحت کے باعث اب وہ بولنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ جی بی سدھو نے دو سال پہلے اپنی کتاب کے سلسلے میں ان سے کئی بار بات کی تھی۔جی بی ایس سدھو کہتے ہیں کہ ناگرانی نے مجھے بتایا کہ دسمبر 1983 کے آخر میں، را کے سربراہ کا نے مجھے اپنے دفتر میں بلایا اور ایس ایف ایف کمانڈو یونٹ کے زیر استعمال ہیلی کاپٹروں کو جرنیل سنگھ کو اغوا کرنے کی کارروائی سونپی۔ جرنیل سنگھ کو گولڈن ٹیمپل کے لنگر خانے کی چھت سے اغوا کیا جانا تھا جہاں سے ہر شام وہ اپنے پیروکاروں سے خطاب کرتے تھے۔اس لیے دو ایم آئی ہیلی کاپٹرز اور کچھ بلٹ پروف گاڑیوں کا بندوبست کرنا پڑا، تاکہ جرنیل سنگھ کو وہاں سے نکال کر ملحقہ سڑک پر لے جایا جا سکے، اس لیے ناگرانی نے سی آر پی ایف کے جوانوں کے ذریعے علاقے کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔
جی بی سدھو مزید کہتے ہیں کہ آپریشن کی منصوبہ بندی کرنے سے پہلے، ناگرانی نیایس ایف ایف کے ایک ملازم کو ہرمندر صاحب کے اندر بھیجا جو وہاں کچھ دنوں تک رہا اور اس علاقے کا تفصیلی نقشہ بنایا۔اس نقشے نے ہرمندر صاحب کیمپس کے بہترین داخلی اور خارجی راستوں کی نشاندہی کی۔ ان سے یہ بھی کہا گیا کہ وہ جرنیل سنگھ اور ان کے ساتھیوں کی اکال تخت پر ان کی رہائش گاہ سے لے کر لنگر خانے کی چھت تک تمام سرگرمیوں کی نگرانی کریں۔اس شخص سے ہیلی کاپٹر پر سوار کمانڈوز کے ذریعے جرنیل سنگھ کے اغوا کے صحیح وقت کے بارے میں مشورہ دینے کو بھی کہا گیا تھا۔ یہ تمام معلومات تین چار دنوں میں اکٹھی کی گئیں۔اس کے بعد سہارنپور کے قریب سرساوا میں ہرمندر صاحب کمپلیکس کے لنگر کے علاقے اور فرار کے راستوں کا ایک ماڈل تیار کیا گیا۔ناگرانی نے سدھو کو بتایا تھا کہ ہیلی کاپٹر آپریشن سے فورا پہلے مسلح سی آر پی ایف اہلکاروں کے ذریعہ ہریمندر صاحب کے باہر ایک گھیرا کیا جانا تھا تاکہ آپریشن ختم ہونے تک عام لوگ کیمپس میں داخل یا باہر نہ نکل سکیں۔ایس ایف ایف کمانڈوز کی دو ٹیموں کو نچلی پرواز کرنے والے ہیلی کاپٹروں سے رسیوں کے ذریعے اس جگہ تک پہنچایا جانا تھا جہاں جرنیل سنگھ اپنی تقریر کرتے تھے۔لہذا اس وقت کا انتخاب کیا گیا جب جرنیل سنگھ اپنی تقریر ختم کر رہے ہوں گے کیونکہ اس وقت ان کے اردگرد کی سیکورٹی تھوڑی ڈھیلی ہو جائے گی۔منصوبہ یہ تھا کہ کچھ کمانڈوز جرنیل سنگھ کو پکڑنے کے لیے دوڑیں گے اور کچھ اس کے محافظوں کو قابو کر لیں گے۔ یہ اندازہ لگایا گیا تھا کہ جرنیل سنگھ کے محافظ کمانڈوز کو دیکھتے ہی گولی چلا دیں گے۔یہ قیاس بھی کیا جا رہا تھا کہ ممکنہ طور پر کمانڈوز کے نیچے اترنے سے پہلے ہی فائرنگ شروع ہو سکتی ہے۔اس امکان سے نمٹنے کے لیے ایس ایف ایف کمانڈوز کو دو پارٹیوں میں تقسیم کیا جانا تھا۔کمانڈوز کا ایک گروپ ہرمندر صاحب کمپلیکس میں ٹھہرے گا جہاں سے وہ دربار صاحب کی طرف جانے والی سڑک کو روکے گا اور دوسری پارٹی لنگر کمپلیکس اور گرو نانک نواس کے درمیان سڑک پر بلٹ پروف گاڑیوں کے ساتھ تیار ہو گی۔ناگرانی کے مطابق بعدازاں یہ طے پایا تھا کہ اس آپریشن میں صرف ایس ایف ایف کے اہلکار ہی حصہ لیں گے۔
اپریل 1984 میں کائو نے ناگرانی سے اندرا گاندھی کو آپریشن کے بارے میں مکمل بریفنگ دینے کو کہا۔اس بریفنگ کی تفصیلات بتاتے ہوئے ناگرانی نے جی بی ایس سدھو کو بتایا کہ سب کچھ سننے کے بعد اندرا گاندھی نے پہلا سوال کیا کہ اس آپریشن میں کتنے لوگ مر سکتے ہیں؟ناگرانی نے جواب دیا ہم اپنے دونوں ہیلی کاپٹر کھو سکتے ہیں۔ بھیجے گئے کل کمانڈوز میں سے 20 فیصد تک مارے جا سکتے ہیں۔ناگرانی نے سدھو کو بتایا کہ اندرا گاندھی کا اگلا سوال تھا کہ اس مہم میں کتنے عام لوگ مر سکتے ہیں۔ناگرانی کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ یہ آپریشن بیساکھی کے آس پاس کیا جانا تھا۔ ناگرانی کے مطابق ان کے لیے یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ اس دن ہرمندر صاحب میں کتنے لوگ موجود ہوں گے۔آخر میں انھوں نے کہا کہ اس آپریشن کے دوران وہاں موجود بیس فیصد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو سکتے ہیں۔اس کے بعد آپریشن سن ڈان ختم کر دیا گیا۔آپریشن سن ڈان منسوخ کر دیا گیا لیکن اس کی منسوخی کے صرف تین ہی ماہ بعد آپریشن بلیو سٹارشروع کیا گیا جس میں کہیں زیادہ شہری اور فوجی مارے گئے۔اس آپریشن کے نتیجے میں ہونے والے جانی نقصان کی بعدازاں وزیر اعظم اندرا گاندھی کو بھاری قیمت چکانی پڑی۔
واضح رہے کہ اندرا گاندھی نے فوجی حملہ کرتے ہوئے سکھوں کے مقدس ترین مقام گولڈن ٹیمپل کو مکمل طورپر تباہ کر دیا تھا اور اس دوران ہزاروں سکھوں کو بیدردی سے ہلاک کیا گیا جن میں بڑی تعداد میں سکھ زائرین شامل تھے۔اس المناک واقعہ پراس وقت کی وزیر اعظم اندراگاندھی کو ان کے دو فوجی سکھ محافظوں نے وزیر اعظم ہائوس میں اپنے فوجی اسلحے سے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد تمام بھارت میں سکھوں کے قتل عام کی مہم شروع ہو گئی جس میں ہندوگروہوں نے ہزاروں کی تعداد میں سکھوں کو ہلاک کیا ۔ صرف دارلحکومت دہلی میں پانچ ہزار سے زیادہ سکھ مارے گئے تھے۔ ان واقعات کے بعد بھارتی حکومت نے مشرقی پنجاب میں کئی سال تک فوجی آپریشن کرتے ہوئے ہزاروں کی تعداد میں سکھوں کو ہلاک کرتے ہوئے اپنی طرف سے سکھوں کی خالصتان تحریک کو کچل دیا تھا لیکن گزشتہ کئی سال سے آزاد ریاست خالصتان کی قیام کی تحریک ایک بار پھر ابھر کر سامنے آئی ہے جس سے بھارتی حکومت شدید پریشانی کا شکار ہے۔

واپس کریں