دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
مقبوضہ کشمیر، ہندوستانی فوجیوں نے مسجد میں داخل ہو کر نمازیوں کوبندوق کی نوک پہ ' جے شری رام' کے نعرے لگانے پہ مجبور کیا اور لوگوں کو تشدد کانشانہ بھی بنایا۔ جرمن نشریاتی ادارہ'' ڈائوچ آف ویلے''
No image سرینگر( کشیررپورٹ) ہندوستانی فوجیوں نے اتوار،26جون کو مقبوضہ کشمیرکے ضلع پلوامہ کی ایک مسجد میں نماز فجرکے وقت داخل ہو کرو ہاں موجود نمازیوں کو بندوق کی نوک پر ' جے شروی رام' کے نعروے لگانے پہ مجبور کیا۔ہندوستانی فوجیوں نے اس موقع پہ گائوں کے لوگوں کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔جرمنی کے عالمی میڈیا ادارے ' وائس آف جرمنی' ، ڈائوچ آف ویلے' ڈی ڈبلیو' نے اپنی خبرمیں بتایا ہے کہ
''بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے جنوبی ضلع پلوامہ کے ایک گائوں ذادورا کے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ نماز فجر کی اذان کے وقت بھارتی فوج ان کی ایک مقامی مسجد میں داخل ہوئی اور وہاں موجود افراد سے زبردستی 'جے شری رام' کے نعرے لگوائے۔بھارتی ذرائع ابلاغ میں زادورا کے رہائشیوں کے حوالے سے جو خبریں شائع ہوئی ہیں اس کے مطابق یا واقعہ ہفتے کی صبح پیش آیا تھا، تاہم اس بارے میں اتوار کے روز ہی لوگوں کو پتہ چل سکا۔مقامی رہائشیوں کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے بعد فوج اور پولیس کے اعلی افسران نے گائوں کا دورہ کیا اور کہا کہ وہ اس معاملے کو دیکھیں گے۔گائوں کے ایک شخص نے بتایا کہ گشت کرنے والے بھارتی فوج کے ایک دستے نے فجر سے کافی پہلے ہی کچھ آدمیوں کو گھروں سے باہر آنے کو کہا۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں بتایا گیا کہ نئے بھرتی ہونے والے فوجیوں کو سکھایا جا رہا ہے کہ رات کو لوگوں کو گھروں سے کیسے بلایا جائے۔گائوں کے ایک اور شخص کا کہنا ہے تھا، ''شروع میں انہوں نے شائستگی سے بات کی، تاہم مردوں کو تقریبا دو گھنٹے تک باہر کھڑا رکھا۔''ایک اور شخص کا کہنا تھا، ''صبح سویرے مسجد سے جب لاڈاسپیکر پر اذان شروع ہوئی اورتقریبا نصف اذان ہو چکی تھی، تبھی بھارتی فوجی مسجد میں داخل ہوئے اوروہاں موجود لوگوں سے 'جے شری رام' کا نعرہ لگانے کو کہا اور ساتھ میں خود بھی نعرہ لگایا۔''گائوں کے لوگوں نے مزید بتایا کہ اس دوران مسجد کے باہر کھڑے کچھ بھارتی فوجیوں نے مبینہ طور پر مقامی رہائشیوں کو ''مارا پیٹا'' بھی۔
بھارت کے معروف انگریزی اخبار 'دی انڈین ایکسپریس' کے مطابق جب اس سے متعلق سری نگر میں دفاعی ترجمان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا، ''میں نے تفصیلات طلب کی ہیں۔''جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی نے اس مبینہ واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے اس کی مذمت کی۔ انہوں نے کہا: ''فوجی دستوں کے بارے میں یہ سن کر حیرت زدہ ہوں۔''انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں مزید کہا، ''پلوامہ میں ایک مسجد پر دھاوا بولنا اور اندر موجود مسلمانوں کو 'جئے شری رام' کا نعرہ لگانے پر مجبور کرنا۔ ایک ایسے وقت جب بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ یہاں موجود ہیں، اور وہ بھی امر ناتھ یاترا سے پہلے، 'اشتعال انگیزی' کے سوا کچھ نہیں ہے۔''سابق وزیر اعلی عمر عبداللہ نے اپنی ٹویٹ میں اس حوالے سے ایک اخبار کی کلپ شیئر کی اور انہوں نے بھی بھارتی وزیر دفاع سے اس کی تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا۔انہوں نے لکھا، ''پلوامہ کے زادورا میں ایک مسجد میں سیکورٹی فورس کے اہلکاروں کے داخل ہونے کی خبریں انتہائی پریشان کن ہیں۔ مسجد میں اس طرح داخلہ ہی کافی بری بات ہے، لیکن پھر لوگوں کو ''جئے شری رام'' جیسے نعرے لگانے پر مجبور کرنا، جیسا کہ وہاں کے مقامی لوگوں نے اطلاع دی ہے، ناقابل قبول ہے۔''انہوں نے بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کو ٹیگ کرتے ہوئے مزید لکھا، ''مجھے امید ہے کہ وہ وقت پر شفاف طریقے سے ان رپورٹس کی جانچ کرنے کی ہدایات جاری کریں گے۔''اطلاعات کے مطابق اتوار کے روز جب اس حوالے سے پلوامہ کے سینیئر پولیس حکام سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کال منقطع کر دی، جبکہ ڈی آئی جی جنوبی کشمیر نے کہا کہ وہ بات نہیں کر سکتے کیونکہ انہیں ''میڈیکل ایمرجنسی ہے۔''تاہم میڈیا میں خبریں آنے کے بعد حکام نے گائوں کا دورہ کیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ابھی تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے۔ ویسے بھی کشمیر میں فوجی کارروائیوں کو افسپا قانون کے تحت استثنی حاصل ہے۔

یہ ہے ہندوستان کی وہ جمہوریت جس کے بارے میں ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی نے واشنگٹن میں امریکی صدر بائیڈن کے ساتھ پریس کانفرنس میں امریکی صحافی کے ہندوستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے سوال کے جواب میں کہا تھا کہ جمہوریت ہندوستانیوں کے ' ڈی این اے' میں شامل ہے۔ہندوستان اپنی کثیرآبادی کے تناظرمیں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعوی تو کرتا ہے لیکن ہندوستان میں جمہوریت ہونے کا دعوی ایسے ہی ہے کہ جیسے منرل واٹر کی بوتل میں گٹرکا پانی بھرا ہوا ہو۔کئی عالمی تنظیموں کے علاوہ خود امریکہ کے دنیا بھرمیں مذہبی آزادی کی صورتحال کے بارے میں قائم سرکاری ادارے ' uscirf' نے اپنی نئی رپورٹ میں ہندوستان میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف حکومتی سطح پہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مستقل صورتحال کی تفصیل بیان کرتے ہوئے امریکی حکومت پہ زوردیا تھا کہ اس سنگین مسئلے پہ ہندوستانی حکومت سے بات کی جائے۔ امریکہ کے سابق صدر باراک اوبامہ نے بھی انہی دنوں' سی این این' کو انٹرویو میں کہا کہ ہندوستان میں اقلیتوںبالخصوص مسلمانوں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ مستقل طورپرجاری ہے اور اگرصورتحال اسی طرح رہی تو اس سے ہندوستان ٹوٹ سکتا ہے۔ اسی طرح ہندوستانی مقبوضہ کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالیوں کی بدترین صورتحال ہے جہاں خصوصی قوانین کے ذریعے بھارتی فوج کو تشدد، قتل اور تباہی کے لئے خصوصی تحفظ دیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کے عالمی اداروں اور عالمی تنظیموں کی ایسی درجنوں روپورٹس جاری ہو چکی ہیں جن میں مقبوضہ کشمیرمیں انسانی حقوق کی بدترین صورتحال کی تفصیل بیان کرتے ہوئے گہری تشویش کا اظہارکیا گیا ہے۔ مقبوضہ کشمیرمیں ہندوستانی فورسز کے ہاتھوں ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کو ہلاک کیا جا چکاہے، ہزاروں، معذوراور ہزاروں جیلوں میں قید ہیں۔
ہندوستانی مقبوضہ جموں و کشمیرمیں بالخصوص گزشتہ36سال سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کشمیرسے متعلق منظورکردہ قراردادوں کے مطابق اقوام متحدہ کی زیرنگرانی رائے شماری کراتے ہوئے دیرینہ مسئلہ کشمیرکے پرامن حل کے لئے کشمیریوں کی مزاحمتی تحریک جاری ہے۔ ہندوستان عالمی سطح پہ باز پرس پہ یہ جواب دیتا ہے کہ کشمیرکا مسئلہ پاکستان کے ساتھ باہمی بات چیت سے حل کیا جائے گا لیکن عملی طورپرہندوستان دھونس اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کشمیرکا مسئلہ اپنی فوجی طاقت کے بھرپورظالمانہ اور انسانیت سوز استعمال سے حل کرنے کی پالیسی اختیارکئے ہوئے ہے تاہم اس کے باوجود ہندوستان کشمیریوں کے عزم آزادی کو تسخیرکرنے میں ناکام چلا آ رہا ہے۔


واپس کریں