دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آزادکشمیر کے سابق سینئر بیوروکریٹ اکرم سہیل نے صدر مشرف کی طرف سے آزاد کشمیر کو25سال تک 300میگاواٹ بجلی مفت دینے کے ایک صحافی کے دعوے کو صدی کا بڑا جھوٹ قرار دے دیا
No image اسلام آباد ( کشیر رپورٹ)آزاد کشمیر کے سابق سینئر بیوروکریٹ اکرم سہیل نے ان اطلاعات کی سختی سے تردید کی ہے کہ پاکستان کے سابق آمر حکمران جنرل پرویز مشرف نے آزاد کشمیر کو 25سال تک 300میگاواٹ بجلی مفت دینے کی پیشکش کی تھی لیکن اس وقت کے وزیر اعظم سردار سکندر حیات خان نے اس کے بجائے 7لگژری گاڑیاں مانگ لیں جس پہ انہیں 7کے بجائے11گاڑیاں دے دی گئیں۔۔اکرم سہیل نے آزاد کشمیر کے ایک صحافی کے اس دعوے کو سراسر غلط قرار دیتے ہوئے منگلا ڈیم اپ ریزنگ کے آزاد کشمیر حکومت کے ساتھ معاہدے کے چند اہم نکات بتاتے ہوئے یہ انکشاف بھی کیا کہ اس وقت کے وزیر اعظم سردار سکندر حیات خان نے صدر جنرل پرویز مشرف کی طرف سے آزاد کشمیر حکومت کے ساتھ معاہدہ کئے بغیر منگلا ڈیم اپ ریزنگ منصوبے کا افتتاح کرنے کی کوشش پہ استعفے دینے کی دھمکی دی تھی ۔اکرم سہیل نے یہ انکشاف بھی کیا کہ منگلا ڈیم اپ ریزنگ معاہدے میں تحریر ہے کہ ڈیم سے ملحقہ آراضی واپڈا کی نہیں بلکہ آزاد کشمیر حکومت کی ملکیت ہو گی۔

آزاد کشمیر کے سابق وزیر اعظم سردار سکندر حیات خان کے ساتھ پرنسپل سیکرٹری کے عہدے پہ فائز ، سابق سینئر بیوروکریٹ اکرم سہیل نے سوشل میڈیا پہ شیئر کی گئی ایک وڈیو میں ٹیلی فون پہ گفتگو میں اس دعوے کو سراسر غلط قرار دیتے ہوئے بتایا کہ میں نے بھی وہ وڈیو کلپ دیکھا ہے ،وہ سو فیصد جھوٹ ، اس صدی کا سب سے بڑا جھوٹ ہے، میرے لئے وہ صحافی بھائی میرے لئے قابل احترام ہیں ، میں ان کی اب بھی بڑی عزت کرتا ہوں لیکن میں حیران ہو کہ پتہ نہیں کس طرح انہوں نے کہاں سے یہ بات لی،اور اتنا بڑا جھوٹ سردار سکندر صاحب پہ ۔ اکرم سہیل نے انکشاف کیا کہ سردار سکندر حیات خان اس بات پہ استعفی دینے پہ آ گئے تھے کہ اگر معاہدہ نہیں ہو گا تو میں استعفی دے کر گھر چلا جائوں گا۔

اکرم سہیل نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ جنر ل پرویز مشرف منگلا ڈیم اپ ریزنگ کے سلسلے میں معاہدہ کئے بغیر کشمیر ہائوس آ کر اس کا افتتاح کرنا چاہتے تھے۔چیف سیکرٹری نے سردار سکندر حیات کو بتایا کہ پرویز مشرف معاہدہ کئے بغیر منصوبے کا افتتاح کرنے کشمیر ہائوس آنا چاہتے ہیں تو سردار سکندر حیات خان جو اس وقت وزیر اعظم تھے، نے کہا کہ معاہدے کے بغیر، ہمارے وہاں بہت سے مسائل ہیں، اس کے بغیر میں کسی صورت اجازت نہیںدوں گا کہ واپڈا منگلا ڈیم اپ ریزنگ کے منصوبے پہ کام شروع کرے۔ اکرم سہیل نے کہا کہ مجھے یادہے کہ انہوں نے کہا کہ اگر یہ اس طرح کریں گے تو کشمیر ہائوس میں میرا سامان پیک کرو، اور میرے استعفے کا ڈرافٹ بھی بنا لو،اگر مشرف کشمیر ہائوس آئے گا تو میں یہاں موجود نہیں رہوں گا،میں چھوڑ کر چلا جائوں گا۔ اس پر چیف سیکرٹری نے صدر پاکستان سے کہا کہ وہ معاہدہ کئے بغیر منگلا ڈیم اپ ریزنگ پہ کام نہیں کرنے دیں گے ، پھراس پہ معاہدہ ہوا اور اس پہ ہمارے تقریبا دو مہینے لگے،اس میں بہت سے باتیں ہم نے منوائیں،جن میں چا ر ، پانچ اہم باتیں یہ شامل تھیں کہ منگلا ڈیم کی تعمیر کے وقت11ہزار ایسے افراد تھے جن کو معاوضے نہیں دیئے گئے تھے،ہم نے معاہدے میں یہ شامل کرایا کہ جنہیںمنگلا ڈیم کی تعمیر کے وقت معاوضے نہیں دیئے گئے یا کم دیئے گئے انہیں دو لاکھ روپے فی کے حساب سے ادائیگی کی جائے،اور انہیں جو زمینیں دی گئی تھیں ان کے حقوق ملکیت انہیں دیئے جائیں،زمینوں، مکانات کا معاوضہ اور دس فیصد مزید بھی دیا جائے تا کہ وہ اپنے مکانوں کا مٹیریل اٹھا کر لے جا سکیں۔اور یہ کہ آ راضی واپڈا کی ملکیت نہیں ہو گی بلکہ آزاد کشمیر حکومت کی ملکیت ہو گی۔ اکرم سہیل نے استفسارکے سوال پہ جواب دیا کہ یہ بات معاہدے میں بھی لکھی ہوئی ہے کہ آراضی آزاد کشمیر حکومت کی ملکیت ہو گی۔ اپ ریزنگ میں جو لوگ متاثر ہوئے انہیں تین لاکھ روپے اور پانچ مرلے کا پلاٹ، ان کے لئے ایک نیا شہر بنانے کا ایگرمنٹ میں لکھا گیاجس کے سارے ترقیاتی اخراجات واپڈا برداشت کرے گا،اور متاثرین کو وہاں بسایا جائے گا، اس کے علاوہ ووکیشنل سینٹر، دھان گلی پل، یہ معاہدے میں شامل اہم باتیں تھیں اور بجلی کا ٹیرف جو آج بھی ہمارے لئے ایک مسئلہ بنا ہوا ہے۔ اس وقت اوسط ٹیرف چار روپے بیس پیسے تھا،اس وقت جو واپڈا آزاد کشمیر سے لے رہی تھی،اس کو ہم کم کرا کے دو روپے چالیس پیسے پہ لائے، اس میں 17فیصد لائن لاسسز جو واپڈا نے ڈالا ہوا تھا، وہ نے نکلوایا اور ایک روپیہ پانچ پیسے جو سبسڈی جو ہم نے واٹر اینڈ پاورسے لی اور اس کے علاوہ آزاد کشمیر پہ جی ایس ٹی لگایا جاتا تھا، وہ بھی ہم نے ختم کر ا ئی۔ اس کے علاوہ ایک اور بات یہ کہ نیٹ ہائیڈل پرافٹ کانام واپڈا والے سننا نہیں چاہتے تھے کہ نہیں جی آزاد کشمیر تو ہمارا حصہ ہی نہیں ہے آ پ کیسے ہم سے نیٹ ہائیڈل پرافٹ مانگ سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ آزاد کشمیر کے ضلع میر پور کے لندن میں مقیم ایک یوٹیوبر صحافی ابرار قریشی نے روزنامہ اوصاف اسلام آباد کے ایک صحافی بشارت عباسی کے دورہ انگلینڈ کے موقع پہ ان سے انٹرویو کیا تھا جس میں بشارت عباسی نے دعوی کیا تھا کہ جنرل پرویز مشرف نے آزاد کشمیر کو 25سال تک تین سو میگاواٹ بجلی مفت فراہم کرنے کی پیشکش کی تھی لیکن اس وقت کے وزیر اعظم سردار سکندر حیات خان نے اس کے بجائے ان سے7لگژری گاڑیاں مانگ لیں جس پہ آزاد کشمیر کو کے بجائے11گاڑیاں دے دی گئیں۔آزاد کشمیر میں ایک مخصوص سیاسی حلقے کی طرف سے یہ وڈیو کلپ سوشل میڈیا پہ بار بار شیئر کیا گیا اور اس سے حقائق کے منافی غلط اطلاع خاص مقصد سے پھیلائی گئی۔بشارت عباسی کا کہنا تھا کہ واپڈا کے جی ایم نے چار ٹاپ بیوروکریٹس کی موجودگی میں آف دی ریکارڈ یہ کہا تھا جسے میں اب آن دی ریکارڈ آپ سے یہ کہہ رہا ہوں۔
https://www.facebook.com/100004239916246/videos/648203687273226

علاوہ ازیں سابق سینئر بیوروکریٹ اکرم سہیل نے27اگست کو ایک بیان میں کہا کہ آزاد کشمیر میں بجلی سے متعلق 7 اھم ترین معاملات۔۔ آزاد کشمیر حکومت کو یہ معاملات فوری طور پر حکومت پاکستان سے اٹھانا چاہئے۔
1)۔ منگلا (میرپور) ڈیم سے 400 میگا واٹ بجلی اس ریٹ پر آزاد کشمیر کو مہیا کی جائے جو منگلا پاور ہاوس میں بجلی کی فی یونٹ پیداوار پر رواں اخراجات آرہے ہیں۔ کیونکہ پاکستان کے یکساں ٹیرف کا فارمولا آزاد کشمیر پر لاگو نہیں ہو سکتا۔
2۔پاکستان کے آئین کے آرٹیکلز 157 اور 161 کے تحت آزاد کشمیر میں واپڈا کے زیر انتظام تمام بجلی گھروں بشمول پرائیویٹ پاور پراجیکٹس سے خالص منافع (نیٹ ہائیڈل پرافٹ /واٹر یوز چارجز ) ، ان پن بجلی کے پراجیکٹس کی آمدنی سے ، آزاد کشمیر حکومت کو ادا کیا جائے۔۔
3۔ آزاد کشمیر حکومت آزاد کشمیر کیعوام کے بجلی کے بلات سے تمام غیرقانونی اور بلا جواز چارجز بذریعہ نوٹیفکیشن فوری ختم کرے۔
4۔ آزاد کشمیر حکومت کے زیرانتظام پیدا ہونے والی بجلی جاگراں وغیرہ جو تقریبا" سو میگاواٹ ہے کو نیشنل گرڈ سے منقطع کر کے آزادکشمیر کے علاقوں کو براہ راست مہیا کی جائے۔یہ بجلی 90 پیسے فی یونٹ واپڈا خریدتا ہے اور 22 روپے یونٹ آزاد کشمیر کو واپس بیچتا ہے۔
5۔آزاد کشمیر حکومت نے واپڈا سے بجلی کا ٹیرف بڑھانے کا اگر کوئی معائدہ کیا ہے تو اسے بھی فوری منسوخ کیا جائے۔
6۔ مہاراجہ کے دور میں نہر اپر جہلم سے پنجاب کا زرعی علاقہ سیراب ہوتا تھا اس کا آبیانہ کشمیر حکومت کو ملتا تھا جو قیام پاکستان کے بعد بند ہو گیا ہے ۔اس پانی کی آبیاری سے سالانہ 500 ارب سے زیادہ اقتصادی فائدہ ہو رہا ہے۔۔ اس پانی کا آبیانہ دوبارہ آزاد کشمیر حکومت کو بمعہ بقایاجات ادا کیا جائے۔
7۔منگلا ڈیم معائدے کی روشنی میں منگلا جھیل سے میرپور میں آبپاشی اور پینے کیلئے پانی مہیا کیا جائے۔
واپس کریں