دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ہندوستانی حکومت مقبوضہ کشمیر کی مقامی صنعتوں کی تباہی کے منصوبے پہ عمل پیرا، اون کی صنعت تباہی سے دوچار
No image سرینگر( کشیر رپورٹ) مقبوضہ کشمیر میںاون سے بنی اشیاء ایک قدیم صنعت ہے اور کشمیر میں اون سے بنے لباس اور دیگر گرم کپڑے کی مصنوعات کی دنیا بھر میں مانگ ہے ۔ تاہم ہندوستانی حکومت نے اپنی پالیسیوں سے مقبوضہ کشمیرکی مقامی صنعتوں کو نقصان پہنچانے، انہیں ختم کرنے کی حکمت عملی اختیار کی ہوئی ہے۔ اس وجہ سے مقبوضہ کشمیر میں دیگر کی مقامی صنعتوں کی طرح اون کی صنعت بھی تباہی اور ختم ہونے کی صورتحال سے دوچار ہے۔ہندوستانی حکومت مقبوضہ جموں وکشمیر کی اون کی صنعت کو نقصان پہنچانے کے لئے غیر ملکی اون کو ترجیح دی رہی ہے جبکہ مقبوضہ جموں وکشمیر کی اون سے بنی اشیاء کی انفرادیت اور مقبولیت دنیا بھر میں مسلمہ ہے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں سالانہ تقریبا 70 لاکھ کلو گرام اون کی پیداوار ہوتی ہے اور اس صنعت سے یہاں کے تقریبا 50 ہزار کنبے منسلک ہیں،اون کی صنعت سے نہ صرف عام لوگ بلکہ خواتین کی ایک بڑی تعداد بھی اس سے اپنی روزی روٹی کما رہی ہیں ۔اگرچہ ہندوستانی حکومت کا دعوی ہے کہ وہ جموں و کشمیر یوٹی میں اونی صنعت کو بڑے پیمانے پرفروغ دینے کے لئے ایک جامع فریم ورک تشکیل دے رہی ہے اور حکومت کی اِصلاحی پالیسیاں جموں وکشمیر میں اونی صنعت سے وابستہ ہزاروں کنبوں کو معاشی ترقی کے مواقع فراہم کر رہی ہے،صنعت سے جڑے افراد کو براہ راست مارکیٹ فراہم کرنے کا دعوی کیا جا رہا ہے ، تاہم زمینی حقائق اس کے برعکس نظر آرہے ہیں ،اون کی صنعت سے جڑے افراد کے مطابق حکومت انہیں بہتر مارکیٹ فراہم کرنے میں ناکام ہے،جس سے اس صنعت سے منسلک افراد مایوس ہیں ۔ اون کے تاجروں اور صنعتکاروں نے کہا کہ وہ گزشتہ کئی برسوں سے مالی مشکلات سے جوجھ رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ کووڈ 19کے بعد اون کی قیمتوں میں اچانک نمایاں گراوٹ آئی۔ اس دوران انہیں لاکھوں کا نقصان ہوا ،تاجروں کے مطابق کووڈ 19 سے قبل اون 150 سے 160 روپئے فی کلو کے حساب سے فروخت ہوتا تھا، تاہم مارکیٹ میں اچانک قیمتیں گر گئیں اور اون کی قیمت 20 سے 25 روپئے فی کلو تک محدود ہوگئی جو ابھی بھی بدستور جاری ہے ۔تاجروں اور صنعتکاروں کے مطابق اس وقت ان کے پاس ہزاروں ٹن اون موجود تھا، جب اچانک اون کا بھاو سات گناہ سے زیادہ نیچے گر گیا ،جس کے نتیجہ میں اس سے منسلک کاروباریوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا اور آج تک انہیں نقصانات کی بھر پائی ممکن نہیں ہو رہی ہے۔ یہی نہیں بلکہ نقصانات کے صدمہ سے کئی تاجر مذکورہ تجارت سے کنارہ کشی اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

واپس کریں