دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
بھارت کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ پانی کی تقسیم ، سینٹ قائمہ کمیٹی اجلاس کے بعد بیرسٹر علی ظفر کا بیان۔مسئلہ کشمیر اور آبی وسائل کا معاملہ ایک ساتھ ہی مخاطب کرنے کی ضرورت۔ ' خصوصی رپورٹ'
No image اسلام آباد ( خصوصی کشیر رپورٹ)بیرسٹر علی ظفر نے کہا ہے کہ بھارت کے ساتھ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ پانی کی تقسیم کا ہے، بھارت دریائے نیلم اور دریائے جہلم پر ڈیمز بنارہا ہے، بھارت کو مزید ڈیم بنانے سے نہ روکا گیا تو پاکستان کیلئے مسائل بڑھ جائیں گے۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے ان کیمرا اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارت سندھ طاس معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی کررہا ہے، بھارت مستقبل میں 3 ہزار مزید ڈیمز بنانے کا سوچ رہا ہے۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں بھارتی ڈیمز کے معاملے پر اٹارنی جنرل سے بریفنگ لی گئی اور فیصلہ ہوا کہ اس معاملے کے تکنیکی مسائل کو سامنے رکھ کر حکمت عملی بنائی جائے۔کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں کمشنر انڈس واٹر، وزارت قانون اور دفترخارجہ کے ماہرین کو بھی بلایا گیا ہے۔آئندہ اجلاس میں عالمی عدالت انصاف سے رجوع کرنے کی حکمت عملی پر بات ہوگی۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان ''سندھ طاس معاہدہ''(انڈس واٹر ٹریٹی)1960 میں عالمی بنک کی نگرانی میں طے پایا۔پاکستان میں 1958 میں جنرل ایوب خان کا مارشل لا لگنے کے دو سال بعد ہی مسئلہ کشمیر اور پاکستان کے آبی مفادات کو نظر انداز کرتے ہوئے عالمی بنک کی بھارت کے حق میں سفارشات کو تسلیم کر کے یہ معاہدہ کر لیا گیا۔اس معاہدے کا خالق بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو تھا جس نے اس معاہدے کے ذریعے کشمیرپر اپنے قبضے کو مستقل شکل دینے ،کشمیر کے آبی وسائل کو بھارت کے لئے بجلی کی پیداوار کے لئے استعمال کرنے اورپاکستان کو کنٹرول کرنے کی طویل المدتی منصوبہ بندی کرتے ہوئے سندھ طاس معاہدے کے خد و خال تیار کئے تھے۔بھارتی وزیر اعظم نہرو کی ایما پر ہی ورلڈ بنک پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم کے معاہدے کی میزبانی کو تیار ہوا۔دونوں ملکوں کے درمیان پانی کی تقسیم کا جھگڑا چلا آ رہا تھا ۔ورلڈ بنک کی میزبانی میں دونوں ملکوں کے درمیان پانی کی تقسیم کے لئے مزاکرات شروع ہوئے،پاکستانی ماہرین اور بھارتی ماہرین کی سفارشات میں بہت زیادہ فرق ہونے کی وجہ سے یہ مزاکرات'' ڈیڈ لاک '' کا شکار ہوگئے ۔ورلڈ بنک نے مزاکرات میں تعطل دور کرنے کے لئے پاکستان اور بھارت کی تجاویز کی روشنی میں اپنی تجاویز تیار کیں جو سراسر بھارت کے حق میں تھیں۔ورلڈ بنک کی تجاویز میں بھارتی تجاویز پر پاکستان کے اعتراضات کو ہی موضوع بنایا گیا یعنی کہ اگر پاکستان کو یہ خدشہ ہے تو اس کے بدلے پاکستان کو اس طرح ایڈجسٹ کر لیتے ہیں۔ پانی کی تقسیم کا ورلڈ بنک کا فارمولہ بھی مکمل طور پر بھارت کے حق میں ہونے کی وجہ سے پاکستان نے ورلڈ بنک کی تجاویز کو قبول نہ کیا اور مزاکرات ایک بار بھرناکام ہو کر رک گئے۔کئی سال گزرنے کے بعد پاکستان میں مارشل لا لگا اور اس کے دو سال کے بعد ہی پاکستان نے ورلڈ بنک کی دی گئی تجاویز کے مطابق سندھ طاس معاہدے کو تسلیم کر لیا۔دونوں ملکوں کے درمیان یہ معاہدہ کرانے میں جنرل ایوب کو ذوالفقار علی بھٹو کی بھرپور سرگرم معاونت حاصل رہی۔

اس معاہدے کے تحت پاکستان کو چند سال کا وقت دیا گیا تھا کہ وہ اتنے عرصے میں اپنی ضروریات کے مطابق ڈیم تیار کر لے،اس عرصے کے بعد بھارت کشمیر کے دریائوں سے بجلی پیدا کر سکے گا اور مقامی ضروریات کے مطابق پانی بھی استعمال کر سکے گا۔پاکستان کے لئے ڈیم تیار کرنے کی معیاد میں اضافہ ہوتا رہا اور آخر کار2008 کی آخری تاریخ مقرر کی گئی کہ پاکستان اس وقت تک ڈیم بنا لے،اس پر پاکستان نے ہنگامی طور پر نیلم جہلم پراجیکٹ اور گلگت بلتستان میں بجلی پیدا کرنے کے چند منصوبوں پر کام شروع کیا۔ہماری رائے میں محض پاکستان کے انڈس واٹر کمیشن کے چیئر مین جماعت علی شاہ کو ہی مورد الزام ٹہرانا کافی نہیں ہے،اس تمام معاملے میں پاکستان کے حکمران زیادہ قصور وار ہیں جنہوں نے'' بوجہ'' پاکستان میں ڈیم بنانے سے انحراف کو یقینی بنائے رکھا۔

یوں ایک طرف سند ھ طاس معاہدے کے ذریعے بھارت نے کشمیر کے دریائوں پر کنٹرول حاصل کرتے ہوئے پاکستان کو ''واٹر بم'' کے ذریعے تباہ و برباد کرنے کے انتظامات مکمل کئے اور دوسری طرف پاکستان کے ساتھ کشمیر کے آبی وسائل کی تقسیم کا مستقل نوعیت کا معاہدہ کر کے مسئلہ کشمیر کو نظر انداز کرتے ہوئے متنازعہ ریاست کشمیر کو سیز فائر لائین(جسے دونوں ملکوں نے شملہ سمجھوتے میں لائین آف کنٹرول کا نام دیا)کی بنیاد پر بھارت اور پاکستان کے درمیان عارضی تقسیم کو مستقل حیثیت دینے کی منصوبہ بندی میں ٹھوس پیش رفت کر لی۔پاکستان کی اس وقت کی آمر حکومت نے بھی سندھ طاس معاہدہ کرتے ہوئے بھارتی مقبوضہ کشمیر کے آبی وسائل پر بھارت کے مستقل اختیارات کو تسلیم کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر پر بھارتی قبضے کو تسلیم کرنے کی راہ اپنائی ،اس سے مسئلہ کشمیر اور کشمیر کاز کو شدید ترین
نقصانات سے دوچار ہونا پڑا۔

کشمیر کے آبی وسائل کی تقسیم پر پاکستان اور بھارت کے جھگڑے کی وجہ سے عالمی برادی مسئلہ کشمیر کے حل پر توجہ دیتی رہی لیکن جب پاکستان نے بھارت کی پلاننگ کے مطابق پانی کی تقسیم کے معاملے کو مسئلہ کشمیر سے الگ کر لیا ،اس سے مسئلہ کشمیر کے پرامن اور منصفانہ حل سے متعلق عالمی دلچسپی بھی بہت کم ہو گئی۔آج اس معاہدے کا پاکستان کے مفادات کے لئے نہایت نقصاندہ ہونا ثابت ہو چکا ہے اور بھارتی مقبوضہ کشمیر کو بھی اس معاہدے کی وجہ سے سالانہ اربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔پاکستان آج بھی مسئلہ کشمیر اور بھارت کے ساتھ پانی کے تنازعہ کو الگ الگ دیکھتے ہوئے اسی غلطی کا اعادہ کر رہا ہے جس کی وجہ سے مسئلہ کشمیر اور آبی وسائل پر پاکستان کی گرفت کمزور پڑ جاتی ہے۔حکومت پاکستان اور پاکستان کے دفاعی اداروں سے یہ پرزور مطالبہ کیا جانا چاہئے کہ مسئلہ کشمیر اور کشمیر کے آبی وسائل پر بھارت سے الگ الگ ''ڈیل'' نہ کی جائے بلکہ مسئلہ کشمیر اور آبی وسائل کی تقسیم کا معاملہ ایک ساتھ ہی مخاطب کیا جائے۔

واپس کریں