دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
وزیر اعظم پاکستان انوا ر الحق کاکڑ کی کونسل ملازمین کی تنخواہوں سے متعلق آزاد کشمیر کے اکائوٹینٹ جنرل کو ماورائے آئین و قانون ہدایت
No image اسلام آباد۔11اکتوبر2023 ( کشیر رپورٹ) پاکستان کے عبوری وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے آزاد جموں وکشمیر کے اکائونٹنٹ جنرل کو ہدایت کی ہے کہ آزاد جموں وکشمیر کونسل کے ملازمین کی تنخواہیں اور آپریشنل اخراجات ادا کرتے ہوئے جاری رکھی جائیں۔وفاقی وزارت امور کشمیر کے جائنٹ سیکرٹری محمد حامد خان کی طرف سے10اکتوبر2023کو آزاد جموں وکشمیر کے اکائونٹنٹ جنرل عثمان جاوید لون کے نام ' آفس میمورنڈم' میں تحریر کیا گیا ہے کہ
وزیر اعظم آفس کے مکتوب زیر نمبر148/PSPM/2023مورخہ 9اکتوبر2023کے ذریعے اکائونٹینٹ جنرل آزادجموں و کشمیر کوبراہ راست کہا گیا ہے کہ آزاد جموں وکشمیر کونسل کے ملازمین کو تنخواہیں اور دیگر آپریشنل اخراجات رواں مالی سال وغیرہ میں ادا کرتے ہوئے جاری رکھے جائیں ۔ ' آفس میمورنڈم' میں اکائونٹینٹ جنرل آزاد جموں وکشمیرسے کہا گیا ہے کہ ''آپ کو اس کے ذریعے فوری ضروری کارروائی کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے''۔ جوائنٹ سیکرٹری وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان کے اس' آفس میمورنڈم' کی کاپی چیف سیکرٹری آزاد جموں و کشمیر اور سیکرٹری فنانس آزاد جموں وکشمیر کو بھی ارسال کرتے ہوئے انہیں بھی اس سلسلے میں فوری کاروائی کی ہدایت کی گئی ہے۔

واضح رہے کہ وزیر اعظم پاکستان نہ تو آئین پاکستان اور نہ ہی آزاد جموں وکشمیر کے آئین کے تحت اکائونٹینٹ جنرل آزاد جموں وکشمیر کو اس طرح کی کوئی ہدایت کر سکتے ہیں۔آئین کی رو سے وزیر اعظم پاکستان اور وفاقی کابینہ وفاقی حکومت قرار دی گئی ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ آزاد جموں وکشمیر کے عبوری آئین کے تحت وزیر اعظم پاکستان بلحاظ عہدہ آزاد جموں وکشمیر کونسل کے چیئر مین ہیں اور اس حیثیت میں انہیں آزاد جموں وکشمیر کی اعلی عدلیہ اور چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے لئے ایڈوائس جاری کرنے کا ایگزیکٹیو اختیار حاصل ہے لیکن انہیں بحیثیت چیئر مین آزاد جموں وکشمیر کونسل آزاد جموں و کشمیر کے محکمہ حسابات یا دیگر محکموں میںہونے والے سرکاری امور کے بارے میں کوئی آئینی و قانونی اختیار حاصل نہیں ہے۔

یہ خط وزیر اعظم پاکستان کی حیثیت میں جاری کیا گیا ہے جسے وزارت امور کشمیر کی جانب سے اکائونٹینٹ جنرل آزاد جموں و کشمیر کو تعمیل کے لئے تحریری طور پر ہدایت دی گئی ہے۔ وزیر اعظم پاکستان کے آئین کے آرٹیکل90اور سپریم کورٹ پاکستان کے فیصلے ، ' مصطفی بنام وفاق پاکستان' کے تحت ہدایت/حکم جاری کرنے کا اختیار نہیں رکھتے کیونکہ وزیر اعظم آئین کے تحت کابینہ کی منظوری کے بغیر پاکستان کے وفاقی یا صوبائی اداروں کو بھی ایسا حکم نہیں دے سکتے ، چہ جائیکہ اکائونٹینٹ جنرل آزاد جموں وکشمیر ، جو حکومت آزاد جموں وکشمیر کے ماتحت ملازم ہیں اور محکمہ حسابات کے سربراہ کے طور پرآزاد جموں وکشمیر حکومت اور آزاد جموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی کے بنائے گئے قوانین اور حکومت آزا د جموں وکشمیر کے جاری کردہ احکامات و ہدایات پر، لازمی طورپر عملدرآمد کرنے کے پابند ہیں۔

وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے خط میں آزادجموں و کشمیر کے محکمہ حسابات کو جاری کردہ ہدایات پاکستان کے آئین کے ساتھ ساتھ آزاد جموں وکشمیر کے آئین کی بھی صریحا خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے، جس کا انہیں کوئی قانونی، آئینی و اخلاقی اختیار نہیں ہے۔اس قسم کے احکامات سے یہ باور کرنے کی کافی وجوہات موجودہ ہیں کہ کل کلاں وزیر اعظم پاکستان آزاد جموں وکشمیر کے سرکاری خزانے سے لاکھوں یا کروڑوں روپے کسی کو ادا کرنے کا حکم بھی دے سکتے ہیں۔

آزاد جموں وکشمیر کونسل ملازمین آزاد جموں وکشمیر کے عبوری آئین کے آرٹیکل 51A کے تحت حکومت آزاد جموں وکشمیر کے ماتحت ملازم ہیں اور انہیں آئینی و قانونی لحاظ سے دوران ملازمت تنخواہ و مراعات دینے کا حق حاصل ہے۔ لیکن آزاد جموں وکشمیر کونسل کے سیکرٹری اور جائنٹ سیکرٹری صاحبان نے سال2018کے بعد آزاد جموں وکشمیر کے آئین کے آرٹیکل51Aکے ذیلی آرٹیکل2کے تحت مستعار الخدمت لئے گئے افسران ، ملازمین کواپنے اپنے آبائی محکموں میں واپس نہیں کیا گیا اور نہ ہی ذیلی آرٹیکل4کے تحت عارضی طور پر اپنے گھروں میں نجی خدمات کے لئے بھرتی کئے گئے لگ بھگ ایک سو ملازمین کو فارغ کیا گیا، جس کے نتیجے میں گزشتہ 6سال سے، بغیر کام کاج کئے 300کے لگ بھگ ملازمین آزاد جموں وکشمیر کے عوام کے جمع کردہ ٹیکسز سے تنخواہ و مراعات حاصل کرتے آ رہے ہیں۔جبکہ کونسل کے اثاثہ جات سے حاصل کردہ آمدن کے بارے میں بھی آزاد جمو ں و کشمیر حکومت کو بے خبر ہی نہیں بلکہ حساب فہمی سے بھی گریز کی روش اختیار کر رکھی ہے۔

گزشتہ دنوں آزاد جموں وکشمیر کونسل کے سرکاری اکائونٹ میں جمع شدہ آزاد جموں وکشمیر کے ٹیکسز کی رقم مبلغ82کروڑ روپے NRSPبنک میں ، معیاد مکمل ہونے کے بعد دوبارہ جمع کئے گئے ، حالانکہ یہ رقم و دیگر اثاثہ جات آزاد جموں وکشمیر حکومت کو منتقل کیاجانا آئینی و قانونی تقاضہ ہے۔

امر واقعہ ہے کہ وزیر اعظم آزاد جموں وکشمیر چودھری انوار الحق نے2023-24کے بجٹ کی تیاری/منظوری کے موقع پرمحکمہ حسابات آزاد جموں وکشمیر سے دریافت کیا کہ کونسل ملازمین کو nominalرول حاصل کئے بغیر ، معمول اور قانونی طریقہ کار کے بغیر ' ون لائین' بجٹ اور فنڈز کی صورت میں کیوں واگزار کیا جا رہا ہے؟ جس سوال کا سیکرٹری مالیات تسلی بخش جواب دینے سے قاصر رہے۔چناچہ کونسل سیکرٹریٹ سے جب ملازمین کی فہرست nominalرول طلب کی گئی تو انہوں نے ملازمین کی تعداد و تفصیل دینے سے انکار کر دیا۔ اس حوالے سے چیف سیکرٹری آزاد جموں وکشمیر کو کونسل سیکرٹریٹ سے ملازمین کی فہرست حاصل کرنے کی ہدایت دی گئی لیکن سیکرٹری وزارت امور کشمیر ، جو کونسل کے بھی سیکرٹری ہیں، نے مطلوبہ فہرست فراہم نہیں کی۔نتیجے کے طورپر وزیر اعظم آزا د جموں وکشمیر نے محکمہ حسابات کے اکائوٹینٹ جنرل کو کونسل ملازمین کی فہرست موصول نہ ہونے کی وجہ سے ، فنڈز واگزار نہ کرنے کی ہدایت کی اور اس طرح کونسل ملازمین گزشتہ تین ماہ سے تنخواہیں حاصل نہ کر سکے، جس کی بنیاد ی وجہ کونسل سے مطلوبہ معلومات اور nominalرول فراہم کرنے سے انکار ہونا ہے۔

وفاقی وزارت امور کشمیر نے آزاد جموں وکشمیر کونسل کے ملازمین کو تنخواہیں نہ ملنے کے حوالے سے وزیر اعظم پاکستان کو گمراہ کن رپورٹ پیش کی جس پر وزیر اعظم پاکستان انوا رالحق کاکڑ نے چیف سیکرٹری آزاد جموں وکشمیر سے حقائق جانے بغیر ، غیر آئینی و غیر قانونی ہدایت جاری کر دی ہے، جس پر آزاد جموں وکشمیر کے کسی ملازم کی جانب سے تعمیل کسی طور ممکن نہیں ہے۔اگرچہ اکائونٹینٹ جنرل وفاقی حکومت کے ملازم ہیں لیکن ان کی خدمات آزاد جموں وکشمیر حکومت کو مستعار دی گئی ہیں، جن پر لازم ہے کہ وہ آزاد جموں وکشمیر حکومت کے قوانین اور حکومت کے احکامات کے تحت اپنے فرائض سر انجام دیں۔سیکرٹری وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان/سیکرٹری آزاد جموں وکشمیر کونسل پر لازم ہے کہ وہ فوری طور پر آزاد جموں وکشمیرکے کے آئین کے آرٹیکل 51A کے تحت ، مستعار الخدمت و عارضی ملازمین کو فارغ کرتے ہوئے صرف اور صرف آزاد جموں وکشمیر کونسل کے مستقل ملازمین کی فہرست ، ملازمین کی درست تعداد آزاد جموں وکشمیر حکومت کو فراہم کریں تا کہ ان ملازمین کو تنخواہیں ادا کی جا سکیں۔
واپس کریں