اکرم سہیل
یونان کے سمندر میں ڈوبنے والے سینکڑوں پاکستانیوں جن میں 135 افراد آزاد کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں، ان کی گمشدہ لاشیں اس ملک کے نظام پر سوال اٹھا رہی ہیں کہ اس دھرتی ماں پر انہیں باعزت رزق کیوں نہیں مل سکا۔ کہ وہ رزق کی تلاش میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور قبر کے لئے وطن کی مٹی بھی نصیب نہ ہوئی۔ ملک کے دس کروڑ انسان غربت کی لکیر سے نیچے کیوں زندگی بسر کر رہے ہیں دو کروڑ بچے سکول جانے کی بجائے جبری مشقت میں کیوں اسیر ہیں۔
کروڑوں محنت کشوں کی محنت آج بھی جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے پیٹ بھر رہی ہے۔ لیکن خود ان غریبوں کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں ہے۔ یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ملک غریب ہے؟ کیا اس میں وہ قدرتی وسائل موجود نہیں ہیں کہ اس ملک کے لوگوں کو باعزت روٹی مہیا کر سکے؟ اصل بات یہ ہے کہ اس ملک میں اتنے قدرتی وسائل موجود ہیں کہ ملک غیر ملکی قرضوں کے بغیر بھی ترقی کر سکتا ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام اور معدنیات اور آبی وسائل میں دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے لیکن انسانی ترقی اور شہری حقوق میں سب سے ادنی ’درجہ پر پہنچا ہوا ہے۔
جس کی بنیادی وجوہات میں پہلی وجہ انگریز سامراج کا چھوڑا ہوا وہ سامراجی ڈھانچہ ہے جس نے اس ملک کو حقیقی آزادی سے گزشتہ 76 سال کے بعد بھی محروم کر رکھا ہے۔ انگریز چلا گیا لیکن ان کے سہولت کاروں سے نہ ملک آزاد ہو سکا نہ ہی وہ نظام تبدیل ہو سکا۔ ساری دنیا میں جاگیرداری نظام ختم ہو گیا لیکن پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کا طاقتور گروہ اس میں نیا حصہ دار بن گیا۔ جس کی وجہ سے کروڑوں ہاریوں اور مزارعین کی گردنوں میں غلامی کا پھندا اور مضبوط ہو گیا۔
قدرتی وسائل ملکی مفاد میں استعمال ہونے کی بجائے ملکی اور غیر ملکی سامراجی کمپنیوں کے قبضہ میں چلے گئے۔ بلوچستان میں ریکوڈک اور سینڈک کی سونے اور چاندی کی کانیں ہوں یا وادیٔ نیلم میں یاقوت کے ذخائر، سب سامراجی کمپنیوں کی لوٹ مار کے حوالہ ہو گئیں اور اگر اس رکاوٹ ڈالی گئی تو بھاری جرمانہ کی تلوار لٹکا کر ملک و قوم کو ان کے ملکیتی قدرتی وسائل سے محروم کر کے غربت اور پسماندگی کی اتھاہ گہرائیوں میں پھینک دیا گیا اور جو اس لوٹ مار پر اعتراض کرے اس کے گلے میں غداری کا طوق لٹکا کر گمشدہ کر دیا جاتا ہے اور لواحقین کو اس کی لاش بھی نہیں ملتی۔
آزاد کشمیر میں پن بجلی کے منصوبے ڈالر چھاپنے کی مشینیں ہیں جن سے ارب ہا ڈالر ہر سال کما کر غیر ملکی سامراجی کمپنیاں اپنے ملکوں میں بھیجتی ہیں۔ پن بجلی جو پانچ سال میں اپنی پراجیکٹ لاگت پوری کر لیتی ہے اور بجلی مفت دستیاب ہو سکتی ہے اس کی عوام سے وہ قیمت وصول کی جاتی ہے جس کی ادائیگی اب کسی شہری کے بس میں نہیں رہی۔ واپڈا ان سے جو بجلی خرید کر صارفین کو دیتا ہے وہ قیمت ڈالر سے منسلک ہے ڈالر کی قیمت بڑھے گی تو بجلی کی قیمت بھی بڑھے گی۔رینٹل پاور پراجیکٹس کے معاہدے کرپشن اور لوٹ مار کی داستانوں کے سوا کچھ نہیں۔ تیل سے چلنے والے یہ پراجیکٹس بجلی پیدا کریں یا نہ کریں ان کی استعداد کے مطابق ادائیگی کرنی ہو گی۔ کھربوں روپے ان کو ادا کرنے ہیں جو سرکلر ڈیٹ کہلاتا ہے۔ باہر سے جو قرض لیا جاتا ہے وہ قرضوں کے سود پر خرچ ہونے کے علاوہ سرمایہ داروں کے لئے پر تعیش گاڑیاں اور ان کے کتوں اور بلیوں کی خوراک خریدنے کے کام آتا ہے۔ آپ یہ سوال نہیں کر سکتے کہ قرض لیا جاتا ہے وہ کہاں کہاں خرچ کیا جاتا ہے اس کی تفصیل کیوں خفیہ رکھی جاتی ہے۔
ملک کا غریب شہری جاں بچانے کے لئے ادویات بھی خریدے گا تو اٹھارہ فیصد سیلز ٹیکس ادا کرے گا۔ سرمایہ دار لوگوں سے یہی ٹیکس جمع کر کے اپنے نام سے جمع کرائے گا اور کہا جائے گا کہ اس ملک کا عام شہری ٹیکس نہیں دیتا ہے۔ جو ٹیکس جمع ہو گا۔ وہ پھر سبسڈی، سپورٹنگ پرائس۔ ریبیٹ کے نام پر سرمایہ داروں کو لوٹا دیا جاتا ہے۔ یو این ڈی پی کی رپورٹ کے مطابق یہ رقم پونے دو ارب ڈالر سالانہ بنتی ہے۔ مہنگائی کر کے لوگوں اور ریاستی وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جاتا ہے۔اور سبسڈی کے نام پر ان سرمایہ داروں کو دوبارہ نوازا جاتا ہے۔ عوام کو بیوقوف بنانے کے لئے اندرونی اور بیرونی خطرات کے منترے تخلیق کیے جاتے ہیں اور سرمایہ دار سیاسی پارٹیاں آپس میں اقتدار کی جنگ کے لئے جعلی دشمنی کے حالات پیدا کر کے لوگوں کو ورغلاتی ہیں۔ جب باقی ہتھیار کام نہ کریں تو پھر سب سے موثر مذہب کا ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔ اور اس کے لئے جتھے بھی ریزرو میں رکھے جاتے ہیں۔ ریاستی عہدیداروں میں جتنی کسی کی نقصان پہنچانے کی قوت زیادہ ہوگی اسی حوالے سے اس کی مراعات زیادہ ہوں گی ۔
اس طرح ایک نیا مراعات یافتہ طبقہ معرض وجود میں آ چکا ہے۔ جو ”بد معاش مافیا کی صورت میں پاکستان پر قبضہ کر چکا ہے۔ جو کروڑوں غریبوں کی ہرے طریقہ سے چمڑی ہی نہیں ادھیڑتا اسے بد ترین قسم کی غلامی میں بھی مبتلا رکھتا ہے۔ ظالموں اور مظلوموں کے دو طبقات بن گئے ہیں اس کے نتیجہ میں نیا دو قومی نظریہ معرض وجود میں آ چکا ہے۔ ملک کو غلامی سے آزاد کرانے کے نعرے تو بہت لگتے ہیں لیکن ملک کے کروڑوں، مزارعین، ہاریوں، جبری غلامی میں کروڑوں بچوں، کروڑوں مزدوروں جن کی محنت کو سرمایہ دار لوٹ رہے ہیں، ان کی آزادی کے لئے کوئی ایک تقریر کوئی ایک نعرہ کبھی نہیں سنا۔
حقیقی آزادی کے سب نعرے لوگوں کو ورغلانے کے ہتھیار ہیں۔ جن کے ذریعہ ملک کے استحصالی جابرانہ نظام کی جڑیں اور پکی کی جاتی ہیں۔ یاد رکھیں ملک کے عوام کی قسمت اس وقت تک تبدیل نہیں ہوگی۔ جب تک ملک کی اندرونی اور بیرونی استحصالی طبقات سے مکمل طور پر آزادی (decolonization ) نہیں ہو جاتی۔ اور اس کے لئے عوامی شعوری تحریک کی ضرورت ہے جو دھوکہ باز جعلی لیڈروں سے پاک ہو اور عام لوگ خود اس کی قیادت کریں۔ ورنہ یونان کے سمندروں میں مظلوموں کی لاشیں ڈوبنے کا عمل جاری رہے گا۔ فلک کرتا ہے پرورش برسوں۔ حادثہ ایک دم نہیں ہوتا۔
واپس کریں