دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
حکومت پاکستان سے معاملات اٹھائیں
اکرم سہیل
اکرم سہیل
آزاد کشمیر میں سستی بجلی کیلئے حالیہ تحریک کے نتیجہ میں آزاد کشمیر حکومت نے تین روپے فی یونٹ بجلی صارفین کو مہیا کرنے کا نوٹیفیکیشن تو جاری کر دیا ہے اور حکومت پاکستان نے پچیس ارب روپے بھی دیئے ہیں لیکن یہ سب عارضی اقدامات ہیں.لہذا مالی معاملات سے جڑے نہائت اہم امور جب تک حکومت پاکستان سے طے نہیں کیۓ جائیں گے آزاد کشمیر میں حکومتی اور عوامی سطح پر بحرانی کیفیت بدستور رہے گی ۔جو آزاد کشمیر میں ایک بڑے مالی بحران کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔ جس کے نٹیجہ میں آزاد کشمیر میں نہ صرف تعمیر و ترقی کے کام رک جائیں گے بلکہ تنخواہوں کی ادائیگی بھی مشکل ہو جاۓ گی ۔لہذا ضروری ہے کہ آزاد کشمیرحکومت ان امور کو حکومت پاکستان سے تحریری طور پر اٹھائے اور ان پر سرکاری سطح پر بات چیت بھی کرے۔

1)آزاد کشمیر میں پیدا ہونے والی سستی بجلی کو پہلے پاکستان میں قائم گرڈ سٹیشنز کی سیر کروانے کیلیۓ بھیجنے اور پھر ڈسکوز کے ذریعے کئی گنا مہنگی کر کے واپس آزاد کشمیر لانے کی مشق ختم کی جائے اور منگلا ڈیم اور دیگر پن بجلی کے منصوبوں سے آزاد کشمیر کو براہ راست بجلی مہیا کی جاۓ۔ تمام اضلاع میں محکمہ برقیات اور واپڈا کے گرڈ سٹیشن پہلے سے موجود ہیں۔ واپڈا سے حسب ضرورت یہ گرڈ سٹیشنن خریدے بھی جا سکتے ہیں۔

2) پاکستان میں نپپرا اور دیگر متعلقہ اداروں کی جانب سے آزاد کشمیر کو بجلی کے انراخ مقرر کرنے کیلۓ جو نوٹیفیکیشنز 2019 ، 2022 اور اس کے متعلق جاری ہوۓ ہیں وہ سب حکومت پاکستان سے منسوخ کراۓ جائیں جن کے مطابق نیپرا کے ذریعہ آزاد کشمیر کی سستی بجلی واپڈا سے خرید کر کے پھر ڈسکوز کے ذریعہ مہنگی کر کے آزاد کشمیر کو واپس بیچی جاتی ہے۔ اور یہ بھی طے کروایا جائے کہ آزاد کشمیر کیلۓ بجلی کا ٹیرف نیپرا مقرر نہیں کرے گا بلکہ واپڈا منگلا ڈیم سے فی یونٹ پیداواری لاگت پر آزاد کشمیر کو براہ راست بجلی مہیا کرے گا۔ یاد رہے کہ کچھ عرصہ قبل تک واپڈا منگلا ڈیم سے ڈسکوز کو تین روپے پچاس پیسے فی یونٹ بجلی مہیا کرتا رہا ہے۔ اسی ریٹ پر آزاد کشمیر جہاں یہ بجلی پیدا ہو رہی ہے اس علاقہ کو بجلی مہیا نہ کرنے کا کوئی جواز نہیں۔

3)منگلا ڈیم کی بجلی کو ڈسکوز کی سیر کروا کر آزاد کشمیر کو واپس مہیا کی جاتی ہے اس پر سیلز ٹیکس بھی آزاد کشمیر سے وصول کرنے کیلۓ بقایاجات نکالے گۓ ہیں اور اخباری اطلاع ہے کہ ایف بی آر نے آزاد کشمیر کو ڈسکوز کے ذریعہ مہیا کی جانے والی بجلی پر 14ارب روپے بطور سیلز ٹیکس وصول کر لی ہے جس کا بوجھ آزاد کشمیر کے مالیاتی نظام پر ڈالا جائے گا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بجلی آزاد کشمیر سے پاکستان بیچی جا رہی ہے تو گذشتہ پچاس سال سے آزاد کشمیر سے جو بجلی برآمد کی گئ اس کل آمدنی پر سیلز ٹیکس واپڈا ، آزاد کشمیر کو ادا کرے نہ کہ یہ سیلز ٹیکس آزاد کشمیر سے وصول کیا جاۓ۔

4) آزاد کشمیر کو منگلا ڈیم سے بجلی مہیا کرنے کیلۓ پیداواری لاگت 3روپے فی یونٹ کا نوٹیفیکیشن حکومت پاکستان سے جاری کروایا جاۓ ۔اور آزاد کشمیر حکومت خود اس ریٹ میں مناسب انتظامی اخراجات شامل کر کے آزاد کشمیر کے صارفین کیلۓ خود ریٹ مقرر کرے۔۔اور بلات مرتب کرنے کیلۓ لاہور کی جس کمپنی کو ٹھیکہ دیا گیا ہے وہ ٹھیکہ فوری منسوخ کر کے آزاد کشمیر میں حسب سابق بجلی کے بل پرنٹ کئے جائیں۔

5)حکومت پاکستان کی جانب سے متذکرہ بالا نوٹیفیکیشنز جن میں یہ بھی درج ہے کہ اگر آزاد کشمیر حکومت نپپرا کے مقرر کردہ ریٹ پر ادائیگی نہیں کرے گی تواولا" اسے واٹر یوز چارجز ادا نہیں کۓ جائیں گے اور دوئم آزاد کشمیر کا این ایف سی ایوارڈ کے فیڈرل مالی حصص سے اتنا حصہ کاٹ کر ڈسکوز کو ادائیگی کی جاۓ گی۔ ان فیڈرل نوٹیفیکیشنز کو تاریخ اجراء سے منسوخ کرایا جاۓ۔ فیڈرل حکومت نے حال ہی میں جو گرانٹ دی ہے یہ مستقل حل نہیں ہے۔

6)پن بجلی کے منصوبے اپنی جملہ تعمیراتی لاگت پانچ سے دس سال کے اندر پوری کر لیتے ہیں لہذا آزاد کشمیر میں لگنے والے پن بجلی کے منصوبوں (نیلم جہلم اور ددنیال پراجیکٹ ) کے معاہدوں میں یہ درج کیا جائے کہ یہ منصوبے دس سال کے بعد آزاد کشمیر کو واپس کر دئے جائیں گے اور منگلا ڈیم کی واپسی پر بھی بات کی جائے۔یہ پابندی اقوام متحدہ کے بنیادی انسانی حقوق کے چارٹر کے آرٹیکلز کی روشنی میں ہے جس کے مطابق کسی خطے کے قدرتی وسائل پر وہاں کے لوگوں کا حق ملکیت اور حق استفادہ ان کے بنیادی انسانی حق کے طور پر تسلیم شدہ ہے۔ اور آئین پاکستان کے آرٹیکل 38 کی روشنی میں بھی کسی قسم کا انفرادی یا اجتماعی استحصال ممنوع ہے اور یہ آئینی خلاف ورزی غداری اور بغاوت کے زمرے میں آتی ہے۔

7) آزاد کشمیر حکومت کے زیر انتظام لگنے والی پن بجلی کے منصوبوں سے پیدا ہونے والی بجلی کو نیشنل گرڈ میں بھیجنے کی بجائے براہ راست آزاد کشمیر کے ملحقہ علاقوں میں پیداواری لاگت پر مہیا کی جائے ۔

8) قیام پاکستان سے قبل جموں و کشمیر کی مہاراجہ حکومت کے ساتھ پنجاب حکومت کا معاہدہ تھا جس کے مطابق دریائے جہلم سے نکلنے والی نہر اپر جہلم کا آبیانہ مہاراجہ کی حکومت کو ادا کیا جاتا تھا ۔آج کے حساب سے اس پانی کے اقتصادی مفاد(economic benefits ) کا حساب کر کے نئے ریٹ کے مطابق آبیانہ بحال کرایا جائے۔

9) آزاد کشمیر میں چینی، کورین اور دیگر پرائیویٹ سیکٹر میں جو کمپنیاں بجلی پیدا کر رہی ہیں ان سے واٹر یوز چارجز باقاعدگی سے آزاد کشمیر حکومت وصول کرے اور معاہدوں کے مطابق 25 سال کے بعد ان پراجیکٹس کی آزاد کشمیر حکومت کو واپسی یقینی بنائی جاۓ ان معائدوں پر آزاد کشمیر حکومت کے دستخط نہ کروانا آزاد کشمیر سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں ایک قانونی سقم موجود ہے۔ جس پر بھی آزاد کشمیر حکومت توجہ دے۔

10.محکمہ مالیات گذشتہ کئی سالوں سے سالانہ بجٹ تیار کرتے وقت محکمہ برقیات سے آمدنی کیلئے ارب ہاء روپے کا جو ہدف مقرر کرتا ہے وہ ہدف کبھی پورا نہیں ہوتا لیکن اتنی رقم ہر سال فیڈرل گرانٹ سے کم کر دیا جاتا ہے۔ اس نقصان کا اگر حساب کیا جائے تو یہ کئی ارب روپے کا نقصان بنتا ہے۔ محکمہ مالیات یہ پریکٹس فوری بند کرے۔.

11)) اور آخر میں اس امر کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے کہ آٹے پر سبسڈی جو پہلے دس ارب روپے سالانہ تھی اب بیس ارب روپے سالانہ ہوگی جو بڑی مالی کرپشن کا دروازہ کھولنے کے مترادف ہے اس کے بجائے ٹارگیٹڈ سبسڈی کا نظام وضع کیا جائے اور ہیلتھ کارڈ کے ذریعہ پرائیویٹ ہسپتالوں کے پیٹ بھرنے کی بجاۓ یہ رقم آزاد کشمیر کے سرکاری ہسبتالوں کو آلات اور سٹاف مہیا کرنے پر خرچ کی جائے تا کہ آزاد کشمیر کے لوگ پاکستان کے دور دراز علاقوں میں جا کر خجل نہ ہوں اور آزاد کشمیر کے عوام اپنے علاقوں میں صحت کی سہولتیں حاصل کر سکیں۔
واپس کریں