افتخار گیلانی
جس برطانوی جمہوری طرز حکومت کو جنوبی ایشیا سمیت دنیا کے اکثر ممالک نے اپنایا ہے، اس میں اکثر یتی آبا دی کے نمائندوں کو حکومت سازی کا حق دیا گیا ہے۔ جن ممالک میں اکثریتی رائے کے برعکس انکلیوسیو جمہوریت کا نظام نافذ ہے، وہاں اقلیتوں کو ان کی آبادی کے حساب سے جمہوری اداروں میں نمائندگی ملتی ہے، مگر پھر بھی اکثریتی آبادی ہی لیڈ کرتی ہے۔ہندوستان میں بھی اکثریتی یعنی فرسٹ پاسٹ دی پوسٹ سسٹم کے تحت انتخابات منعقد کرائے جاتے ہیں اور حکومت سازی کی جاتی ہے۔ مگر کیا کریں۔ پتہ نہیں ہندوستان کی کامیاب جمہوریت کی یہ دیوی جموں و کشمیر کی سرحد کو پار کیوں نہیں کر پاتی ہے؟ گو کہ فی الوقت جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات کی مہم زور و شور سے جاری ہے، مگر جیری مینڈرنگ اور دیگر ان گنت اقدامات کے ذریعے یہ یقینی بنایا گیا ہے کہ ان انتخابات میں علامہ اقبال کے مذکورہ بالا شعر کی تفسیر پر عمل ہو اور بندوں کو گننے کے بجائے تولا جائے۔
پلڑے میں مسلم آبادی کو ہلکا رکھنے کے پورے سامان کیے جائیں، تاکہ ان انتخابات کے ذریعے وجود میں آنے والی اسمبلی خطے کی اکثریتی آبادی کی نمائندگی نہ کرسکے۔اس کی واحد وجہ بس یہی ہے کہ باقی ملک کے برعکس یہاں کی اکثریتی آباد ی مسلمان ہے۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق جموں و کشمیر میں مسلم آبادی 68.3 فیصد اور ہندوؤں کی 28.2 فیصد ہے۔مگر 2022 کے حد بندی کمیشن نے مسلم اکثریتی وادی کشمیر جہاں ریاست کی 56.15 فیصد آبادی رہتی ہے کے حصہ میں اسمبلی کی 47 نشستیں اورہندو اکثریتی جموں کی 43.85 فیصد آبادی کو 43 نشستیں دے دیں۔یہ حد بندی تو خود ہی ووٹروں کی مساوات کے بنیادی جمہوری اصول کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ ہے۔ریاست کے سابق وزیر خزانہ حسیب درابو کا کہنا ہے کہ وادی کشمیر کا ایک ووٹر جموں خطے کے 0.8 ووٹروں کے برابر کر دیا گیا ہے۔ یہ انتخابی عصبیت نہیں ہے تو کیا ہے؟ اس سے بھی مطمئن نہ ہوکر جموں ڈویژن کے ہندو بیلٹ کی سیٹوں کی تعداد 25 سے بڑھا کر 31 کر دی گئی، تاکہ اقلیتی آبادی کی نمائندگی میں مزید اضافہ ہو۔اگر یہ جمہوریت ہے، تو یہ فارمولہ ملک کے دیگر علاقوں میں بھی لاگو کرنا چاہیے، تاکہ جمہوری اداروں میں وہاں کی اقلیتوں کو بھی متناسب نمائندگی مل سکے۔
اس 90 رکنی اسمبلی میں اب 28 فیصد ہندو آبادی کو 34.44 فیصد نشستیں حاصل ہوجائیں گی۔جموں ڈویژن میں گو کہ ہندو اکثریت میں ہیں، مگر مسلمانوں کی آبادی بھی 34.21 فیصد ہے۔غیر منصفانہ حد بندی کے ذریعے اس علاقہ کے مسلم اکثریتی حلقوں کو 12 سے کم کر کے اب 9 کر دیا گیا ہے۔ اسمبلی میں اس خطے کی مسلم نمائندگی 32.43 فیصد سے کم ہو کر 20.93 فیصد ہو جائےگی۔پچھلی اسمبلی میں جموں کی کل 37 سیٹوں میں میں سے 12 مسلم اکثریتی نشستیں تھیں۔جموں میں، نئے ہندو اکثریتی حلقے بنائے گئے، جیسے کہ پاڈر جس کی آبادی صرف پچاس ہزار ہے، اسمبلی حلقہ ہے۔ جبکہ اس سے تین گنا زیادہ مسلم علاقوں، جیسے پونچھ ضلع میں سورنکوٹ، کو اسمبلی میں جگہ نہیں دی گئی ہے۔ جموں کے پونچھ اور راجوری کے مسلم اکثریتی اضلاع کو کشمیر کے اننت ناگ کے لوک سبھا حلقہ میں شامل کیا گیا ہے۔ادھم پور حلقہ کا ایک گاؤں جاکھایان، جہاں دلت آبادی 92.8 فیصد ہے، بی جے پی کے لیے درد سر بنا ہوا تھا، کیونکہ یہاں سے اس کے امیدوار کو ووٹ نہیں ملتے تھے، کو اب سزا کے بطور چینانی کے ساتھ ملایا گیا ہے۔اسی طرح 2014 میں راجوری سے بی جے پی کا امیدوار 2.86فیصد کے فرق سے ہار گیا تھا۔راجوری میں مسلمان 70 فیصد اور ہندو 28 فیصد ہے۔ کمیشن کی جانبداری کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس سیٹ سے سوہنا تحصیل کو الگ کرکے تھانہ منڈی میں شامل کیا گیا۔ سوہنا میں 91 فیصد مسلمان آبادی تھی، جس کی وجہ سے راجوری کی سیٹ بی جے پی کے لیے نکالنا مشکل ہوتا تھا۔ جموں پارلیامانی حلقے کے راجوری اور پونچھ، جو مسلم اکثریتی علاقے ہیں، اکثر بی جے پی کے امیدوار کے لیے ٹیڑھی کھیر ثابت ہوتے تھے۔
مزید یہ کہ انتخابات کے بعد لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا پانچ اراکین کو نامزد کریں گے، جس سے اسمبلی اراکین کی تعداد 90 سے بڑھ کر 95 ہو جائے گی۔ یہ اراکین دو خواتین، دوکشمیری پنڈت اور ایک 1947میں پاکستان سے آئے مہاجرین ہوں گے۔ یعنی یہ بھی ہندو ہی ہوں گے۔ نامزد ممبران ہوتے ہوئے بھی ان کو ووٹنگ کا حق حاصل ہوگا۔ اس طرح ایک مخصوص کمیونٹی کو غیر متناسب طور پر فائدہ پہنچانے اور اکثریتی آبادی کو بے اختیار اور لاچار بنانے کی واضح کوششیں کی گئی ہیں۔ اس کے نتیجے میں 95 رکنی اسمبلی میں اقلیتی فرقہ کو 39 نشستیں مل سکتی ہیں، جبکہ ان کاجائز حق 29 نشستوں کا بنتا ہے۔چونکہ ابھی بھی اکثریتی مسلم فرقہ کے ہی نمائندہ کے وزیر اعلیٰ بننے کے امکانات ہیں اور جس طرح پچھلے لوک سبھا انتخابات میں کشمیر کی تینوں سیٹوں پر بھارتیہ جنتا پارٹی یعنی بی جے پی کے پراکسیوں کو ہزیمت اٹھانی پڑی اور جموں سے بھی ان کو نہایت قلیل ووٹ پڑے، تو ایک عجیب و غریب فیصلہ کرکے لیفٹیننٹ گورنر کو قبل از انتخاب ہی مزید اختیارات دیے گئے۔ تاکہ منتخبہ حکومت برسر اقتدار آتی بھی ہے، تو وہ لاچار اور بے بس ہوگی۔اس حکم نامہ کی رو سے پولیس، بیوروکریسی، اٹارنی جنرل اور پراسیکیوٹر کی خدمات پر لیفٹیننٹ گورنرکا کنٹرول ہوگا۔تقرریوں اور تقرری سے متعلق تمام امور کے لیے لیفٹیننٹ گورنر کی منظوری لینی ہوگی۔ اس کے فیصلوں پر وزراء کی کونسل نظرثانی نہیں کر سکتی ہے۔لیفٹیننٹ گورنر کے نمائندے کو کابینہ کے تمام اجلاسوں میں شرکت کا پابند بنایا گیا ہے۔ یہاں تک کہ وزراء کے شیڈول اور/یا میٹنگوں کے ایجنڈے کو کم از کم دو دن پہلے گورنر کے دفتر میں جمع کرانا ہوگا۔یعنی وزراء اپنی مرضی سے کسی سے مل بھی نہیں سکیں گے۔
اس پوری قواعد کے بعد بھی گراؤنڈ سے جو خبریں آرہی ہیں، اس کے مطابق بی جے پی کی حالت اپنے گڑھ یعنی ہندو بیلٹ میں خاصی پتلی ہے۔گو کہ اگست 2019 کو ریاست کو تحلیل کرنے اور اس کی شناخت کو مٹانے کے اقدامات کو اس خطے میں پذیرائی ملی تھی، مگر اب وہاں احساس ہو رہا ہے کہ یہ ایک گھاٹے کا سودا تھا۔اس علاقے کے کاروباریوں کو اب براہ راست دہلی اور پڑوس کے پنجابی کاروباریوں اور ٹھیکہ داروں کے ساتھ مسابقت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ لاک ڈاؤن اور دیگر اقدامات کی وجہ سے جہاں وادی کشمیر میں عوام کی آمدن اور قوت خرید پر اثر پڑا ہے، اس نے جموں میں بحران پیدا کر دیا ہے، کیونکہ کشمیر کو مال سپلائی اس خطے کے کاروباری ہی کرتے تھے۔ذرائع کے مطابق اندرونی سروے بی جے پی کو بارہ سے بیس کے درمیان ہی سیٹیں ملنے کی پیشن گوئی کر رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر کانگریس اس خطے میں جی توڑ محنت کر کے انتخابات لڑتی ہے، تو بی جے پی کا صفایا بھی ہوسکتا ہے۔ بی جے پی کے کئی لیڈران کا ٹکٹ کاٹ دیا گیا ہے اور ان میں اکثر اب بطور آزاد امیدوار میدان میں پارٹی کا ووٹ کاٹ رہے ہیں۔
ہندو بیلٹ میں نقصان کے اندیشہ کے پیش نظر اب بی جے پی کی نگاہیں، جموں کے مسلم بیلٹ یعنی راجوری اور پونچھ پرلگی ہوئی ہیں۔ حال ہی میں پہاڑی بولنے والی آبادی کو شیڈیولڈ ٹرائب درجہ دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے ان کے لیے اعلیٰ تعلیمی اداروں اور نوکریوں میں نشتیں مخصوص ہوجائیں گی۔ اس لیے بی جے پی کو امید ہے کہ پہاڑی آبادی ان کو نوازے گی۔ مگر اس سے گوجر،بکروال برادری جو درج فہرست ٹرائب ہونے کا فائدہ اٹھاتے تھے، ناراض ہو گئے ہیں۔گو کہ بتایا جاتا ہے کہ نئی دہلی میں اعلیٰ ترین سطح سے کشمیر کے انتخابات میں سبھی پارٹیوں اور امیدوارں کو برابری کا میدان فراہم کرنے اور ان کو انتہائی منصفانہ اور آزادانہ بنانے کا واضح حکم دیا گیا ہے، مگر انتخابات سے قبل جو جیری مینڈرنگ کی گئی ہے، اور جس طرح مسلم اکثریتی علاقوں سے لاتعداد آزاد امیدواروں کا سیلاب آیا ہے، اس سے تو یہی پیغام جاتا ہے کہ کوئی نادیدہ ہاتھ مسلم ووٹ کو تقسیم کرنے اور مسلم آباد ی کو بے اختیار کرنے کے درپے ہے۔
جس طرح نیشنل کانفرنس نے اگست 2019 کے بعد بنائے گئے پیپلز الائنس فار گپکار الائنس سے واک آؤٹ کرکے اکیلے انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا، اس نے کشمیر کو گرداب سے نکالنے کے اس کے عزم پر سوالیہ نشان کھڑے کر دیے ہیں۔ یہ وقت تھا کہ کشمیر کی سبھی پارٹیاں چاہے وہ نیشنل کانفرنس ہو یا پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی یا کوئی اور، ایک ساتھ انتخابی میدان میں اترتی۔عوامی رجحان، جو اس وقت ووٹ کو مزاحمت کا ہتھیار بنانے پر تلا ہوا ہے، بتاتا ہے کہ اس صورت میں وہ وادی کشمیر اور جموں کے مسلم علاقوں سے واضح اکثریت لینے میں کامیاب ہو جاتے اور ہندو بیلٹ سے بھی ان کو کچھ سیٹیں مل ہی جاتیں۔مگر نیشنل کانفرنس کے مغرور لیڈروں نے ہمیشہ ہی نازک مرحلوں پر غلط فیصلے کیے ہیں، یہ فیصلہ بھی اسی زمرے میں تاریخ میں گنا جائے گا۔
عوامی اتحاد پارٹی کے لیڈر انجینئر شیخ عبدالرشید، جن کو عارضی ضمانت پر رہا کر دیا گیا ہے نے نیشنل کانفرنس اور سجاد غنی لون کی پیپلز کانفرنس کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ اس کے لیے یہ پارٹیاں خود ہی ذمہ دار ہیں۔ ورنہ شاید ہی انجینئر رشید ان کی صفوں میں دراڑ ڈالنے میں کامیاب ہوتے۔انجینئر رشید کی جماعت عوامی اتحاد پارٹی قیدیوں کی رہائی، مسئلہ کشمیر کا حل، پاکستان کے ساتھ بات چیت اور ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 370 کی بحالی کاوعدہ کرکے عوام کو لبھا رہے ہیں۔ وہ ’ظلم کا بدلہ ووٹ سے‘ اور ’یہ ملک ہمارا ہے اس کا فیصلہ ہم کریں گے‘ وغیرہ کے نعرے بلند کر رہے ہیں۔بی بی سی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق عمر عبداللہ کی نیشنل کانفرنس اور محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی جیسی روایتی جماعتوں کی مہم کے مقابلے میں انجینئر رشید کی مہم نہ صرف زمینی سطح پر بھاری عوامی سپورٹ حاصل کر رہی ہے بلکہ سوشل میڈیا پر بھی اُن ہی کی باتیں وائرل ہیں۔ کیونکہ دونوں کے انتخابی نعروں میں ’ظلم، قید و بند، اظہار رائے پر قدغن، ناانصافی اور مسئلہ کشمیر کے حل‘ کی گونج سنائی دے رہی ہے، جو کشمیری طویل عرصے بعد سن رہے ہیں۔
انتخابات کے پہلے مرحلے سے بس چند روز قبل ہی انجینئر نے حیران کن طور پر جماعت اسلامی کے ساتھ انتخابی اتحاد کر لیا ہے۔ جو گو کہ ممنوعہ تنظیم ہے، مگر اس کے چند اراکین بطور آزاد امیدوار میدان میں ہیں۔ جماعت اسلامی نے آخری بار 1987 میں الیکشن لڑا تھا، اور عسکری جدوجہد شروع ہوتے ہی انتخابات کے بائیکاٹ کرتی آرہی ہے۔عمر عبد اللہ سمیت سبھی روایتی پارٹیوں نے انجینئر رشید کو بی جے پی کی پراکسی قرار دیا ہے، جو ان کے ووٹ کاٹنے کی سعی کر رہا ہے۔ مگر سوال ہے کہ آخر عبداللہ نے 2019 میں کشمیر کے خصوصی پوزیشن کو واپس لانے کے لیے بنائے گئے اتحاد سے کیوں کنارہ کشی کی اور پھر جو ایجنڈہ لےکر انجینئر رشید میدان میں آیا ہے، اس کو اپنانے میں عمر عبداللہ کو کیا حرج ہے؟ ان کی خفگی واجب بھی ہے، کیونکہ موجودہ تناظر میں اگر کشمیر کی درجن سے کم سیٹوں پر بھی انجینئر کوئی کارکردگی دکھاتے ہیں، تو وہ اگلی حکومت سازی میں کنگ میکر کا رول ادا کرسکتے ہیں۔مگر بڑا سوال یہ ہے کہ کیا انتخابات کے بعد کشمیر میں خصوصاً پچھلے پانچ سال سے چھائی سیاسی گھٹن کو کم کیا جاسکتا ہے؟ کیا عام کشمیری کو اس گھٹن سے نجات ملے گی اور چند سانسیں لینے کی آزادی ہوگی؟ یہ وقت ہی بتائے گا۔
واپس کریں