دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
تپن بوس: دہلی میں کشمیر کے لیے دھڑکنے والا دل خاموش ہوگیا
افتخار گیلانی
افتخار گیلانی
نوے کی دہائی کی ابتدا میں زمانہ طالبعلمی میں امتحانات سے فراعت کے بعد دہلی کے اوکھلا علاقے سے متصل سرائے جولینا بستی میں ایک کمرہ کرایہ پر لےکر میں چھٹیاں منانے کشمیر چلا گیا تھا۔ پندرہ بیس دن کے بعد واپسی پر 27 گھنٹہ کے بس سفر کے بعدارادہ تھا کہ کمرے پر جاکر کمر سیدھی کرلوں، مگر دیکھا کہ وہاں دوسرا تالہ لٹکا ہوا ہے۔ہندو علاقہ تھا۔ مکان مالک دوسری منزل پر رہتے تھے۔ ان سے استفسار کیا، تو معلوم ہوا کہ ہفتہ بھر قبل پولیس نے کمرہ کھول کر تلاشی لی ہے۔ ان دنوں میری پوری کائنات ریگزین کا ایک سوٹ کیس تھا، جس میں چند کتابیں اور دو جوڑے کپڑے تھے۔ بتایا گیا کہ پولیس وہ بھی ساتھ لے کر گئی ہے۔ مالک مکان نے بتایا کہ پولیس نے اس کو تاکید کی ہے کہ میرے پہنچتے ہی ان کو اطلاع کردوں۔ اس نے کہا کہ، ‘وہ آتے ہی ہوں گے۔ اس دوران اگرکسی کو فون وغیرہ کرنا ہو تو کروں یا کہیں جانا ہو، تو جلدی چلا جاؤں۔’فرار ہونا تو ناقابل عمل آپشن تھا، مگر فون کس کو کرتا۔ کشمیر میں گھر پر کیا قصبہ میں بھی دور دور تک کسی کے پاس فون نہیں تھا۔ دہلی میں کسی جان پہچان والے کے پاس بھی فون نہیں تھا۔خیر بس ایک موہوم سی امید کے سہارے میں نے معروف دستاویزی فلمساز تپن بوس کے صفدر جنگ ڈیولپمنٹ ایریا یعنی ایس ڈی اے میں واقع دفتر کا فون ملایا۔ ان کے کیمرہ مین سلیم شیخ کو میں نے اپنے اوپر آئی افتاد کی کہانی سنائی۔

تپن بوس کے ساتھ کچھ زیادہ جان پہچان بھی نہیں تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد سول وردی میں پولیس وارد ہوئی۔ ان دنوں لودھی روڑ پر واقع اسپیشل سیل کا قیا م عمل میں نہیں آیا تھا۔ پنجاب میں سکھ عسکریت ابھی زوروں پر تھی۔ اس سے نپٹنے کے لیے قرول باغ کے دیو نگر میں دہلی پولیس کی انسداد دہشت گرد یونٹ کا دفتر تھا۔ مجھے وہیں لے جایا گیا۔پولیس کے روایتی استقبال کے بعد مجھے لاک آپ میں دھکیلا گیا۔ وقتاً فوقتاً کوئی نیا پولیس والا یا حوالدار ڈیوٹی پر آتا، تو مجھے لاک اپ سے نکال کر مرمت کرنے میں اپنا حصہ ڈال دیتا تھا۔لاک اپ سے پولیس اسٹیشن کا صحن دور سے نظر آتا تھا۔ اگلے روز سویرے میں نے صحن میں تپن بوس اور میرے ایک ساتھی مرحوم ایڈوکیٹ سالار محمد خان کو دیکھا۔ وہ ایس ایچ او کے کمرے میں داخل ہو رہے تھے۔ میر ی ان سے ملاقات تو نہیں کروائی گئی۔ مگر پٹنے کا سلسلہ بند ہوگیا اور لاک اپ سے مجھے نکال کر پولیس والوں کے رہائشی کمرہ میں لے جاکر بند کر دیا گیا۔پولیس اسٹیشن میں بڑی گہما گہمی شروع ہوگئی۔ اگلے روز ڈپٹی کمشنر پولیس یا اس سے بھی کوئی سینئر افسر وارد ہو گیا تھا۔ مجھے اس کے پاس لے جایا گیا۔ تپن بوس بھی وہاں موجود تھے اور مجھے باضابطہ ان کے حوالے کردیا گیا۔

پولیس کی اس کاروائی کے بعد مکان مالک نے کمرہ واپس دینے سے منع کردیا۔ اس دوران معلوم ہوا کہ میرے کچھ پیپرز واپس آگئے ہیں یعنی فیل ہوگیا ہوں اور دوبارہ امتحان پندرہ بیس دن کے بعد لیے جانے والے ہیں۔ تپن نے ایس ڈی اے کے دفتر میں ہی ایک بیڈ لگوا دیا اور مجھے عارضی طور پر وہیں ٹھہرنے کے لیے کہا، جب تک امتحانات مکمل نہیں ہوتے ہیں۔گزشتہ 30 جنوری کو جب دہلی سے تپن بوس کے انتقال کی خبر آئی، تو یہ سارے واقعات ایک فلم کی طرح میرے سامنے آرہے تھے۔ وہ 78برس کے تھے۔دفتر کے ساتھ ہی تپن کی رہائش تھی۔ ان کی فلم کمپنی میں سوہاسنی مولے بھی پارٹنر تھی، جس نے بعد میں بالی ووڈ میں خاصا نام کمایا۔ہر شام ان کے دفتر کے کمرے میں، جس کے کونے میں، میری رہائش تھی، نصیرالدین شاہ، ابراہیم القاضی، اوم پوری، بیورو کریٹ اشوک جیٹلی (جو بعد میں جموں کشمیر کے چیف سکریٹری بھی رہے) اور متعدد ایسی ہستیوں کی محفل جمتی دیکھی۔ان کا یہ کمرہ ان دنوں دہلی میں زیر تعلیم کشمیری طلبہ کا بھی ایک طرح سے مسکن ہوتا تھا۔ کسی کا کوئی بھی مسئلہ ہوتا تھا تو تپن بوس اور ان کے اس وقت کے دست راست گوتم نولکھا کے پاس حاضر ہو جاتے تھے۔تپن کے ساتھ جان پہچان بھی دلچسپ حالات میں ہوئی۔ کشمیر کی تاریخ کے ساتھ دلچسپی رکھنے والوں کے علم میں ہوگا کہ 1990 کا جنوری کشمیر کے لیے ایک قیامت تھا۔ 19جنوری 1990کی رات جب جگموہن ملہوترہ نے گورنر ی کا چارج سنبھالا، سرینگر کے وسط میں گاؤکدل علاقہ پر ایک قیامت ٹوٹ پڑی۔

جنوری کے ماہ میں ہی وادی کے طول و عرض میں ایک اندازہ کے مطابق 300 کے قریب افراد ہلاک کر دیے گئے تھے۔ اسی سال مئی میں میر واعظ مولوی محمد فاروق کے جنازہ کے جلوس پر فائرنگ سے 60 افراد ہلاک ہوگئے۔دہلی میں گو کہ ان دنوں کشمیری طلبا کی تعداد نہایت کم تھی، مگر سبھی ایک غیر یقینی صورتحال سے دوچار تھے۔ کشمیر سے قتل عام کی خبریں متواتر موصول ہو رہی تھیں۔ ٹیلی فون اور ڈاک کا نظام درہم برہم تھا۔پولیس کی نگرانی سے نظر بچاتے ہوئے چند طلبا روز کسی نہ کسی سفارتی مشن یا میڈیا کے اداروں کا دروازہ کھٹکٹا کر کشمیر میں ہو رہے قتل عام پر ان کی توجہ مبذول کروانے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔

ہندوستان میں سوشلسٹوں کا ایک طبقہ ہمیشہ سے ہی کشمیر کے لیے ایک نرم گوشہ رکھتا تھا۔ جس میں مردولا سارابائی، رام منوہر لوہیا اور جئے پرکاش نارائن کے نام قابل ذکر ہیں۔ اس قبیل میں آخری نام جارج فرنانڈیز کا تھا۔گاؤ کدل کے قتل عام کی خبریں جب دہلی پہنچیں، تو تشویش کی ایک لہر دوڑ گئی۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی اور جامعہ ہمدرد میں زیر تعلیم چند دیگر طلباکے ہمراہ بے بسی کے عالم میں احتجاج درج کروانے کی خاطر ہم جارج فرنانڈیز کی رہائش گاہ تین کرشنامینن روڑ کے باہر بیٹھ گئے۔اسی دوران جب پولیس والوں نے وارننگ دینی شروع کی، تو فرنانڈیز نے باہر آکر ہمیں تسلی دی۔ گو کہ اسی وقت محسوس ہوا کہ ان کی تسلی میں زیادہ دم نہیں تھا، مگر انہوں نے ہمیں حقوق انسانی کے سرگرم کارکنان روی نئیر، تپن بوس، سمنتا بنرجی، دنیش موہن اور گوتم نولکھا سے متعارف کروایا۔ روی نئیر جنوبی ایشیا میں انسانی حقوق کی ڈاکومینٹیشن کے حوالے سے ایک معتبر نام ہے۔

فلم میکر تپن بوس، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی (آئی آئی ٹی) میں استاد دنیش موہن، سمنتا بنرجی اور گوتم نولکھا پر مشتمل وفد نے فروری 1990میں کشمیر کا دورہ کیا۔ انہوں نے کمیٹی فار انیشیٹو آن کشمیر گروپ کو ترتیب دیا۔ یہ کسی انسانی حقوق کے وفد کا کشمیر کا پہلا دورہ تھا۔واپسی پر مارچ میں انہوں نے‘کشمیر میں بھارت کی جنگ’ کے عنوان سے ایک مفصل رپورٹ جاری کرکے ایک تہلکہ مچا دیا۔ عالمی اداروں میں ابھی بھی اس رپورٹ کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔دہلی میں یہ بات زبان زد و عام تھی کہ جارج فرنانڈیز کی ایما پر یہ کمیٹی بنائی گئی اور رپورٹ ترتیب دی گئی تھی۔بعد میں مرحوم ایڈوکیٹ سالار محمد خان نے تپن بوس کے دفتر سے ہی ’کشمیر ڈوزیر’نام سے ایک جرنل شائع کرنا شروع کیا جس کے لیے موادجمع کرنے اور پروڈکشن وغیرہ کے لیے میں ان کی مدد کرتا تھا۔ یہ جرنل ان حالا ت میں کشمیر کے روز مرہ کے واقعات دہلی کے مختلف حلقوں تک پہنچانے میں خاصا مدد گار ثابت ہوا۔اس کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق جگموہن کے آفس سنبھالنے کے پہلے دن ہی سری نگر کے حبہ کدل علاقے میں رات کے بارہ بجے سے لے کر اگلی صبح تک سکیورٹی فورسز نے چھاپے مارے اور تلاشیاں لیں۔تقریباً چار سو نوجوان، جن میں مسلمان اور ہندو دونوں شامل تھے کو، گھروں سے گھسیٹ کر نکالا کر بے رحمی سے مارا پیٹا گیا۔

ان چھاپوں سے قبل مقامی سول انتظامیہ کو اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔21 جنوری 1990کو غیر قانونی گرفتاریوں اور تلاشیوں کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے بیس ہزار افراد سڑکوں پر تھے۔جب یہ جلوس بسنت باغ، گاؤ کدل علاقے میں پہنچا تو نیم فوجی دستوں نے ان پر گولی چلا دی۔مقامی پولیس کے مطابق کم از کم ساٹھ لاشیں جائے وقوعہ سے برآمد ہوئیں اور پولیس کنٹرول روم پہنچائی گئیں، جبکہ غیر سرکاری ذرائع کے مطابق مرنے والوں کی تعداد دو سو سے تجاوز کر گئی تھی۔ایک چشم دید گواہ فاروق احمد وانی، جو جموں و کشمیر حکومت کے محکمہ صحت عامہ (پبلک ہیلتھ انجینئرنگ) میں اسسٹنٹ ایگزیکٹیو انجینئر تھے، نے اس ٹیم کو بتایا؛ میرا گھر راج باغ میں ہے۔ اس روز مجھے ایک واٹر ٹینکر کے ڈرائیور نے بتایا کہ کرفیو کی وجہ سے ٹینکرز کو شہریوں تک پانی پہنچانے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ میں نے سپرنٹنڈنٹ انجینئر سے رابطہ کیا، جنہوں نے مجھے ہدایت دی کہ میں پولیس سے کرفیو پاسز حاصل کر کے ڈرائیوروں میں تقسیم کر دوں۔میں اپنے کرفیو پاس اور شناختی کارڈ کے ساتھ روانہ ہوا۔ جب میں جہانگیر چوک (ہائی کورٹ کمپلیکس کے قریب) پہنچا تو میں نے ایک سی آر پی ایف اہلکار کو اپنا کرفیو پاس دکھایا اور بتایا کہ میں پولیس کنٹرول روم جا رہا ہوں، مگر اس نے میرا پاس چھین کر پھاڑ دیا۔

میں نے اب طے کیا کہ میں بڈشاہ چوک میں اپنی بہن کے گھر چلا جاؤں۔ راستے میں میں نے ایک جلوس کو گاؤ کدل کی طرف بڑھتے دیکھا۔ میں نے سوچا کہ اگر میں خواتین کے ساتھ جلوس میں شامل ہو جاؤں تو محفوظ رہوں گا۔جیسے ہی ہم گاؤ کدل پل پر پہنچے، گولیاں چلنے کی آواز آئی۔ میں جان بچانے کے لیے دریا میں کودنا چاہتا تھا، مگر زمین پر گر گیا۔ جیسے ہی میں اٹھنے لگا، میں نے چھوٹے بچوں کو گولیوں کا نشانہ بنتے اور دریا میں گرتے دیکھا۔میں زمین پر بے حس و حرکت لیٹ گیا۔ کچھ دیر بعد میں نے سر اٹھایا تو دیکھا کہ ایک نیم فوجی افسر زخمیوں کی لاشوں میں مزید گولیاں داغ رہا تھا۔ایک بچہ، جو پل کے پلیٹ فارم کے نیچے چھپنے کی کوشش کر رہا تھا، اسے بھی قتل کر دیا گیا۔ میں نے دوبارہ سر اٹھایا تو ایک سی آر پی ایف اہلکار نے چلا کر کہا: ’یہ اب بھی زندہ ہے‘! رپورٹ کے مطابق وانی نے فریاد کی کہ وہ ایک سرکاری افسر ہے۔ مگر ایک فوجی افسر نے اس پر گالیوں کی بوچھاڑ کی اور پھر گولی چلا دی؛ میری کمر اور ہاتھ زخمی ہو گئے اور میں گر پڑا۔ اس کے بعد ایک اور افسر میرے قریب آیا اور چلایا کہ یہ ابھی زندہ ہے۔ اس نے اسٹین گن میری چھاتی پر رکھ دی۔ مگر پہلے والے افسر نے کہا کہ یہ زخمی ہے اور بچ نہیں سکتا ہے، اس لیے گولیاں ضائع نہ کرو۔ جاتے ہوئے اس نے میری پیٹھ پر ٹھوکر ماری۔

کچھ دیر بعد ایک ٹرک لایا گیا اور وانی سمیت لاشوں کو اس میں ڈال دیا گیا۔ ٹرک میں تقریباً 30-35 لاشیں موجود تھیں۔ جب مزید جگہ نہیں بچی تو افسر نے ڈرائیور کو حکم دیا؛ باقیوں کو نالے میں پھینک دو! کچھ دیر بعد ٹرک ایک جگہ رکی، جہاں کشمیری زبان میں گفتگو کی آوازیں آ رہی تھیں۔ ہمارے ساتھ ایک اور زخمی کراہنے لگا۔ہم نے دیکھا کہ ایک کشمیری کانسٹبل ہمیں زندہ پا کر حیرت سے چیخ اٹھا؛ یا اللہ! یہاں کچھ لوگ ابھی زندہ ہیں!’ہم نے التجا کی: ‘براہ کرم ہمیں بچا لو!’ پولیس کنٹرول روم میں موجود ڈاکٹر نے تین مزید زخمیوں کو دریافت کیا اور ہمیں ایمبولینس میں اسپتال لے گئے۔ بعد میں ہمیں معلوم ہوا کہ وہ ہیڈ کانسٹبل، جس نے ہمیں زندہ پایا تھا، دل کا دورہ پڑنے کے باعث انتقال کر گیا۔فاروق احمد وانی کے جسم میں چھ گولیاں لگی تھیں۔قدرت کو منظور تھا کہ اندرونی حساس اعضا کو چھوئے بغیر وہ جسم کے دوسری طرف نکل گئی تھیں۔ اس طرح کے کئی چشم دید واقعات اس رپورٹ میں درج تھے۔ بالی ووڈ کی فلم حیدر کا ایک سین اسی رپورٹ سے لیا گیا ہے۔

اگلے روز 22 جنوری کواس قتل عام کے خلاف وادی کے تمام حصوں سے بڑی تعداد میں لوگ باہر نکلے اور سری نگر میں جمع ہو گئے یہ جلوس جب شہر کے حو ل علاقے میں واقع عالمگیری بازار پہنچا تو سی آر پی ایف جوانوں نے آگے اور پیچھے سے اس کو گھیرکرفائرنگ کی اور غیر سرکاری ذرائع کے مطابق تقریباً 100 افراد مارے گئے۔ ہلاک شدگان میں 32 سالہ اجلال حسن بھی شامل تھا، جو ایک مشہور کشمیری محقق تھا اور گاندھی کے عدم تشدد کے موضوع کے علاوہ چار کتابوں کا مصنف تھا۔معلوم ہوا کہ سی آر پی ایف نے مقامی پولیس اہلکاروں پر بھی فائرنگ کی تھی، جس کے نتیجے میں جموں و کشمیر آرمڈ پولیس کے اہلکاروں نے پولیس لائن میں احتجاجی نعرے بلند کیے اور ان میں سے کئی نے اپنی پوسٹیں چھوڑ دیں۔

اسی طرح رپورٹ کے مطابق یکم مارچ 1990 کو آدھے ملین سے زیادہ افراد سری نگر کی سڑکوں پر تھے۔ اس دن تین مختلف مقامات—زکورہ، ٹینگ پورہ-بمنہ بائی پاس، اور شالیمار— پرنیم فوجی دستوں نے لوگوں پر گولی چلائی، جس سے بڑی تعداد میں لوگ جاں بحق اور زخمی ہوئے۔بچ جانے والوں میں سے ایک، 30 سالہ محمد اسلم نے اس ٹیم کو آنکھوں دیکھا حال سناتے ہوئے کہا کہ فوجی گاڑیوں نے ان کی بس روکی، مسافروں کی تمام منت سماجت نظر انداز کو نظر انداز کرتے ہوئے اندھا دھند فائرنگ کر دی۔دعویٰ کیا گیا کہ مظاہرین نے فوجی اہلکاروں کے بچوں کو لے جانے والی ایک گاڑی پر پتھراؤ کیا تھا۔ تاہم، مقامی لوگوں نے اس رپورٹ کو سراسر جھوٹ قرار دیا، کیونکہ اس وقت وادی میں تمام اسکول سرمائی تعطیلات کے باعث بند تھے۔مزید برآں، فائرنگ کے مقام کے قریب کوئی فوجی اسکول موجود نہیں تھا۔ زخمیوں میں شامل 22 سالہ بشیر احمد نے اس ٹیم کو بتایا کہ فوجی گاڑیاں زبردستی جلوس میں گھس آئیں اور سب مشین گنوں سے فائرنگ کی۔ اس کے دائیں بازو کی کہنی بری طرح چکناچور ہو گئی۔فوجی اہلکاروں میں سے ایک نے جلوس کے آگے چلنے والے ایک بزرگ شخص کے ہاتھ سے جھنڈا چھین لیا۔ اس کے فوراً بعد، فوجی اہلکاروں نے اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی، جس سے کئی افراد موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے۔ پھر مزید فوجی جوانوں نے بھی فائرنگ شروع کر دی۔

یہ تپن بوس اور ان کی ٹیم کی تیار کردہ رپورٹ کے بس چند اقتباسات تھے۔اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اکثریت میں ہونے کے باوجود کشمیری مسلمانوں کو سرکاری نوکریوں سے مسلسل دور رکھنے کی کوشش کی گئی تھی۔ان کے مطابق 1990میں کل 12,323 گیزیٹیڈ ملازمتوں میں ہندو 51.18 فیصد ہیں، جبکہ آبادی میں ان کی شرح 28 سے 29 فیصد ہے۔ریاست میں مرکزی سیکٹر کی کل 1,928 افسرانہ ملازمتوں میں ہندو 83.66 فیصد اور مسلمان 6.89 فیصد تھے۔ حتیٰ کہ کلرک کی آسامیوں پر بھی 79.27 فیصد ہندو اور کلاس فورتھ میں بھی ہندو کی تعداد 72.87 تھی۔ یعنی مسلمانوں کے لیے ملازمتوں کے دروازے مرکزی سیکٹر میں کم و بیش بند تھے۔تپن بوس پاکستان-انڈیا پیپلز فورم فار پیس اینڈ ڈیموکریسی (پی آئی پی ایف پی ڈی) کے بانیوں میں بھی تھے۔پاکستان اور ہندوستان کے درمیان عوامی روابط کے حوالے سے یہ ایک سنجیدہ اور زمین سے جڑا ہوا فورم تھا۔ بعد میں بطور فیشن سافما اور امن کی آشا نے اس کی بھونڈی نقل کرنے کی کوشش کی، مگر چونکہ یہ اشرافیہ کی فورمز تھیں، ان کا ناکام ہونا تو طے تھا۔عوامی رابطوں کو مستحکم کرنے کے بجائے یہ ایک طرح کی ٹریول ایجنسیاں تھیں، جو چند اشرافیہ کے لیے ہندوستان اور پاکستان کے ٹور کے انتظامات اور ان کو فائیو اسٹار ہوٹلوں میں ٹھہرانے کے انتظامات کرتی تھیں۔

مجھے یاد ہے کہ پی آئی پی ایف پی ڈی کا ایک بڑا کنونشن 1996 دسمبر 28۔31 کو کولکاتہ میں منعقد ہوا تھا، جس میں چار سو سے بھی زائد مندوبین پاکستان سے شریک تھے۔ آئی اے رحمان، نرمل مکرجی، ایڈمیرل رام داس، مبشر حسین کی موجودگی اس فورم کی سنجیدگی کو ظاہر کرتی تھی۔تپن کی موت پر کشمیر ٹائمز کی مدیر انورادھا بھسین کا کہنا تھا؛ ہم نے جنگ کے خلاف ایک اور جنگجو کو کھو دیا ہے۔ وہ ایک تحریک کا سرچشمہ اور حکمت کا سمندر تھے، ان کا آہنی عزم، ان کی توانائی اور ایک آزاد خیال عالمی نظام کے لیے ان کا واضح نظریہ، وہ خصوصیات تھیں جنہوں نے انہیں بہت سے لبرلز، کارکنوں، ماہرین تعلیم اور صحافیوں کے لیے ایک روشن ستارہ بنا دیا تھا۔بطور فلمساز بہار کے بھاگلپور میں پولیس کی طرف سے نابینا کرنے کے واقعات اور بھوپال گیس سانحے پر ان کی فلمیں، دنیا بھر میں لوہا منوا چکی تھیں۔ ان کو کئی عالمی ایواڑز سے نوازا جا چکا تھا۔انہوں نے بے خوفی سے بھاگلپور میں پولیس کے ہاتھوں زیر حراست افراد کو بینائی سے محروم کیے جانے کے مظالم کو دستاویزی شکل دی اور بھوپال گیس سانحے کے پیچھے کارپوریٹ اور حکومتی غفلت کو بے نقاب کیا۔وہ پیپلز ٹریبونل آن ایودھیا کا بھی حصہ تھے، جس نے بابری مسجد کی مسماری کے پیچھے فرقہ وارانہ سیاست کا باریک بینی سے جائزہ لیا۔ ان کا انصاف کے لیے عزم 2002 کے گجرات قتل عام کے بعد بھی برقرار رہا، جہاں انہوں نے متاثرین کے ساتھ مل کر جوابدہی اور بحالی کے لیے کام کیا۔

ان کی وسیع معلومات، واضح نظریہ اور زبردست خطابت بے حد متاثر کن تھی۔ وہ ہمیشہ کہتے؛ آپ صحیح وقت کے انتظار میں تبدیلی کے لیے کام شروع کرنے میں دیر نہیں کر سکتے۔ آپ کو اسے ممکن بنانے کے لیے کام کرنا ہوگا۔ تبھی حالات بدلیں گے۔ ان کے خیالات سننا ہمیشہ ایک خوشگوار تجربہ ہوتا تھا، اکثر ان کی گفتگو میں مزاح اور ظرافت شامل ہوتی۔اپنے مرتبے کے باوجود، وہ نہایت صبر و تحمل سے سننے والے تھے۔ وہ ایک نوجوان کارکن یا طالبعلم کو بھی اسی سنجیدگی سے لیتے جیسے کسی سینئر ساتھی کو۔مجھے یاد ہے کہ 2016 میں کشمیر ٹائمز کے بانی وید بھیسن کی پہلی برسی کے موقع پر لیکچر دینے وہ جموں آئے تھے۔ جموں میں ہندو انتہاپسند نظریات اپنے عروج پر تھے۔ مگر تپن نے کوئی مصلحت نہیں برتی۔ انہوں نے ہندو اکثریتی سیاست کے خلاف کھل کر بات کی، عوامی سطح پر امن کے قیام کی وکالت کی، اور ہندوستان-پاکستان امن میں کشمیر کی مرکزیت پر زور دیا۔انہوں نے ریاستی سطح کے امن اور عوامی سطح کے امن میں اہم فرق کو واضح کیا۔ان کا کہنا تھا حکومت کوئی بھی ہو، ان کی طرف سے تھوپا گیا امن سطحی، کمزور اور غیر مستحکم ہوتا ہے، حقیقی اور دیرپا امن عوامی سطح پر ہی قائم کرنا ہوگا۔

دہلی میں دوستوں کا کہنا تھا کہ تپن کی صحت مسلسل گرتی جار ہی ہے اور وہ کئی بار اسپتال میں داخل رہے، مگر ان کا وژن اب بھی اتنا ہی واضح اور ان کے دلائل اتنے ہی مضبوط ہیں۔ان کی اہلیہ اور معروف صحافی ریتا منچندا ان کی بیٹی مشتی، ان کے پوتوں رودرا اور سومنش کو دلاسا دینے اور تعزیت کے لیے مجھے الفاظ ہی نہیں مل رہے ہیں۔تپن ہماری یادوں میں زندہ رہیں گے، ہمارے ذہنوں میں ان کے الفاظ موجود رہیں گے۔ ان کا وژن ہمیشہ ہمارے درمیان رہےگا۔ حالانکہ وہ حالیہ برسوں میں کئی بیماریوں سے نبرد آزما تھے۔ کئی برسوں سےان کے ساتھ تعلق نہیں رہا تھا۔ ان کی عدم موجودگی نے جنوبی ایشیا میں امن، انسانی حقوق اور انصاف کی جدوجہد میں ایک بڑا خلا پیدا کیا ہے، جس کو پُر کرنا ناممکن ہے۔الوداع! تپن بوس، دہلی میں کشمیر اور کشمیریوں کے لیے دھڑکتا دل ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا ہے۔


واپس کریں