دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
حامد میر کا "بروقت" انٹرویو
ظفر محمود وانی� ۔ فلسفہ کالعدم
ظفر محمود وانی ۔ فلسفہ کالعدم
ممتاز صحافی اور اینکر حامد میر نے نسیم زہرہ کے ساتھ ایک گفتگو نما انٹرویو میں باجوہ صاحب کے بارے میں کچھ انکشافات فرماے ہیں ، گو کہ محترم باجوہ صاحب آج کل ہندوستانی فلمی ڈائلاگ کے مصداق " مندر کے گھنٹے " کی طرح بنا دئیے گئے ہیں، کہ ہر آنے جانے والا بجا جاتا ہے ۔ اسی سلسلے میں عمران خان نیازی صاحب نے اپنے تازہ ترین انٹرویو میں اپنی طرف سے پنجاب اور صوبہ خیبر پختون خواہ کی اسمبلیوں کو توڑنے کے اقدام کو بھی باجوہ صاحب کا ہی مشورہ قرار دیا ہے ۔ جو انہوں نے صدر عارف علوی کی رہائش گاہ پر محترم عمران خان نیازی سے شبینہ ملاقات میں انھیں دیا تھا ۔ جس پر خان صاحب نے شاید ماضی کے قریبی تعلقات کا لحاظ رکھتے ہوے فوری عمل کر ڈالنا مناسب سمجھا ، یاد رہے کہ یہ مشورہ جلسوں میں میر جعفر اور میر صادق کے اور ان کی صفات کے زکر ازکار کے بعد کا ہے ، جس پربقول خان صاحب فوری تعمیل کی گئی ۔

گو کہ محترم حامد میر کے اس انٹرویو میں کئیے گئے انکشافات اب کوئی اتنے راز بھی نہیں رہ گئے ہیں ، بلکہ ان میں سے اکثر معلومات ٹکڑوں میں دیگر زرائع اور زمینی شواہد کے زریعے نہ صرف سامنے آ چکے ہیں۔ بلکہ ان میں سے اکثر کی مختلف زراٸع سے تصدیق بھی ہو چکی ہے ۔سابق وزیر اعظم عمران خان نیازی اور باجوہ صاحب کے دورہ امریکہ کے وقت سے ہی یہ شواہد واضع ہونے لگے کہ پاکستانی عوام سے پوشیدہ بھارت کے ساتھ امریکی ضمانت میں مسئلہ کشمیر کے بارے میں قومی موقف اور مفادات کے مغاٸر کوئی مفاہمت کی جا چکی ہے ۔ بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد پاکستان کی پارلیمنٹ میں اس وقت کے وزیر اعظم محترم عمران خان نیازی نے تقریر کرتے ہوے, اپوزیشن اور پارلیمنٹ سے استفسار کیا تھا کہ " میں اب کیا کروں ، کیا بھارت پر حملہ کر دوں " اور اس پر اپوزیشن لیڈر محترم شہباز شریف نے " اچھے بچوں " کی طرح یہ وضاحت فرمائی کہ ہم یہ تو نہیں کہتے بلکہ ہم حکومت کو اس مسئلے پر "مکمل تعاون" کی پیشکش کرتے ہیں ، اور ہر " مثبت اقدام " میں حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کیا جاے گا ۔

اب محترم حامد میر صاحب سابق آئی ایس آئی چیف جنرل فیض حمید کی بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوگل کے ساتھ کی گئیں کچھ خفیہ ملاقاتوں کا زکر بھی فرما رہے ہیں ۔ ان ملاقاتوں کا سرسری زکر بھی میڈیا میں ہوتا رہا لیکن بوجوہ ان ملاقاتوں کو مناسب طور پر زیر بحث نہیں لایا گیا, بلکہ ایسا تاثر دیا گیا کہ یہ ملاقاتیں پاکستان اور بھارت کے درمیان " ٹریک ٹو " بات چیت کا حصہ ہیں ۔جبکہ دراصل ان ملاقاتوں میں دورہ امریکہ کے دوران مسئلہ کشمیر پر مفاہمت کی تفصیلات طے کی جا رہی تھیں ۔ اس بارے میں ایک اور ممتاز صحافی اعزاز سید بھی ریکارڈ پر ہیں کہ بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کے خصوصی آئینی درجے کو ختم کرنے سے پہلے پاکستان کو باقائدہ طور پر " اعتماد " میں لیا گیا تھا ، اعزاز سید کے اس انکشاف کی کسی بھی طرف سے کوئی تردید بھی نہیں کی گئی۔

محترمہ نسیم زہراء کے ساتھ اس انٹرویو میں میر صاحب یہ انکشاف بھی فرماتے ہیں کہ آرمی آڈیٹوریم میں منعقد اس مبینہ ان کیمرہ بریفنگ میں چھبیس صحافی شامل تھے ، جن میں سے اور کوٸی اب تک اس موضوع پر نہیں بولا ۔ اب محترم میر صاحب اور محترمہ نسیم زہراء کو چُنا گیا ، کہ وہ اس ان کیمرہ بریفنگ کی تفصیلات " عوام " تک پہنچائیں ، ان تفصیلات کے انکشاف سے یہاں کچھ سوالات بھی پیدا ہوتے ہیں ، کہ قوم کے سامنے ان انکشافات کے لئیے یہ وقت ہی کیوں چنا گیا ، جب ایک طرف تو بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کے دارلحکومت سرینگر میں جی 20 کا انعقاد ہو رہا ہے ، جس پر پاکستان کی طرف سے مناسب احتجاج دیکھنے میں نہیں آ رہا ۔ دوسری طرف پاکستان کے عوام کے علاوہ اہم اور قومی اداروں میں بھی خطرناک تقسیم دکھائی دے رہی ہے ، جس کو پروان چڑھانے اور آج کے مقام تک پہنچانے کے لئیے بہت محنت ، منصوبہ بندی اور سرمایہ کاری کی گئی ہے ، بلکہ اس عظیم جدوجہد کو " ففتھ جنریشن وار " کا شایان شان نام تک دیا گیا تھا ۔ اس تمام صورتحال کو, حمایتوں اور مخالفوں کو, اس طرح غیر واضع رکھا جا رہا ہے کہ کسی کی توجہ سطح کے نیچے جاری رَو تک نہ جا سکے اور تماشائیوں کی نظر میدان میں اُڑاٸی گٸی دھول کے پردے کے پیچھے جاری اصل کھیل تک نہ پہنچ سکے ۔

میر صاحب کا پورا صحافتی کیرئیر " قلمکوف " کے زمانے سے ہی مہم جوئی اور قومی خدمت سے عبارت ہے ، اثامہ بن لادن سے اس کے " غار " تک جا کر انٹرویو کرنے کا اعزاز بھی میر صاحب کو ہی حاصل ہے ،اب ظاہر ہے وہ پتہ پوچھتے پوچھتے تو اثامہ تک نہیں پہنچ گئے ہوں گے ، اسی طرح ہر کنفلیکٹ زون میں موصوف بلٹ پروف جیکٹ اور ہیلمٹ پہنے لائیو فائرنگ میں لائیو رپورٹنگ کرتے بھی دکھائی دے جایا کرتے تھے , یعنی جس طرح بازوے شمشیر زن ہوتا ہے, اسی طرح ساتھ ہی بازوے قلم زن بھی ہوا کرتا ہے ۔ جیسا کہ انسانوں کی نفسیات اور طبیعت ہُوا کرتی ہے, اسی طرح اِداروں کی بھی نفسیات ہوا کرتی ہے ، جو کچھ کچھ دور قدیم کے باجبروت اور مطلق العنان بادشاہوں سے ملتی جُلتی ہے۔ لہزا جہاں یہ اپنے آلہ کاروں کو نوازنے کی شہرت رکھتے ہیں, وہیں استعمال کے بعد ان کو ختم کر دینے کی روایت بھی دیکھنے میں آتی ہے ۔ لیکن اس عمل میں بھی تخصیص رکھی جاتی ہے ۔ کہیں تو الیاس کشمیری وغیرہ کی طرح مکمل طور پر معدوم کر دیا جاتا ہے ، وہیں کچھ زرا سینئیر اور زیادہ اہم افراد کو گولیوں کی شکل میں وارننگ دی جاتی ہے , شیر سے کھیلنے والوں کو اسکے پنجوں کی کھرونچیں بھی لگ جایا کرتی ہیں ۔ ایک طرف خود کہہ کر ان کے پروگرام بند کرواے جاتے ہیں۔ اور ساتھ ہی ان کے اداروں کے مالکان کو بدستور ان کی مالی سرپرستی کرتے رہنے کی ہدایت بھی کی جاتی ہے ۔ کہیں ان پر پابندی کے باوجود انھیں " روڈ شو " کرنے اور انھیں سوشل میڈیا پر نشر کرنے کی بالواستہ اجازت دی جاتی ہے ، اور کہیں ان کے زریعے کچھ " حساس معاملات " جیسے گمشدہ افراد کے معاملے پر احتجاج کو " درست سمت اور حدود " میں رکھنے کا کام لیا جاتا ہے ، بالکل ویسے ہی جیسے پاکستان بھر میں کسی بھی خودرو عوامی احتجاج کی " قیادت " اور درست سمت میں راہنمائی کے لئیے جماعت اسلامی کی قیادت "منچ" سنبھالنے میں ہمیشہ موقع پر بروقت پہنچ کر پہل کر گزرتی ہے۔ وہ گوادر والوں کا دھرنا اور احتجاج ہو ، سوات کے عوام کا دہشت گردی کے خلاف عوامی احتجاج ہو ، یا اب سیاسی حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان رابطے کی زمہ داری ، جماعت اسلامی پوری سنجیدگی اور زمہ داری سے ہمیشہ کی طرح سب سے آگے بڑھ کر پورے خشوع و خضوع کے ساتھ تفویض کردہ ” قومی “ زمہ داریاں نبھاتے ہوے دکھائی دیتی ہے ۔

یہ سب امور تو چونکہ ” گرے ایریا “ کے زکر اور کارواٸیوں پر مشتمل ہیں , جن کے مزید تفصیلی زکر کے بجاے ہمارا حفظ ماتقدم کے طور پر باپردہ بیبیوں کی طرح دل ہی دل میں دشنام کرتے ہوے بظاہر ” منہہ موڑ “ کر بیٹھنا ہی ممکنہ مناسب اور محفوظ لاٸحہ عمل ہو سکتا ہے ۔ میر صاحب کے اسی انٹرویو میں ایک ایسی بات بھی باجوہ صاحب سے منسوب کی گٸی, جو اگر واقعی حقیقت میں بھی کہی گٸی تھی, تو اس کااس طرح کھلے عام زکر نہیں کیا جاناچاہٸیے تھا . اس انٹرویو میں حامد میر صاحب محترمہ نسیم زہراء کو گواہ بنا کر فرماتے ہیں کہ قمر جاوید باجوہ صاحب نے اسی مبّینہ بریفنگ میں یہ بھی فرمایا کہ پاکستان کے لٸیے بھارت کے ساتھ کوٸی جنگ لڑنا ناممکن ہوچکا ہے ,اور حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ہمارے ٹینکوں کے لٸیے پیٹرول تک نہیں ہے ,دنیا کی ہر فوج کی کچھ کمزوریاں بھی ہوا کرتی ہیں لیکن وہ کبھی ان کمزوریوں کا اس طرح کھلے عام اعتراف نہیں کیا کرتے ۔

آج کے جدید دور میں کسی حربی مزاحمت یا جارحیت میں موثرحکمت عملی , ہتھیاروں , رسل و رساٸل , زراٸع ابلاغ کے ساتھ اتنی ہی اہمیت خفیہ کاری اور پوشیدگی بلکہ ” بلف “ کی بھی ہوا کرتی ہے , دنیا کا کوٸی کمزور سے کمزور ملک بھی دشمن کے سامنے اپنی کمزوریوں کا اس طرح اعتراف نہیں کیا کرتا جس طرح ہمارے ملک میں کیا جا رہا ہے , یہ تو کمزوری کا زکر ہے اصولاً تو اپنی طاقت تک کی درست تفصیلات تک سامنے نہیں لاٸی جاتیں , لیکن محسوس یہ ہوتاہے کہ اس بارے میں ہم ” مصر “ کے نقش قدم پر چلتے چلتے اس سےبھی آگے نکل چکے ہیں ,جب ” دشمن “ پر پورے اعتماد سے بھروسہ اورمفاہمت کرتے ہوے اپنے ہی ملک کے عوام کے رہے سہے مورال اور خوش فہمیوں کو اس طرح سے نقصان پہنچایا جاے , تاکہ وہ ماضی کے دعووں کے مطابق کوٸی توقعات وابستہ نہ کر بیٹھیں۔ یہاں ایک اور بھیانک امکان اور بھی ہے جس کا زکر اس ماحول اور منظر نامے میں ضروری ہے کہ کہیں ایسی سچی یا جھوٹی خبروں کا انکشاف کہ ہم خدانخواستہ اپنے دفاع تک کے قابل نہیں رہے , ” عوام “ کی طرف سے اس سوال کی حوصلہ افزاٸی تو نہیں کہ وہ پوچھ بیٹھیں کہ ,جب ہم بقول آپ کے ہی دفاع تک کرنے کےقابل نہیں رہے توہمیں اتنی بڑی ” مشین “ رکھنے کی کیا ضرورت ہے ؟

محترم حامدمیر اور محترمہ نسیم زہراء کا اس انٹرویو کے لٸیے انتخاب, اس میں عوام تک پہنچاے گٸے حساس ترین نقاط اور اس کا وقت یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس انٹرویو کی آڑ میں ” کسی “ کا کوٸی پیغام پاکستان کے عوام تک پہنچانے کی کوشش کی گٸی ہے , اور محترم میر صاحب اور محترمہ نے اس انٹرویو میں دراصل صرف پیغام رسانی کی زمہ داری ہی ادا کی ہے , لیکن یہ سوال ابھی بھی تشنہ ہے کہ یہ پیغام کس کی طرف سے عوام تک پہنچایا جا رہا ہے ۔ اس کا اشارہ اس بات سے ملتا ہے کہ اسی انٹرویو جب سابق وزیر اعظم عمران خان نیازی کو جنرل قمر جاوید باجوہ کی طرف سے بھارت کے ساتھ مفاہمت کے سلسلے میں مکمل لاعلم بتایا جا رہا ہے , اور اس ضمن میں باقاٸدہ ایک کہانی تشکیل دینے کی کوشش کی گٸی ہے , کہ سابق وزیر اعظم اور وزارت خارجہ, بھارت کے ساتھ ,بھارت ہی کی شراٸط پر امن قاٸم کرنے کی ان کوششوں اور بھارت کے ساتھ مفاہمت کے بارے میں مکمل طور پر لاعلم تھے , حتیٰ کہ اس مبّینہ مفاہمت کے بعد نریندر مودی کے دورہ پاکستان تک کا زکر بھی میر صاحب کی طرف سے اس طرح کیا گیا گویا اس وقت کے وزیراعظم پاکستان ان تمام کوششوں اور اقدامات سے مکمل طور پر لاعلم اوربےخبر تھے , جو کہ عملی طور پرناممکن ہے ۔ اس طرح بھارت کے ساتھ اسی کی شراٸط پر مفاہمت کے ضمن میں ان مزاکرات کے اہم کردار جنرل (ر) فیض حمید جو اس وقت ڈی جی آٸی ایس آٸی تھے اور وہی بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوگل کے ساتھ بیرون ملک خفیہ ملاقاتوں میں اس ” مفاہمت “ کی تفصیلات طے کرتے رہے , لہزا ہمیں جنرل قمر جاوید باجوہ کے کردار اور خواہش کا زکر تو واضع طور پر دکھاٸی دیتا ہے , لیکن ان کے ساتھ شامل دوسرے اتنے ہی اہم کردار جنرل فیض حمید کا زکر بہت سرسری اور غیر اہم بنا کر پیش کیا جانا بھی واضع طور پر محسوس ہوتا ہے ۔

گویا مختصراً اس انٹرویو میں یہ بتایا گیا ہے کہ بھارت کے ساتھ اس کی شراٸط پر امن عمل اور مسٸلہ کشمیر پر قومی مفاد اور روایتی پالیسی کے خلاف مفاہمت صرف جنرل قمر جاوید باجوہ کر رہے تھے , جنرل فیض حمید پر اس کی کوٸی زمہ داری عاٸد نہیں ہوتی کیونکہ وہ باجوہ صاحب کے ماتحت اور ان ہی کے زیر حکم تھے , عمران نیازی اس تمام عمل سے مکمل بےخبر بلکہ خلاف تھے , جبکہ حقیقت یہ ہے کہ موصوف کے ماضی میں دٸیے گٸے کٸی بیانات اس بات کی تردید کرتے ہیں , کہ وہ اس تمام عمل سے بےخبر تھے ۔اس خلاصے سے اس انٹرویو کو نشر کروانے والوں کی بھی کچھ نشاندھی ہوتی ہے , کیونکہ جس طرح موجودہ وقت میں محترم عمران خان نیازی کی حمایت اور مخالفت کرنے والوں کی تقسیم عوام سے نکل کر اب ہمارے اہم اور مقتدر اداروں تک پہنچ چکی دکھاٸی دیتی ہے۔ اور اس سلسلے میں ہمارے محترم مقتدر ادارے کے سابق ریٹاٸرڈ افسران اور ملازمین پر مشتمل ” ویٹرن “ کے نام سے بنی معروف تنظیم پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک سیاسی پارٹی بلکہ ایک سیاسی شخصیت کی حمایت میں پریس کانفرنسز , روڈ شوز , اور منعقدہ احتجاجوں میں کھلے عام حصہ لیتے , بلکہ زمان پارک کے گیٹ پر پریس کانفرنس کرتے بھی دکھاٸی دے رہے ہیں , جبکہ اس ریٹاٸرڈ ملازمین کی تنظیم کے قیام کا مقصد سیاست میں حصہ لینا نہیں تھا , لیکن اب پاکستان کے اقتدار پر قبضے کی کشمکش اور جدوجہد اس مقام پر پہنچ گٸی ہے کہ اس ازکار رفتہ ”اثاثے“ کو بھی مصنوعی دانت لگا کر, اس عمر میں باہر نکلنے اور احتجاج کرنے پر مامور کر دیا گیا ہے ۔ اس اثر انگیزی سے یہ شاٸبہ ہوتا ہے کہ محترم حامد میر اور محترمہ نسیم زہراء کی خدمات بھی عوام کے بھارت کے بارے میں جزبات کے پیش نظر عمران خان نیازی کو بھارت کے ساتھ اس کی شراٸط پر مفاہمت کے ضمن میں بےخبر اور بےگناہ دکھانے کے لٸیے , اسی ویٹرنز “ کے درپردہ سرپرست گروپ نے حاصل کی ہیں , جو اپنے اظہار کے لٸیے دوسری آوازوں کو استعمال کرنے پر مجبور ہے ۔

بعض دفعہ ,جس طرح کسی بیاباں میں پھیلے سکوت کی شدت , شور سے بھی زیادہ محسوس ہوا کرتی ہے , اسی طرح ”دوسری” طرف کا سکوت اب نہ جانے کیوں ” سکتہ ” سا محسوس ہونے لگا ہے , ایسا لگتا ہے کہ میڈیا سے لے کر عدلیہ تک , ایک ہی فریق کھل کر کھیل رہا ہے , تاریخیں دے رہا ہے , ڈیڈ لاٸنز مقرر کر رہا ہے , اور دوسری طرف سے صرف خاموشی , اس ضمن میں اتنا کہنا ضروری ہے کہ بروقت الفاظ اور اعلان اتنے اہم ہوتے ہیں , کہ بعد ازوقت مشین گن بھی ان کا متبادل اور ان الفاظ جتنی موثر اور کارآمد ثابت نہیں ہو سکتی , جتنے اپنے درست وقت اور مقام پر ادا کٸیے چند الفاظ ۔ سوڈان کی صورتحال ہمارے سامنے ہے ۔

واپس کریں