دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ہن قبائل کی یلغار
ظفر محمود وانی� ۔ فلسفہ کالعدم
ظفر محمود وانی ۔ فلسفہ کالعدم
پانچویں اور چھٹی صدی عیسویں کے اوائل میں آج کے روسی اور چینی ترکستان سے ایک قبیلہ سیلاب کی لہروں کی طرح اٹھا ، جو تاریخ میں سفید ہن کہلائے ، ان قبائل کے دو حصے ہو گئے ایک حصہ اپنے سردار مشہور زمانہ فاتح " اٹیلا " کی قیادت میں کوہ ایلپس عبور کر کے یورپ کی طرف نکل گیا، اور دوسرا حصہ اپنے سردار " تورومان کی قیادت میں جنوب مغربی ایشیا کی طرف بڑھا ۔ یہ قبائل ترکی کے آرارات پہاڑ کے قریبی علاقوں سے گزرتا ہوا ایران کے مرکزی علاقوں سے بچتا ہوا افغانستان اور پھر ہندو کش کو عبور کرتا ہوا دریاے سندھ عبور کر کے پنجاب پہنچ کر شدید قتل و غارت اور تباہی برپا کرتے ہوے قابض ہو گئے۔

مشہور تاریخ دان سر اولف کیرو اپنی مشہور زمانہ تصنیف " پٹھان " میں لکھتے ہیں " خان " کا لقب ہن ان علاقوں میں اپنے ساتھ لے کر آے ، گوجر یا ان دنوں گرجوار کہلانے والے قبائل ترکستان کے علاقوں میں ہنوں کی رعیت کی حیثیت سے رہا کرتے ، یہ قبائل بھی ہنوں کے پیچھے پیچھے ان کے فتح کردہ علاقوں میں آن پہنچے اور آباد ہوتے چلے گئے ۔ سر اولف کیرو لکھتے ہیں ، کہ آج کے صوبہ خیبر پختون خواہ کے زیریں علاقوں میں دیکھا جاے تو ان علاقوں کے دیہات میں گو گوجر قبائل کی تعداد زیادہ ہو گی، اور وہ اکثریت میں ہوں گے، لیکن ان کا سردار یعنی گائوں کا سربراہ " خان " ہو گا ، جو خالصتا ایک ہن تخلص ہے ۔ سفید ہن ایک تباہ کن لہر کی طرح پورے پنجاب پر قابض ہو گئے اور ان کے سردار " تورومان " نے سیالکوٹ کو ، جو ان دنوں "سکالا" کہلاتا تھا ، دارلحکومت بنایا ، اور یہاں سورج دیوتا کا مندر بھی تعمیر کیا ۔

ہنوں کی اس بنیادی لہر کے ہراول میں آنے والے کچھ ہن قبائل چونکہ تعداد کے لحاظ سے اتنے مضبوط نہ تھے کہ پنجاب کے قدیم قبائل پر فتح پا سکتے، تو وہ ہزارہ اور آج کے راوپنڈی کے علاقے سے کشمیر کی طرف مڑ گئے اور چھتر کلاس سے لے کر چیکار اور اوڑی سے آگے تک کے بالائی علاقوں تک پہاڑی سلسلے کی بالائی دھار کے علاقوں پر قابض ہو کر یہیں آباد ہو گئے ۔کشمیر کی قدیم تواریخ میں یہ " کھش کہلاے اور آج بھی یہ قبائل ان ہی علاقوں میں آباد ہیں ، اور کھکھ کہلاتے ہیں ان کو " افتھالی کھکھ " بھی کہا جاتا ہے ، یاد رہے کہ ایرانی ہن قبائل کو افتھالی یا افتھالیہ کہا کرتے تھے ، یہ قبائل اپنی جارحیت پسند اور مہم جو فطرت کی وجہ سے کشمیر کے حکمرانوں کے لئیے ہمیشہ مشکل کا باعث بنتے رہے ہزارہ سے کشمیر کی طرف جہلم ویلی کے راستے آنے اور جانے والے تجارتی قافلوں کو یہ قبائل پہاڑ سے اتر کر لوٹ لیا کرتے ، اور دوبارہ پہاڑ کی بلندی پر واقع اپنے دشوار علاقوں کی طرف لوٹ جاتے پھر کشمیر سے فوج بھیجی جاتی تو ان علاقوں میں تادیبی کاروائیاں کرتی ، اب وعدہ وعید ہوتے اور آئندہ ایسا نہ کرنے کے وعدے پر یہ فوجیں واپس جاتیں ، لیکن ان کے واپس جانے کے کچھ ہی عرصہ بعد اپنی بغاوت اور شورش پسند طبیعت کی وجہ سے یہ کھش یا کھکھ قبائل دوبارہ جہلم ویلی کے راستے سے گزرتے قافلوں پر حملے کرتے ، ان کو لوٹتے ، یہ سلسلہ ماضی قریب میں کشمیر پر پنجاب کے حکمران رنجیت سنگھ کے دور تک جاری رہا لیکن پھر ان قبائل کی شورش سے تنگ آ کر ر نجیت سنگھ کی طرف سے کشمیر کے گورنر ہری سنگھ نلوہ نے افتھالی کھکھوں کے مرکزی علاقوں کچیلی اور چیکار میں فوجی سکھ خاندان آباد کر دئیے جو تقسیم تک ان ہی علاقوں میں رہائش پزیر رہے اس کے علاوہ ان قبائل کو شورش ، لوٹ مار اور بغاوت سے باز رکھنے کے لئیے کھکھ قبیلے کے سردار کے بیٹے کو یرغمال کے طور پر سرینگر رکھا جاتا، تاکہ یہ قبائل وعدہ خلافی نہ کر سکیں ، ایسے ہی ایک کمسن کھکھ شہزادے کی اس یرغمالی کے دوران وفات ہو گئی اس کی قبر بادامی باغ سرینگر میں آج تک موجود ہے ۔

ان کے بعد ہن قبائل کی بڑی لہر پنجاب آن پہنچی ، ان کا سردار تورومان تھا، روایت ہے کہ چونکہ یہ آج مارگلہ کہلانے والی پہاڑیوں کے راستے آج کے رولپنڈی پہنچے تھے ، لہزا ان پہاڑیوں کو اس کے بیٹے " مہرا گلا " کے نام پر آج تک " مارگلہ " کہا جاتا ہے ۔ ہن بہت جنگجو ، بیرحم اور ظالم ہوا کرتے تھے ٹیکسلا کی یونیورسٹی کے کھنڈرات میں ان کی طرف سے کی گئی آتشزدگی کی تہہ کا آج بھی ایک دیوار کے اوپن کراس سیکشن میں مشاہدہ کیا جا سکتا ہے ۔ سر اولف کیرو موجودہ سکھ جاٹوں کی بہادری ، اکھڑ پن ، بیرحمی اور دوسروں سے کچھ الگ خدوخال کی بنا پر ان کو ہن قرار دیتا ہے ۔

سردار تورومان کے بعد اس کا بیٹا " مہرا گلا " سردار بنا ،وہ اپنے باپ سے بھی زیادہ ظالم اور تشدد پسند شخص تھا لیکن اس کے شدید مظالم سے تنگ آ کر پنجاب میں آباد قدیم قبائل نے بغاوت کر دی اس پر مہرا گلا اپنی فوج اور اس کے ہاتھیوں سمیت پنجاب سے فرار ہو کر بھمبر کے راستے پیر پنجال رینج کو عبور کرتے ہوئے وادی کشمیر کی طرف بڑھا ، اس راستے میں ایک بلند تنگ درے پر اس کے قافلے کا ایک ہاتھی لڑھک کر گہرائی میں گر کر شدید زخمی ہو گیا اس زخمی ہاتھی کے چیخنے کی دردناک آوازیں اس تنگ درے میں گونجتے ہوئے اوپر تک سنائی دینے لگیں ، مہرا گلا چونکہ بہت ظالم شخص تھا، اسے یہ دردناک آوازیں بہت اچھی لگیں تو اس نے وہیں رک کر اس درے کی بلندی سے ایک سو ہاتھیوں کو نیزوں کے کچوکے دے دے کر اسی گہرائی میں پھنکوا دیا، اور ان کی دردناک چیخوں سے لطف حاصل کیا ۔پیرپنجال کے اس درے کو ان گرائے گئے ہاتھیوں کی مناسبت سے مقامی طور پر آج بھی " ہستی ونج " کے نام سے پکارا جاتا ہے ۔

کشمیر پر حکمران راجہ، مہرا گلا جیسے ظالم کی آمد کا سن کر اپنے خاندان سمیت فرار ہو گیا، اور یوں "مہرا گلا" نے کشمیر پر قبضہ کر کے وہاں اپنی حکومت قائم کر لی ۔ راج ترنگنی میں مزکور ہے کہ کشمیر میں مہرا گلا اپنے خونخوار لشکر سمیت جہاں جاتا ، مردار خور پرندے اس کے لشکر کے اوپر اڑتے جاتے ، کیونکہ یہ جہاں جاتا وہاں بہت سے انسانوں کو قتل کروا کر ان کی لاشوں کا قیمہ بنواتا ، تو ان مردار خور پرندوں اور درندوں کو معلوم ہوتا کہ یہ جہاں جائے گا وہاں ہمیں وافر مقدار میں انسانی گوشت کھانے کو ملے گا ، یہ درندہ صفت حکمران جس طرف جاتا یہ مردار خور پرندے اس کے لشکر سے پہلے ہی ان علاقوں پر منڈلاناشروع کر دیتے ۔ اور اس کے لشکر کے پیچھے پیچھے مردار خور جانور اور درندے انسانی گوشت کھانے کے لالچ میں چلا کرتے روایت ہے کہ اس نیکشمیر پر اپنے دور حکمرانی کے دوران لاکھوں افراد کو قتل کروایا ۔ اس ظالم "مہراگلا" کا انجام بھی بہت دردناک ہوا ، اسے ایک تکلیف دہ جلدی بیماری لگ گئی، اور یہ خارش کر کر کے اپنا خون نکال دیتا لیکن خارش کم نہ ہوتی ، اس نے تنگ آ کر لکڑیوں کی ایک بڑی چتا بنوائی، اور اس پر بیٹھ کر خود کو زندہ ہی نزر آتش کروا دیا ۔
واپس کریں