دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آزاد کشمیر, احتجاجی تحریک کے کچھ دیگر پہلو
ظفر محمود وانی� ۔ فلسفہ کالعدم
ظفر محمود وانی ۔ فلسفہ کالعدم
حکومت ریاست کی ہی نمائندہ ہوا کرتی ہے،وہ اگر ریاست کی نماندگی نہ کرے تو کس کی کرے کیونکہ عموما حکومت ایک طرف تو ریاست کا چہرہ ہوتی ہے اور دوسری طرف عوام کی نماندگی اور ملکیت کا اظہار اور اعلان بھی ہوا کرتی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ریاست کے عوام کے ساتھ تعلق کی ایک علامت اور اظہار کی حیثیت بھی رکھتی ہے ۔ لہذا حکومت کو ریاست سے الگ تصور کر لینا ایک ایساخطرناک خلا پیدا کرتا ہے جس کے منفی اثرات بہت دور تک جاتے ہیں ۔ لہذا اگر کوئی حکومت کسی وجہ سے ریاست کی نماندگی کی ذمہ داری سے انکار بھی کرے توبھی اس کا یہ موقف کسی طرح سے بھی تسلیم نہیں کیا جا سکتا ۔

آزاد کشمیر میں جاری یہ عوامی احتجاجی تحریک جو بظاہر بجلی اور آٹے کی مہنگائی کے مطالبات پر شروع کی گی اسے جان بوجھ کر سول نافرمانی کی تحریک میں بدلنے کی کوششیں کی جاتی رہیں ۔ لاگت کے تناسب سے مناسب قیمت میں بجلی کی فراہمی کے جائز اور منطقی مطالبے کو بالکل مفت بجلی کی فراہمی جیسے ناممکن مطالبات کی طرف موڑ دیا گیا ۔ بجلی کے بل نزر آتش کرنے کے ایک علامتی احتجاجی اظہار کے بارے میں سادہ لوح عوام کو یہ تاثر دیا گیا کہ اسی طرح بار بار اپنے بجلی کے بل نزرآتش کرنے سے ان کے یہ واجب الادا بل ختم ہوجائیں گے ۔ بعد ازاں اس میں امرا ء کی مراعات کے خاتمے کے مبھم مطالبات شامل کروائے گے , ،یہ واضع کیے بغیر کہ امراء سے ان کی مراد کیا ہے ۔ جبکہ یہ بھی امر واقع ہے کہ بیوروکریسی ،عدلیہ سمیت اعلی افسران اور اہلکاران کی مراعات اس خطے کی معاشی حالت کے ساتھ کسی بھی طرح مطابقت نہیں رکھتیں بلکہ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ صرف پانچ برس تک کی پارلیمانی مدت کے لیے منتخب ارکان اسمبلی تک کی پینشن مقرر کی گئی ہے۔اسے ہی حلوائی کی دکان پر نانا جی کی فاتحہ کہتے ہیں ۔اس ناجائز قانون کے خلاف اسمبلی میں سے اٹھنے والی واحد آواز مرحوم خالد ابراہیم کی تھی جنہوں نے نہ صرف ان ناجائز مراعات کی کھل کر مخالفت کی بلکہ خودبھی انھیں لینے سے انکار کر دیا ۔سب نے دیکھا کہ مرحوم خالد ابراہیم اس مطالبے کو لے کر پوری اسمبلی میں بالکل اکیلے کھڑے رہے ۔ اور کسی ممبر اسمبلی نے ان کا ساتھ نہ دیا ۔گویا وہ سب ممبران اسمبلی جو حکومت سے ہوں یا اپوزیشن سے ، زیادہ سے زیادہ مراعات کے لیے وہ سب ایک تھے ۔

مشہور ہے کہ مغل اعظم شہنشاہ اکبر نے اپنے نو رتنوں کے ساتھ کھانا تناول کرتے ہوئے کسی بات پر کہا کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں ۔ اس پر ملا دوپیازہ بولے مگر بوقتِ خوردن ، یعنی کھاتے وقت برابر ہو جاتی ہیں ۔ اسی طرح سابق وزرا اعظم نے آپس میں مفادباہمی کی بنیادوں پراپنے لیے تاحیات مراعات کا ایک مہنگا پیکیج حاصل کر رکھا ہے ، جس میں ہر چند سال کے بعد حسب فرمائش نئی مہنگی گاڑی تک شامل ہے ،جو کہ آزاد کشمیر جیسے چھوٹے سے علاقے کی ابتر معاشی حالت سے نہ صرف مطابقت نہیں رکھتا بلکہ یہ یہاں کے غریب عوام کی توہین کے مترادف اور مضحکہ خیز بھی ہے ۔ دنیا کے کسی ملک میں بھی سیاسی بنیادوں پر پارلیمانی مختصر مدت کے لیے منتخب نماندوں کی پینشن اور دیگر مراعات کی کوی مثال نہیں ملتی بلکہ آزاد کشمیر جیسے منفرد اور حساس سیاسی و جغرافیائی کیفیت والے علاقے میں یہ اسراف اور ناقص پالیسیاں نہ صرف عوام میں اضطراب ، غ و غصہ اور نفرت پیدا کرتی ہیں بلکہ ان عناصر کے ارادوں کے لیے تقویت کا باعث بھی بنتی ہیں جو بوجوہ اس علاقے کے عوام میں بے چینی ،نفرت اور مایوسی پھیلانا چاہتے ہیں ۔

مہنگائی کے خلاف اس عوامی احتجاج کو دیگر سیاسی معاملات کی طرف موڑنے کی کوشش اور ان کو پرتشدد رنگ دینے کی کوشش کرنے والے عناصر کی مسلسل کوشش رہی کہ اس عوامی احتجاج کوکسی بھی طرح تشدد کی طرف لے جایا جائے اور ردعمل اور جواب میں تشدد کا نشانہ بنوایا جائے اوراس طرح عوام کے امکانی غصے اور ناراضگی کو لے کر مزید آگے کوبڑھا جائے ۔ اس سلسلے میں عوام کو بھڑکا کر پولیس سٹیشنز اور دیگر سرکاری تنصیبات پر حملے کیلیے کھلے عام مسلسل اکسایاجاتارہا ۔ پراسرار اورمشکوک پس منظر کے عناصر کی طرف سے اس تحریک کے سٹیج کو استعمال کرتے ہوئے انتہائی نفرت آمیز اور زہر آلود تقاریر کی جاتی رہیں۔عوام کو بھڑکانے اور ان کو اشتعال دلانے کی پوری پوری کوششیں کی جاتی رہیں ۔ اس تحریک کو دیگر سیاسی معاملات جیسے الحاق و خود مختاری جیسے معاملات کی طرف موڑنے کی کوشش کی گئی۔لیکن اس کوشش کے محسوس ہو جانے اور ان مزموم کوششوں کو سامنے لے آئے جانے کی وجہ سے یہ عناصر پھر کچھ پیچھے ہٹ گے ، مگر اپنی سرگرمیاں مسلسل جاری رکھیں اور اس احتجاج میں خواتین اور بچوں کو سامنے رکھنے کی کوششیں کی گئیں لیکن ان کوششوں کو بھی عوام میں وسیع پیمانے پر پزیرائی نہ مل سکی ۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کو ان احتجاجی مظاہرین کے تمام جائز اور ممکن مطالبے فوری طور پر تسلیم کرنے چاہیں جب گلگت بلتستان میں آٹے اور بجلی کے علاوہ دیگر بنیادی اشیا صرف پر رعات اور سبسڈی دی جاسکتی ہے, تو آزاد کشمیرمیں بھی فوری طور پر ویسی ہی سبسڈیز دی جانی چاہیں ۔ اس کے علاوہ حکومت ان احتجاجی عوام سے مزاکرات کے لیے ایسے وزرا کی کمیٹی مقرر کرتی دکھائی دیتی ہے جو خود وزارتوں کے حسب خواہش قلمدان نہ ملنے پر ناراض ہیں۔لہذا ان میں سے کچھ کی واضع طور پر یہ خواہش دکھائی دیتی ہے کہ یہ احتجاج کسی نہ کسی شکل میں جاری رہے ،بلکہ مہنگائی پر اس عوامی احتجاجی تحریک میں وزرا کو قلمدان تقویض نہ کیے جانے اور اس میں تاخیر پر تشویش کی بازگشت بھی ان مطالبات کے ساتھ شامل کی جاتی سنائی دی ۔

حکومت کو بھی اس معاملے میں سنجیدگی کا ثبوت دیتے ہوئے چیف سیکریٹری کی سربراہی میں ایک بااختیار مزاکراتی کمیٹی تشکیل دینی چاہیے تاکہ مسائل کو حل کرنے کی طاقت و اختیار رکھنے والے حلقوں تک یہ مطالبات اور صورتحال براہ راست پہنچ سکیں اور ان معاملات کو حل کرنے کے اختیار کے سلسلے میں آزاد کشمیر حکومت کی بے بسی مزید اشتہار نہ بنے ۔اب وقت آ گیاہے کہ دونوں فریقین حکومت اور مظاہرین کو پردوں کے پیچھے سے نکل کر اپنے اصل مطالبات اورحکومت کو ان کے حل کے لیے اپنے دستیاب اختیار سامنے لانے چاہیں اور ان کے ممکن حل کے لیے مثبت ایپروچ اختیار کرتے ہوئے آزاد کشمیر کے عوام کے جائز مسائل کو فوری طور پر حل کیا جاناچاہیے ۔ اس سے قبل کہ اس بے چینی اور اضطراب سے فادہ اٹھانے کے منتظر اور خواہشمند اس بے چینی کو کسی غلط سمت میں لے جانے میں کامیاب ہو جائیں ۔


واپس کریں