دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
تعصب، نفرت، تشدد اور سدِباب !
ظفر محمود وانی� ۔ فلسفہ کالعدم
ظفر محمود وانی ۔ فلسفہ کالعدم
ہمارے دوست معروف دانشور اور روشن خیال شخصیت مظہر عباس خان نے پاکستان میں مختلف اقلیتوں کے خلاف مسلسل جاری تعصب اور پرتشدد واقعات کا بجا طور پر ذکر فرمایا تو راقم نے ان کی ہی بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے اس میں اپنی کچھ گزارشات کا اضافہ کیا ہے جو قارئین کی دلچسپی کے لئیے تحریر خدمت ہیں۔ جیسے حالات سے فلسطینی اور بحیثیت مجموعی بھارتی مسلم گزر رہے ہیں ، ان سے ثابت ہوتا ہے کہ جہاں بھی " مذہب " کا سیاست ، اور ریاست میں عمل دخل ہو گا ،وہاں ہمیں عام طور پر اکثریت کی طرف سے ایسے ہی روئیے دیکھنے میں آتے ہیں ۔ چاہے وہ اسرایل جیسا اعلی تعلیم یافتہ ,خوشحال اور علوم و فنون میں سرکردہ ملک ہی کیوں نہ ہو ۔ لیکن اپنے وطن میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی , عدم برداشت کے رویوں اور معاشی عدم استحکام کے ساتھ دیگر اندرونی و بیرونی مشکلات و خطرات کا یہ حل بالکل نہیں کہ ہم ان مشکلات کے بہتر ادراک ,فہم اور ان کے خاتمے اور درستگی کے طریقے تلاش کرنے اور کوشش کرنے کے بجاے , کھدال لے کر اپنے وطن کی بنیادوں کو ہی مسمار کرنے اور تاریخی شعور سے بیبہرہ و ناواقف نوجوان نسل کو اپنے ملک کے جواز سے ہی متنفر کرنے کی کوشش کریں , یہ رویہ اتنا ہی بلکہ شاید اس انتہا پسندی اور جاری تشدد سے بھی زیادہ نقصان دہ اور خطرناک ہے ۔

کسی ایک کمیونیٹی یا کسی ایک واقعے کو " پن پوائنٹ " کر کے صورتحال کا جائزہ لینے کی کوشش کرنا ، ایسا ہی ہے, جیسے جسم میں پھیلے شدید انفیکشن کو نظر انداز کرتے ہوے کسی ایک پھنسی یا پھوڑے پر توجہ دینا ، ہمیں معاشرے میں پھیلائی جانے اور پھر روایتی جاہلانہ اعتقادات کی وجہ سے پھیلتی ہوئی انتہا پسندی کے ماخذ اور وجوہات کی پہچان اور ان کے سورس سے علاج اور درستگی کرنے کی موثر اور مسلسل کوشش کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس کے علاوہ ہمیں اپنے وطن میں عمومی رویوں میں فرق اور موجود کچھ اچھی اور مثبت باتوں کو بھی مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ تعصب اور انتہاپسندی کے خلاف جدوجہد میں ان مثبت رویوں میں اضافے اور معاشرے میں ان کی ترویج سے زیادہ مثبت انداز میں مدد لی جا سکے ۔

بھارتی مشہور ایوارڈ یافتہ اداکارہ اور سابق ممبر پارلیمان شبانہ عظمی کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے, کہ بھارت کے بڑے شہروں میں کسی مسلم کو کوئی فلیٹ تک کراے پر دینے کو تیار نہیں ہوتا صرف اس کے مسلم ہونے یا مسلم نام ہونے کی وجہ سے ۔اس کے ساتھ ہی جہاں تک عام سوسائٹی کا معاملہ ہے, تو بھارت سے آنے والے فنکار اور دوسرے سیاح یا کھلاڑی جب یہاں عوام کا ان کے ساتھ عمومی طور پر محبت اور احترام آمیز رویہ دیکھتے ہیں, تو وہ کھل کر اپنی حیرانی کا اظہار کرتے ہیں, کہ ہم تو انڈیا میں کچھ اور سمجھتے اور سوچتے تھے یہاں تو عام لوگ ہمیں بہت محبت اور پیار دیتے ہیں ۔ یہاں ہمارے ملک میں ناجائز طور پر اقلیتوں کے ساتھ کبھی بہت برے سلوک کے واقعات بھی سامنے آتے ہیں, لیکن ایسے ہی پرتشدد واقعات یہاں مختلف فرقوں میں آپس میں بھی پیش آتے رہتے ہیں ۔ بات وہی مرض کی درست پہچان اور پھر ان بنیادی وجوہات کے علاج کی ہے جس کی جڑیں آمریت اور جمہوریت کی کشمکش تک میں پیوست ہیں ۔

فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ پڑھ لیجئے کہ کس طرح عام سے مولوی اتنے وسائل ، حمایت اورتنظیم حاصل کر لیتے ہیں کہ ان کے ذریعے ان کو استعمال کر کے علاقوں ،کسی شہر یا کئی شہروں کو مفلوج کر کے سول حکومتوں کو مجبور اور عام عوام کو خوفزدہ کیا جاتا ہے ۔ جب مولانا رضوی کے دھرنے کے وقت پولیس نے آنسو گیس کی شیلنگ شروع کی تو فوری طور پر جدید گیس ماسکس سے بھری ہوئی گاڑیاں جدید غلیلیں اور ان کے پتھر لے کر پہنچ گئیں اور اس طرح پولیس کو شدید نقصان اٹھا کر پیچھے ہٹنا پڑا ، یہاں کون سی اقلیت تھی جسے نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ اسی طرح سوات میں دیکھیں،جب ایک عام سا مدرسے کا مولوی اسلحہ اور افرادی قوت جمع کر رہا تھا ، شہریوں کو مسجدوں سے اعلانات کروا کر دھمکیاں دے رہا تھا اپنا لوکل ریڈیو سٹیشن چلا رہا تھا, تو ایک ایس ایچ او کو اگر اختیار اور حکم دیا جاتا تو وہ شروع میں ہی اس فتنے کا خاتمہ کر کے اسے زندگی بھر کے لئیے اس کے جرائم کی پاداش میں جیل پہنچا سکتا تھا۔ لیکن ان کو کھلی چھوٹ دی جاتی رہی درپردہ مدد اور حوصلہ افزائی بھی کی گئی اور پھر ایک وقت وہ بھی آیا کہ فوج کی پوری کور لگا کر بھی ان کا مکمل صفایا نہ کیا جا سکا اور مولانا محمد دس بیس ہزار مسلح افراد ساتھ لے کر وہاں سے کافی دور افغانستان پہنچ جانے میں کامیاب ہو گیا۔ وہاں کون سی اقلیت تھی، مذہب کے نام استعمال کر کے واضع طور پر عوام کو بلاتخصیص خوفزدہ اور استعمال کیا جا رہا تھا , اور اب تک پورے ملک میں مختلف سطحوں پر یہ کچھ ہی جاری ہے ۔ ورنہ قانون اتنی طاقت رکھتا ہے کہ کسی "گھوٹکی شریف" کی کیا جرات ہو سکتی ہے ۔ اسے ایک ایس ایچ او تیر کی طرح سیدھا کر سکتا ہے اگر " قانون کا نفاز قانونی طریقے سے ہی کیا جائے " ۔

ہمارے ہاں دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ قانون کا نفاذ بھی غیر قانونی انداز میں ڈاکووں قاتلوں اور مجرموں کے انداز میں غیر قانونی طریقے سے کیا جاتا ہے اور کارندوں کو قانون کے نفاذ کی کاروائی کرتے دیکھیں تو ان کے رویوں سے ایسا لگتا ہے کہ مجرموں کا گروہ کوئی انتقامی کاروائی کر رہا ہے ۔ اور اس کاروائی کا نشانہ ہمیشہ کمزور ہی بنتے ہیں اور اصل بڑے مجرموں کو کوئی ہاتھ تک نہیں ڈال سکتا ۔ عام آدمی شراب کی آدھی بوتل سمیت پکڑا جاے تو اس کے ساتھ کتے جیسا سلوک اور تشدد کیا جاتا ہے اور قاتل خونی دہشت گردوں کو اگر مجبوری میں یا ان کے " تحفظ " کے لئیے گرفتار کرنا بھی پڑ جاتے تو ان کو پورے پروٹوکول سے جیلوں میں رکھا جاتا ہے , جہاں وہ محفوظ ماحول میں آرام کرتے ہیں اور مزید صحت مند ہو کر نکلتے ہیں , پھر جب ان کا دل چاہے ڈیرہ اسماعیل خان سے راستے میں ناشتے کرواتے ہوے نعرے لگواتے ہوے دو سو کلومیٹر دور افغانستان میں محفوظ پناہ گاہوں تک جانے دیا جاتا ہے ۔ لہذا بیماری کی ایک علامت کے بجاے بیماری کی بنیادی وجہ کو سمجھنا اور اس کا علاج و سدباب ضروری ہے ۔ قانون اگر ان دہشت گردوں اور کسی بھی قسم کی دہشت گردی پھیلانے والوں کو ختم کرنا چاہے، تو سٹیٹ کے اندر ،کوئی گروہ چاہے وہ کتنا ہی طاقتور ہو , سٹیٹ کا مقابلہ نہیں کر سکتا، یہ ممکن ہی نہیں ہوا کرتا ، جب تک ان کو مضبوط سرپرستی اور مسلسل مدد موجود اور دستیاب نہ ہو ۔ ملک اسحاق کی مثال موجود ہے، ایک عام سے مولوی کو ایسا طاقتور بنا دیا گیا، یا بننے دیا گیا , کہ وہ شہروں میں مشین گنز لگی پک اپس کے قافلوں کی شکل میں گھوما کرتا، اس نے اپنی تنظیم سے لاتعداد قتل کرواے ۔ جب اسے خوفزدہ ہو کر جیل سے رہا کیا گیا , تو بھاری اسلحہ سے لیس سینکڑوں افراد اسے لینے پہنچے اور اسے لاہور جیل سے بڑے قافلے کی شکل میں لے جایا گیا اور جب " سٹیٹ " نے اس سے بوجوہ چھٹکارے کا فیصلہ کر لیا, تو اسے اس کے بیٹے اور چند قریبی ساتھیوں کو عام مجرموں کی طرح ایک ایس ایچ او نے " پولیس مقابلے " میں پار کر دیا ۔ یہ واقعہ ایک واضع مثال ہے کیفیت اور علاج کو سمجھنے کے لئیے ۔

یہ معاملات ہمارے ہاں ہر باشعور فرد بشرطیکہ وہ بِکا ہوا نہ ہو ، اچھی طرح سمجھتا ہے, لیکن اس تمام تانے بانے کا ایک بڑا مقصد شعور اور ضمیر کو خوفزدہ اور مجبور کر کے خاموش رہنے پر مجبور کرنا بھی ہوتا ہے ۔ کون ایسا باضمیر انسان ہو گا جو مزھب کو انسان اور خدا کا باہمی معاملہ نہ سمجھتا ہو , مشہور واقعہ ہے کہ ایک غزوہ کے دوران جب آنحضور محمد صل اللہ علیہ والہ وسلم کو یہ معلوم ہوا کہ ایک صحابی جب کسی کافر کو ہلاک کرنے لگے تو اس نے کلمہ پڑھ لیا , لیکن ان صحابی نے پھر بھی اسے ہلاک کر دیا , آنحضورمحمد صل اللہ علیہ والہ وسلم نے یہ واقعہ علم میں آنے پر سخت افسوس کا اظہار فرمایا تو اسے ہلاک کرنیوالے صحابی نیبتایا کہ اس کافر نے جان بچانے کے لیے کلمہ پڑھ لیا تھا , اس پر آنحضورمحمد صل اللہ علیہ والہ وسلم نے مزید افسوس کا اظہار فرمایا اور آپ (ص) بار بار فرماتے, کیا تو نے اسکے دل میں جھانک لیا تھا کہ وہ جھوٹ بول رہا تھا , اور آج ہم دوسروں کے اعتقادات کے بارے میں اپنی من مانی تشریح کے مطابق فیصلے کرتے ہیں, اور فتوے صادر کرتے ہیں ۔

ہر باضمیر اور باشعور شخص کو ہر بچہ بلاتخصیص رنگ, نسل مزھب, معیشت اور قوم اپنے بچوں کی طرح ہی پیارا لگتا ہے , وہ اگر کوی درندہ صفت نہ ہو تو اس کی سب بچوں اور دوسرے انسانوں کے لیے شفقت اور محبت بھی ایک جیسی ہوتی ہے ۔ ہم میں بہت سے روایتی , سماجی تعصبات بھی ہیں, جو ہمارے خطے کی ہزاروں سال پر مشتمل تاریخ اور حالات نے ہمارے جینز میں نقش کر دئیے ہیں, تہزیب شعور اور علم و انصاف یہی ہے, یہی ضمیر کا تقاضہ بھی ہے کہ ہم شعوری طور پر اپنے اندر کے ان دیرینہ تعصبات کو پہچانیں اور ان کو ختم کرنے کی مسلسل کوشش بلکہ ایسے دیرینہ زاتی تعصبات کے خلاف مسلسل جنگ بھی جاری رکھیں ۔ تب ہی ہم درجہ انسانیت پر فائز ہو کر انسانیت , علم, ترقی اور بہتری کے سفر پر روانہ ہونے کے قابل ہو سکیں گے ۔
واپس کریں