دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آزاد کشمیر میں جاری عوامی احتجاج , اور اس کے مقاصد !
ظفر محمود وانی� ۔ فلسفہ کالعدم
ظفر محمود وانی ۔ فلسفہ کالعدم
آزاد کشمیر کے مختلف شہروں میں شاید بجلی کے بڑھتے ہوے بلوں کے خلاف جاری عوامی احتجاجی تحریک اپنا رنگ اورنوعیت تبدیل کرتے ہوے, وسیع اور پرتشدد ہوتی جا رہی ہےجس کو روکنے اور عام زندگی کوبحال کرنے کے لٸیےپولیس نے بھی طاقت کااستعمال شروع کر دیا ہے , گرفتاریاں کی جا رہی ہیں ,نوجوانوں کی ٹولیاں سڑکوں پرپتھراو کرتی دکھاٸی دے رہی ہیں , اور پولیس مظاہرین پر لاٹھی چارج اورآنسوگیس پھینکتے دیکھی جا رہی ہے ۔اس طرح تشدد اور جوابی تشدد , احتجاج ,, اور گرفتاریاں ایک چین ری ایکشن کی طرح اپنا داٸرہ وسیع کرتی دکھاٸی دے رہی ہیں ۔

یاد رہے کہ اس سے قبل آزاد کشمیر میں آٹا مہنگا اور کم ملنے پربھی اسی طرح احتجاجی تحریک اور مظاہروں کو منظم و وسیع کرنے کی کوششیں کی گٸی تھیں لیکن , حکومت کی طرف سے اس معاملے پر سنجیدہ اور موثر اقدامات کی وجہ سے وہ احتجاج منتظمین کی پوری کوشش اور خواہش کے باوجود وسیع صورت اختیار نہ کر سکا ۔ لیکن اس کے اثرات کسی حد تک عوام میں موجود رہے , جن کوبرقرار رکھنے میں ملک کی غیر یقینی مجموعی بدتر اقتصادی حالت اور بڑھتی ہوٸی مہنگاٸی کے اثرات کا بھی کردار رہا , اب دوبارہ سے بجلی کے بڑھتے ہوے بلوں کی بنیاد پر یہ احتجاج شروع کرواے گٸے ہیں , اور زمہ داران اور فریقین کے سوچے سمجھے یا بغیر سوچے سمجھے اقدامات کی وجہ سے اس احتجاج کا داٸرہ واضع طور پر وسیع ہوتا دکھاٸی دے رہا ہے , اس وقت ملک میں جاری بیرونی طاقتوں کی طرف سے کی جانے والی تخریب کاری , دہشت گردی اور دشمن ممالک کے سابقہ ریکارڈ اور دھمکیوں کے پیش نظر ان نازک حالات میں ایک حساس ترین علاقے میں ان مظاہروں اور احتجاج کوسنجیدگی سے لینا چاہٸیے اور زمہ دار حلقوں اورحکومت کو فوری طور پر مظاہرین کے ساتھ رابطہ بحال کرتے ہوے ان کے جاٸزمطالبات کے ازالے کی فوری اور مخلصانہ کوششیں کرنی چاہٸیں ,احتجاجی عوام پر طاقت کابےدریغ استعمال کسی بھی طرح نہ مناسب اور کارآمد ہے نہ ہی اس ناقص ایپروچ سے یہ مسٸلہ حل کیا جا سکتا ہے ,لہزا اس سے قبل کہ تاک میں بیٹھا ہوا دشمن آگے بڑھ کر ان چنگاریوں کو ہوا دینے لگے اور جلتی پر ایندھن ڈالنے لگے , حکومتی حلقوں کوفوری طور پرآگے بڑھ کر عوام میں جا کر ان کے جاٸز مساٸل کو سمجھنا اور ممکن حد تک فوری طور پر ان کاازالہ کرناچاہٸیے اس سے قبل کہ بہت دیر ہو جاے ۔

المیہ یہ بھی ہے کہ اس صورتحال کاگہراٸی سے تجزیہ کرنے کے بجاے اہل دانش و شعور اور جیّد صحافی بھی افسوسناک طور پر اس انارکی کے پھیلاو میں اضافے کی شعوری یا غیر شعوری کوششوں میں مصروف دکھاٸی دے رہے ہیں, اور ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ یہ صورتحال ان کے لٸیے ایک دلچسپ تفریحی تقریب ہے جس سے وہ لطف اندوز ہوتے ,طنزیہ پیرایہ اختیار کرتے , اور کسی واضع پوزیشن اور نقطہ نظر کا اظہارکرنے سے واضع طور پر اختراز کرتے دکھاٸی دے رہے ہیں , ان کے فیس بک پیجز دیکھیں تو وہ روایتی لطیفہ یادآ جاتا ہے جب ایک صاحب بڑے فخر سےاپنے دوستوں کوبتاتے کہ ان کے دادا حضور پچانوے سال کی عمر میں بھی سوٸی میں دھاگہ ڈال لیاکرتےتھے , اس پر ایک دوست استفسار کرتے ہیں کہ مان لیاکہ آپ کے داداحضور پچانوے سال کی عمر میں سوٸی میں دھاگہ ڈال لیتے ہیں پر یہ آپ نے نہیں بتایا کہ وہ یہ دھاگہ ڈال کر پھر کرتے کیا ہیں ؟ بالکل اسی طرح بہت سے اہل دانش اور صحافی حضرات جن کا بنیادی کام قوم کی شعوری افزاٸش ,مقاصد اورمنزل کے تعارف اور تربیت کا ہوتا ہے , وہ بھی اس جاریہ لہر کا نہ صرف سرگرم حصہ بنے ہوے دکھاٸی دے رہے ہیں بلکہ اپنے اور اس تحریک کے مقاصداور نتاٸج و اثرات کےبارے میں خود شدید ابہام کا شکار دکھاٸی دے رہے ہیں ۔

موجودہ تحریک کے بارے میں میرا نقطہ نظر اور استفسار جس کا کسی نے کوٸی جواب نہیں دیا , بلکہ ہنگامے کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ جلتی پر تیل ڈالا جا رہا ہے اور اس پراظہار مسرت بھی کیا جا رہا ہے ۔ لیکن جب ان سے معلوم کرنے کی کوشش کریں کہ اس تحریک کےحتمی مقاصد کیا ہیں اور اگر ان کی خواہشات کے مطابق یہ تحریک کامیاب بھی ہو جاتی ہے تو یہ کس چیز کو کامیابی کہتے ہیں , کیا ہو جاے کہ ہم اور یہ کہہ سکیں کہ “ تحریک “ کامیاب ہو گٸی ہے ۔ عوام کی اس تحریک کی ” کامیابی “ کے بعد وہ کیا منظر نامہ اور نظام بنے گا زرا بیان فرما دیجئیے تاکہ ہمارے بے چین دل اور خیالات و خدشات کی کچھ تشفی ہو سکے ۔

ایسے اگر موضوع کو مبھم ہی بیان کیا جاے تو ہر ایک اپنے اپنے زھن کے مطابق اپنے اپنے یوٹوپیا کے مطابق آئندہ کے حالات، اور نظام ، کا غیر حقیقی منظر نامہ تشکیل کر لے گا, جو کہ کسی قسم کے حقائق پر نہیں بلکہ خالصتاً ان سادہ لوح افراد کی زاتی خواہشات پر مبنی ایک غیر ممکن اور موجودہ زمینی حقاٸق سے متضاد تخیلاتی قسم کا منظر نامہ ہو گا ۔اس لٸیے باضمیر اورباشعور اہل دانش و صحافت کا فرض ہے کہ وہ اس معاملے, اس کےمضمرات اور نتاٸج و اثرات پر سنجیدگی سے سوچیں عوام کو کھل کر حقاٸق و مضمرات و خطرات کے ساتھ امکانات سےبھی آگاہ کریں , ورنہ جاری بدنظمی و انارکی میں مشغول سادہ لوح عوام کے شور شرابے میں ان ہی کی طرح ہاتھوں میں پتھر اٹھا کر شامل ہو جانا, انکو زیب نہیں دیتا ۔
واپس کریں