دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ملکیت اور استحصال کا رشتہ
ظفر محمود وانی� ۔ فلسفہ کالعدم
ظفر محمود وانی ۔ فلسفہ کالعدم
جس طرح بہت سی عادات طویل دورانیہ تک استعمال کی وجہ سے ہمارے جینز میں شامل ہو جاتی ہیں، جیسے بھوک کے بارے میں ہمارا قدیم عدم تحفظ ہمارے معاشرے میں تقریبات کے دوران بوقت طعام ہمیں اچھے بھلے خوشحال لوگوں کے رویے میں آج تک نظر آتا ہے، بقول ایک کالم نگار کہ یہ صدیوں کی بھوک ہے، جو ہمیں آج کوئی کمی، تنگی یا احتیاج کے نہ ہوتے ہوئے بھی کھانے کے بارے میں عریاں بلکہ فحش، استحصالی رویہ بغیر کسی شرم یا جھجک کے اپنانے پر مجبور کر دیتی ہے۔

اسی طرح ملکیت بلکہ نام نہاد ملکیت سے لطف اندوز ہونے کا احساس بھی ہمارے جینز میں شامل ہو چکا ہے، لیکن ذرا اس معاملے کو انسانی زندگی کے دورانئیے کے تناظر میں دیکھیں تو ہمیں دراصل سکون وہ ضمانت دیتی ہے کہ یہ مکان یا زمین ہماری ملکیت ہے، اور کوئی ہمیں اس سے محروم نہیں کرے گا، بادشاہت کے نظام میں ساری مملکت کی زمین بادشاہ کی ملکیت تصور ہوتی رہی ہے جس میں زمین کی وراثت کا اولاد کو انتقال بادشاہ کی مرضی اور خوشنودی سے منسلک ہوتا تھا۔

دراصل یہ احساس صرف ایک تسلی ہوتی ہے جو ہم خود کو دے کر بہلاتے ہیں اگر ہمیں ریاست کی طرف سے یہ ضمانت ہو کہ ہمیں ہماری جائز ضرورت کے لحاظ سے جگہ دی جائے گی ہماری بنیادی انسانی ضروریات کے ضمن میں ہمیں مضبوط ضمانت اورتحفظ حاصل ہو گا، تو ہماری ذہنی کیفیت بدل جائے گی، بشرطیکہ ہم میں ساتھ والے ہمسائے یا کسی اور کمزور اور بے بس، کے مکان، زمین یا املاک پر قبضہ کر لینے کی نیت یا ارادہ موجود نہ ہو، اسی ارادے کے تحفظ کے لیے ہم بغیر کسی مقرر شدہ حد کے، ملکیت کی خواہش رکھتے ہیں، تاکہ ہمارے لیے موقع ملنے پر کسی دوسرے کمزور اور بے بس کے استحصال کے امکان کا موقع برقرار رہے۔

مذاہب نے جس طرح مرنے کے بعد انعامات اور سزاوں کے وعید کئیے ہیں اسی طرح دنیا میں بھی ایک طرح سے رشوت کے طور پر ملکیت کو جائز قرار دیا ہے، حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مذہب ہر محروم کو اس کی جائز ضرورت کی فراہمی کی ضمانت دیتا، اہل اقتدار کا اقتدار ہی اس ضمانت کے ساتھ مشروط کر دیتا، لیکن بدقسمتی سے ایسا ہوا نہیں بلکہ ہمیں صاحب اقتدار کی غیر مشروط اطاعت کی ہدایت کی جاتی ہے، معمولی معمولی مادی محرومیوں کے ضمن میں صبر کی ہدایت اور ساتھ ہی ایک ڈھیلی ڈھالی اخلاقیات جس میں کچھ بھی صریح نہیں، یہ کرنا چاہیے، یہ نہیں کرنا چاہیے، یہ اچھی بات ہے، یہ بری بات ہے۔

آج ایک طویل ارتقائی سفر کے بعد کم از کم ہم وہاں تک تو پہنچ ہی گئے ہیں جہاں ہم بجلی کا بلب آن کرنے کے لیے ایک درست سرکٹ اور سپلائی والے سوئچ پر مکمل، بلیک اینڈ وائٹ، میں انحصار کرتے ہیں۔ کہ سب سے زیادہ مذہبی شخصیت بھی بجلی کا سوئچ آن کرتے ہوئے ساتھ کوئی دعا، منتر، اشلوک، یا مناجات نہیں پڑھتے۔ وہ سب بلا تخصیص بجلی کا سوئچ اس کی ٹیکنالوجی پر مکمل انحصار کرتے ہوئے آن کرتے ہیں اور بلب روشن ہو جاتا ہے۔ انشا اللہ یہی رویہ نسل انسانی کبھی باقی معاملات کے بارے میں بھی اپنا اور تسلیم کر کے حقیقت مجاز کے نزدیک آ جائے گی اور اپنے دیرینہ و قدیم تعصبات پر عبث انحصار سے چھٹکارا حاصل کر لے گی۔ وہی دور انسانیت کی اصل سربلندی، تعظیم اور اعتماد کا حامل ہو گا۔
واپس کریں