دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
فلسفہ کالعدم ۔ ہیں کواکب کچھ ،نظر آتے ہیں کچھ
ظفر محمود وانی� ۔ فلسفہ کالعدم
ظفر محمود وانی ۔ فلسفہ کالعدم
کچھ تجزیہ نگار اپنے مضامین اور تحاریر میں میں محترم عمران خان نیازی صاحب کو " معصوم " اور مخلص قرار دینے کا تاثر دیتے ہیں , جبکہ درحقیقت خان صاحب اور موجودہ اسٹیبلشمنٹ کی قیادت کے امریکہ کے ساتھ بے پناہ اور رضاکارانہ تعاون کی مثال ماضی کے اس ضمن میں بدترین ادوار میں بھی نہیں ملتی۔جنرل ایوب خان جو ایک لحاظ سے پاک امریکہ سٹریٹیجک تعلقات کے معمار تھے, انہوں نے بھی اس ضمن میں اپنے تلخ تجربات کی بنا پر امریکی " دوستی " پر تحفظات اور پچھتاوے کا اظہار کیا, بلکہ اپنی کتاب کا نام ہی " فرینڈز ناٹ ماسٹرز " رکھا جو ان کی مایوسی اور سوچ کی عکاسی کرتا ہے ۔
کشمیر پر امریکی ضمانت پر بھارتی مطالبات کے مطابق, مفاہمت ہو یا امریکہ کے ساتھ طالبان , جو اب امریکی سینٹ میں پیش کردہ ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ کے ہی " تنخواہ دار " تھے اور ان کے تمام عہدیداروں بلکہ قطر آفس کا خرچ تک امریکہ ہی ادا کرتا رہا ۔اس بارے میں اور صرف اس ضمن میں خرچ شدہ رقم جنگی خرچ کے علاوہ گیارہ بلین ڈالر سے زیادہ بتائی جاتی ہے ۔ خان صاحب اور ان کے سرپرستوں نے جن کو ہم " اینڈ کو " کے نام سے لکھیں گے،باقائدہ پندرہ ہزار سے زیادہ فوج اور ائیر فورس استعمال کر کے " طالبان " کو امریکہ کی مرضی اور حکم کے مطابق افغانستان کا قبضہ دلایا ، اور ان طالبان کے لئیے نئی یا بہترین حالت میں فوجی سازوسامان ، ہتھیار اور ایمونیشن کے بھاری زخائر جن کی مالیت ستر ارب ڈالر سے زیادہ کی بتائی جاتی ہے جو امریکہ افغانستان میں چھوڑ کر گیا ۔ اشرف غنی نے حالات کو بھانپتے ہوے بروقت فرار ہو نے کا درست فیصلہ کیا ورنہ ان کا انجام ڈاکٹر نجیب اللہ والا ہونا تھا ۔
اب وہی طالبان پاکستان کی خون آشام دہشت گرد تنظیموں کو جو پہلے بھی ان کی پناہ میں تھیں ، امریکی اسلحہ سے لیس کر کے اسی کے حکم اور منصوبہ بندی کے مطابق پاکستان کے خلاف سرگرم کر چکے ہیں, بلوچستان میں ہوے فوجی کیمپوں پر مسلح اور تباہ کن حملوں میں یہی جدید امریکی ہتھیار ، بشمول سنائپرز اور جدید ترین نائٹ وژن اور مواسلاتی آلات استعمال کئیے گئے ، داسو پراجکٹ پر تعینات چینی اہلکاروں پر جس جان لیوا حملے کا بھاری تاوان , ہمیں چین کو ادا کرنا پڑا, وہ حملہ بھی امریکی ایما پر انہی دہشت گردوں سے کروایا گیا تھا , اور شمالی علاقہ اور اس سے ملحقہ علاقوں میں ان دہشت گردوں کو اس حد تک منظم اور مسلح کیا گیا , کہ سینکڑوں سیاحوں کی موجودگی میں بابو سر میدان میں یہ درجنوں کی تعداد میں مسلح ہو کر کھلے عام پورا دن موجود رہتے ہیں , اور اس موجودگی اور اجتماع کی تشہیر بھی کی جاتی ہے ۔ یہ سب شواہد اور دہشت گردوں کی سرپرستی کی طالبان اور ان کے پیچھے امریکہ کی زمہ داری کے بارے میں ہمارے اداروں کو اچھی طرح معلوم ہے , لیکن یہاں بھی نہ جانے کس مصلحت یا پالیسی کے تحت, ان اصل زمہ داروں اور سرپرستی کرنے
والوں کے نام لینے کے بجاے کوشش کی جاتی ہے کہ الزام اور شک ایران کی طرف موڑا جا سکے ، یہ بھی خالصتا امریکی مفاد کی اور دلچسپی کی بات ہے ۔ ہمارے اداروں کے ساتھ افغان جنگ سے لیکر اب تک کے تعاون کے نتیجے میں امریکی یہاں بھی اپنے ہمدردوں اور وفاداروں کا ایک بااثر حلقہ تیار کر چکے ہیں, جو ایسے مواقع پر ان کے کام آتا ہے ۔ پھر امریکی فوج کے فوری انخلا کے موقع پر جس طرح غیر مشروط اور وسیع پیمانے پر تعاون کیا گیا, وہ زیادہ پرانی بات نہیں ہے ۔
اب بھی موجودہ صورتحال میں عمران خان نیازی صاحب کے بارے میں امریکہ یا مغرب دشمنی کا تاثر پھیلانا دراصل " سموک سکرین " ہے جو اصل صورتحال سے عوام کی توجہ بھٹکانے کے لئیے پھیلائی جا رہی ہے , اور میرے خیال کے مطابق یہ مضمون اور اس میں خان صاحب کی سادگی ، معصومیت اور نام نہاد حب الوطنی " کا پراپگنڈہ بھی اسی امریکی مہم کے سلسلے کا ہی ایک حصہ ہے ۔ جس پر گہرائی سے سیاق و سباق کی روشنی میں غور و فکر اور سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ سی پیک پراجکٹ کی بندش کوئی اتفاقی حادثہ نہیں, بلکہ امریکہ اور بھارت کی اعلانیہ اس پراجکٹ کی مخالفت کے سلسلہ کی تعمیل ہے ۔ ابھی ماضی قریب میں تحریک لبیک کی طرف سے فرانس سے سفارتی تعلقات توڑنے کے مطالبے کے جواب میں حکومت وقت کے یورپ کی پاکستان کے لیے اہمیت کے بارے میں ارشادات ابھی زیادہ پرانی بات نہیں ۔اس یورپ جہاں خان صاحب کے بچے مستقل طور پر رہائش پزیر ہیں۔اس کے بارے میں خان صاحب کے موقف میں حالیہ ڈرامائی تبدیلی کو اس کے درست تناظر میں دیکھے جانے کی ضرورت ہے ۔
اب بھی پارلیمنٹ میں جس امریکہ سے ساز باز کا الزام لگا کر اپوزیشن کو غدار قرار دیا گیا اور اس ضمن میں قومی سکیورٹی کونسل میں مسلح افواج کے سربراہوں کی شمولیت اور وہاں ان کی طرف سے بھی اس " سازش " کی تصدیق کا بیان اس الزام کے جواز میں دیا گیا , اور اس الزام پر مسلح افواج کی خاموشی نے اس الزام پر مہر تصدیق ثبت کر دی ۔ دوسری طرف اسلام آباد میں منعقدہ سیکورٹی کانفرنس میں وزیر اعظم خود بھی شرکت فرماتے ہیں اور یہیں باجوہ صاحب کھل کر امریکی حمایت اور دیرینہ وفاداری کا اعادہ کرنے کے ساتھ ساتھ امریکی پالیسی سے یکجہتی کے طور پر یوکرین پر روسی حملے کی مزمت فرماتے ہیں ۔ یہاں اس سازش اور اپوزیشن سے ساز باز اور ان کو مبینہ طور پر غداری پر اکسانے کا نہ کوئی زکر ہوتا ہے نہ کوئی احتجاج کیا جاتا ہے ۔ گویا پاکستانی عوام کی اس نفسیاتی کمزوری سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جس فرد یا پارٹی کی حمایت بھارت یا امریکہ کھل کر کریں اسے پاکستان کے عوام ملک دشمن اور غدار تصور کر لیتے ہیں اور جس کی یہ ممالک مخالفت چاہے صرف ظاہری طور پر ہی کریں ، وہ پاکستان کے جزباتی ، اورسادہ لوح و تقریبا نیم خواندہ عوام کی اکثریت کی نظر میں ہیرو بن جاتا ہے۔
لہذامختلف جلی و مخفی خدمات کے عوض ان ممالک سے حسب ضرورت درخوست کر کے مخالفت یا حمایت کروائی جاتی ہے ۔ پاکستان میں طویل عرصے سے ناجائز اور ماوراے قانون اقدامات کے زمہ دار آپس میں کسی قسم کی مخالفت اور تقسیم افورڈ ہی نہیں کر سکتے کیونکہ یہ آپس کی مخالفت ان سب زمہ داران کے لئیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے ۔لہزا وقتا فوقتا آپس کے اختلافات کا ڈرامہ رچایا جاتا ہے , تاکہ عوامی جزبات کے دباو کو امید موہوم دکھا کر کچھ کم کیا جا سکے اور جوں ہی دباو کچھ کم ہوتا ہے یہ گروہ دوبارہ شِیر و شکر ہو جاتا ہے ,
تو بھی سادہ ہے کبھی چال بدلتا ہی نہیں
ہم بھی سادہ ہیں،اسی چال میں آ جاتے ہیں
واپس کریں