دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
علاج بالمثل
ظفر محمود وانی� ۔ فلسفہ کالعدم
ظفر محمود وانی ۔ فلسفہ کالعدم
مشرقی طریقہ علاج کا مشہور طریقہ ” علاج بالمثل “ ہے , یعنی ” گرمی سے گرمی کا , اور سردی سے سردی کا علاج کرنا , لہزا کل تقریباً بےکاری کے عالم میں , ”فیس بک “ پر سرفنگ جاری تھی , کہ ایک بہت دلچسپ , مضمون نما طویل پوسٹ پرنظرپڑی , جسکا آغاز ہمارے دوست” وسی بابا “ کی جملہ خصوصیات کے بیان سے کیاگیا تھا , اور اختتام جاکر ”مسرت شاہین“ پرکیا گیا تھا , اب قارٸین اس مضمون کے آغاز اور انجام کوایک خط مستقیم سے آپس میں ملاکر باآسانی ” کونٹینٹ “ کا اندازہ لگا سکتے ہیں , لیکن دوران , دھواں اٹھنےکی گارنٹی اور زمہ داری ہماری نہیں , کیونکہ ایک تو گرمی ویسے ہی آج کل زیادہ ہے , دوسرے جا بجا ” جملہ اقسام“ کے قدرتی و غیر قدرتی جنگلات میں بھی آگ لگی ہوٸی ہے , نیز گرمی اور خشکی کی وجہ سے جملہ قابل سوختنی اشیاء بھی جل اٹھنے کو تیار بیٹھی ہوتی ہیں ,

آج کل لوگوں کے موڈ سے تو ایسا ہی محسوس ہوتا ہے , کہ زرا سے چھیڑنے یا رگڑ لگ جانے سے جملہ آستینوں اور پاٸنچوں سے دھواں نکلنے لگے , توجیسے بقول احمد فراز ”شرابوں میں شرابیں ملنے سے نشہ بڑھتاہے “ ویسے ہی کہیں آگوں میں آگ ملنے سے بھی ” گرمی اور درجہ حرارت میں اضافہ نہ ہو جاے , جس کا صرف ایک مثبت پہلوہی زھن میں آ رہا ہےکہ اس مہنگاٸی کے دور میں ” ریزرز اور جملہ کریمز “ کے خرچ میں خاطر خواہ کمی تو آے گی ہی , کہ جنگل جل جانے کے بعد ان کی کٹاٸی کی ضرورت نہیں ہوا کرتی ۔ ایک تو ہم پتہ نہیں کہاں نکل جاتے ہیں, تو بات ہو رہی تھی اُس مضمون نماپوسٹ کی , جو وسی بابا سے شروع ہو کر مسرت شاہین پر اختتام پزیر ہوٸی , ہم نے اس پر طویل تبصرہ لکھا تو بوجہ طوالت وہ اس پوسٹ نما مضمون پر تبصروں میں شٸیر نہ ہو سکا , ہم اپنا ”قیمتی“ تبصرہ محفوظ کرنے لگے تو وہ پوسٹ ہی گم ہو گٸی , اور بدقسمتی سے ہمیں یہ تک دیکھنے کا موقع نہ مل سکا کہ یہ عالیشان تحریر تھی کس کی , وسی باباکےپیج پر بھی ڈھونڈا , کاکڑ صاحب کی تازہ تحاریر میں بھی ڈھونڈا لیکن کچھ معلوم نہ ہو سکا ,بس اتنا یاد ہے کہ ہمارے طویل تبصرے کے نیچے محترمی ” شازار جیلانی “ صاحب کا تبصرہ تھا , لہزا اب وہ ہی بتا سکتے ہیں کہ وہ شاندار مضمون کس کی پوسٹ تھا ۔

اس مضمون کے اختتام پر قارٸین سے بھی استفسار کیاگیا تھا, بلکہ دعوت دی گٸی تھی, تقریباًبالکل ویسےہی جیسے دعوتِ گناہ دی جاتی ہے , یا بھینسے کو سرخ کپڑادکھایا جاتا ہے , کہ کیا قارٸین محترمہ مسرت شاہین کے نام سےواقف ہیں, اور اُن کے بارے میں کچھ جانتے ہیں ؟ تو گویا ” اک تیر سینےمیں مارا ہاے ہاے “ والی کیفیت ہو گٸی , اور ہم کو محسوس ہونے لگا کہ اگر ہم نے ” اس عمر میں “ اپنی ملّی اور قومی زمہ داریوں کے تحت نوجوان نسل کو پاکستان کی درخشاں تاریخ کی اس عہد ساز , ”نسل ساز “ بلکہ زھن ساز فنکارہ سے متعارف نہ کروایا , تو اس سے ملک و قوم کو دو بڑےنقصان ہوں گے , ایک تو نٸی نسل اپنے قیام پاکستان کے بعد کے ادوار کے اسلاف کےکارناموں اور اصلی تعارف سےمحروم رہ جاے گی , دوسرے بہت سی دل کی , دل ہی میں رہ جاٸیں گی لہزا ۔

ہم تو مسرت شاہین کے بارے میں ” ان کی بدر منیر کے ساتھ فلم ” دلہن ایک رات کی “ حد تک جانتے ہیں , اور جن قاٸین نے اپنے دور نوجوانی میں وہ فلم دیکھ رکھی ہو, تو وہ اچھی طرح جانتے ہیں, کہ مسرت شاہین اسی فلم سے شروع ہو کر اسی فلم کے اندر ہی اختتام پزیر ہو گٸیں تھیں , لیکن بہت سے فنکاروں کو درجنوں فلموں میں کام کرنے کے بعد بھی وہ فنی مقام نہیں مل پاتا , جو موصوفہ نے اس فلم میں” بے اعتناعی سے “ کیمرے کی طرف سے منہ موڑے موڑے ہی حاصل کر لیا , بلکہ بعد میں تو یہ بےاعتناعی کا چلن اور ادا پشتو فلموں کی اداکاراوں کے لٸیے لازمی قرار پا گٸی , گو کہ اس فلم کی اداکارہ شرمیلی غلافی آنکھوں والی عفیفہ ” نِمّی “ تھیں لیکن ان کو اس فلم میں مرکزی کردار کا موقع ملنے اور بہت پرکشش شخصیت کے باوجود وہ بلند مقام حاصل نہ ہو سکا , جہاں مسرت شاہین اسی فلم کے واسطے سے چڑھ بیٹھیں , گو کہ ان کو خود بھی پھر, تا زندگی اس چوٹی سے اترنے کا موقع نہ مل سکا , ویسے اس کی وجہ یہی سمجھ آتی ہے کہ موصوفہ نے شاید اس بلندی سے سیدھے منہہ یعنی چہرے کی طرف سے اترنے کی کوشش فرماٸی ہو گی , کیونکہ کسی بلند مقام جس سے اترنے کے لٸیے لمبی سی بانس کی سیڑھی لگی ہوٸی ہو، اس سے کبھی سیدھے اترا نہیں جا سکتا , اس سے صرف الٹا یعنی دیوار یعنی سیڑھی کی طرف منہہ کر کے ہی اترا جا سکتا ہے ۔ لہزا اس واحد مشہور فلم , جس نے مسرت شاہین کو ایک ” ٹرینڈ سیٹر “ اداکارہ بنا دیا , اور حیرت کی بات کہ بیرون ممالک کی کٸی اٹالین و دیگر فلموں میں اس ” رواج “ کوبہت بعد میں ایک مخصوص کیٹاگری کے نام سے ”جاری “ رکھا گیا , اب اس میں تو مسرت شاہین کا کوٸی قصور نہیں لیکن کردار ضرور ہے ۔

بعد میں پشتو فلمیں, اس زوق کی بابت , پٹھانوں کی انتہا پسند طبیعت کے پیش نظر ” طول و عرض میں اضافہ ہوتے ہوتے , تجریدیت “ کی طرف چل نکلیں، جب ” صبا گل “ کا دور، ان فلموں میں جاری ہوا , پوری فلم کے دوران ان عفیفہ کے چہرے کی جھلک دیکھنے کے لٸیے ایک بڑا داٸروی سفر داٸیں طرف سے یاباٸیں طرف سے , طے کر کے دوسری طرف پہنچنا پڑتا تھا , جو کہ صرف ” انتہا پسندوں “ اور برق رفتار کمانڈو صفت شاٸقین کے بس میں ہی تھا، کیونکہ ہم نے تو جب بھی ایسی کوشش کی تو , منزل پر پہنچنے سے قبل عام طور پر فلم ہی ختم ہو جایا کرتی , اور تماشاٸی ایک دوسرے سے نظریں چراتے ( نہ جانے کیوں ) اپنی اپنی چادروں کو مزید لپیٹتے سنیما ہاوس سے جلدی جلدی نکلنے کی کوشش کیا کرتے , شاید ان کو بھی ہماری طرح گھر والوں سے ” پوچھ کر “ آنے کی فرصت نہ ملی ہوتی ہو , اور اس زمانے کے رواج کے مطابق یہ یاد بھی عام طور پرفلم ختم ہونے اور باہر دن ڈھلنے کے بعد ہو چکے ملگجے اندھیرے کو دیکھ کر ہی آتی ہو , کیونکہ اندھیراہو جانے کے بعد گراونڈ میں کھیلنےکا بہانہ بھی کارگرنہیں رہا کرتا تھا , ویسے ایک ضمنی سی بات کہ باہر ہر جگہ سگریٹ نوشی کی اجازت ہونے کے باوجود جو طلب اور لطف سگریٹ نوشی کاسنیما ہال میں آیا کرتا وہ اور کہیں نہ آتا , شاید لطف , مزے اور پابندی کا آپس میں کچھ نہ کچھ پراسرار سا تعلق ضرور ہے ۔ مکمل آزادی اور اجازت بالآخر بےلطفی , بےرغبتی اور بےدلی پیدا کرتی ہے , اکثریت کی عاٸلی زندگی اس بات کا ثبوت ہے !

راولپنڈی میں ایسے معاملات میں، ناولٹی سنیما سے زیادہ قدیم اور شہرت یافتہ ” خورشید سنیما “ ہوا کرتا تھا, جو راولپنڈی کے ” دل “ راجہ بازار کے ایک طرف واقع ہوا کرتاتھا , اس سنیماکی شہرت پشتو فلموں اور اپنے مشہور زمانہ ” ساٸیڈ پروگرام “ کی وجہ سےہواکرتی تھی , اس تاریخی سنیما کی اپنی قدامت کے علاوہ ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ ہال میں سب سےپیچھے رنگین نواروالی بالکل چھوٹی اور نیچی کرسیاں رکھی گٸی تھیں , جو ان دنوں عام طور پر ٹینٹ سروس والے شادی بیاہ کے موقع پر فراہم کیا کرتے، جبکہ اگلی قطاروں میں وہ جو بلند بارعب پشت والی عالیشان کرسیاں، آج کل عدالتوں میں چیف جسٹس صاحبان کےلٸیے رکھی جاتی ہیں , ان دنوں ویسی ہی شاندار اور بلند پشت والی کرسیاں خورشید سنیما میں سب سے اگلی چار روز یعنی قطاروں میں رکھی جاتی تھیں اور ان کی سب سے آگے رکھے جانے کی کوٸی وجہ ہمیں تو اس وقت سمجھ نہیں آتی تھی , نہ ہی کبھی آگے جا کر دیکھنے کی ہمت ہوئی لیکن قیاس یہی ہے کہ جو عالی قدر برِیڈ آج کل ایسی کرسیوں پر براجمان ہوے دکھاٸی دیتی ہے, وہی اپنے معصوم بچپن میں ، خورشید سنیما کی ان اگلی قطاروں میں رکھی ان عالیشان اونچی کرسیوں پر براجمان ہوتے ہوں گے ، لیکن ایک بات تو طے ہے کہ ان کی معصومیت کا، وہاں ان بلند ، عالیشان کرسیوں پر براجمان ہونے کے باوجود محفوظ رہنا ” بوجوہ “ تقریباً تقریباً ناممکن ہی تھا , آج اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک عام آدمی کو فراہمی انصاف کی حالت سے تو ایسا لگتا ہے , کہ قوم سے شاید ” اُن “ دنوں اِن حضرات سے ” خورشید سنیما “ والے سلوک , کا بدلہ ہی لیا جا رہا ہے , اب کوٸی پوچھے کہ اُس سلوک میں ہمارا کیا قصور تھا , جو ہم سے وہ بدلہ لیاجا رہا ہے , بدلہ لینا ہے, توآج کے ” کے پی کے “ میں جا کر , ان زیادتیوں کے باقی ماندہ ” زندہ زمہ داروں “ سے براہ راست لیں , اب تو آپ کو ” مکمل اختیار بھی حاصل ہے, دن کو رات کریں , یا رات کو دن, کس کی مجال جو سوال کرے ۔

تو ” موضوع “ پر واپس آتے ہیں , کہ ہمیں تو سنیما انتظامیہ کے زیادہ تر پٹھان ہونے کی وجہ سے کرسیوں کی اس ترتیب کےبارے میں پوچھنےکی ہمت بھی نہ پڑتی, لہزا کٸی بار پچھلی نیچی نواڑی کرسیوں پر کھڑے ہو کر بھی اچک اچک کر دیکھنے کے باوجود سکرین پر جلوہ افروز مسرت شاہین کی سڈول بلکہ گول گول پنڈلیوں کے دیدار سے محروم رہتے , گورے گورے گتھے گُتھے پیارے پیارے پیروں کا دیدار تو سواے اندازے یا قیاس کے ممکن ہی نہ ہوتا تھا , لیکن یہ مقام ایسا تھا کہ قیاس یا تصور کٸیے بغیر بھی چارہ نہ ہوا کرتا تھا , آخر نام نہاد ” اپر سٹال “ کا ٹکٹ جو خریدا ہوا ہوتا تھا , جس کی نسبتاً گراں داموں خریداری کی دو وجوہات میں سے ایک تو یہ تھی, کہ ہال میں سب سے پیچھلی قطار میں بیٹھنے کا ” مقصد “ پورا ہوجایا کرتا, اور دوسری وجہ ۔۔۔ ہمیں یاد نہیں ۔

بہر حال مسرت شاہین کا کبھی کبھی دوران فلم شاٸقین کی طرف لہظہ بھر کو مڑ کر دیکھنا ہی طوفان برپا کر دیا کرتا , اور ہم سوچتے رہ جاتے کہ یہ ایک لہظہ کا مڑ کر دیکھنا اگر طوفان برپا کر دیتا ہے, تو اگر وہ دوسری اردو فلموں کی ” شین قاف “ سے درست اداکاراوں کی طرح کیمرے کی طرف دیکھ کر ” روایتی “ اداکاری فرماتیں تو کیسا لگتا , یہاں پھر تصور “ کے ” ٹول “ کو ہی کام میں لانا پڑتا , اور تب سمجھ میں آتا کہ فنون لطیفہ میں سے فلم کو کیوں شاٸقین کی زہنی تربیت “ کا آلہ سمجھا اورکہا جاتا ہے , تخریب اور تعمیر , دونوں مقاصد کے لٸیے , دونوں کا ثبوت سامنے ہے ۔ ویسے آپ نے یہ بتا کرکہ ہمارے پسندیدہ ” وسی بابا “ دراصل ” چوہدری “ ہیں ہمارے ان کےبارےمیں تعمیرکٸیے ہوے ” تصورات کےمحل “ مسمار کر دٸیے ہیں ۔ ہم نے کیاکیا سوچاہوا تھا , لیکن بقول شاعر ” بیاں ہوا تو گیا , حسن اس فسانے کا ” لہزا رہنے ہی دیں ۔

واپس کریں