دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آزاد کشمیر کی چودھری انوار حکومت آئین و قانون کی خلاف ورزی کی مرتکب ، سینکڑوں غیر ریاستی شہریوں کو تعینات کیے جانے کا انکشاف ، سپریم کورٹ میں کونسل کے ملازمین کی تعیناتیاں چیلنج
اسلام آباد( کشیر رپورٹ) نگران وزیراعظم پاکستان ،چئیرمین کشمیر کونسل کی منظوری سے گزشتہ ماہ وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان کی طرف سے کشمیر کونسل کے اختیارات آزادکشمیر حکومت کو سونپے جانے کا معاملہ قانونی و آئینی تنازعات کا باعث بن گیا، کشمیر کونسل میں تعینات سینکڑوں غیر ریاستی ملازمین کو آزادکشمیر سول سروس کا حصہ بنانے کے عمل کو بھی آئینی و قانونی ماہرین نے غیر قانونی قرار دیتے ہوئے تنازعہ جموں کشمیر پر پاکستان کے عالمی فورمز پر اپنائے گئے موقف کو کمزور کرنے کے مترادف قرار دیتے ہوئے اسے بھارت کی طرف سے کشمیر کی خصوصی حیثیت بارے آرٹیکل 370 اور 35 اے کی طرز کے اقدام کو اپنانے کی کوشش قرار دیا ہے جبکہ آزادکشمیر کی عدالت عالیہ اور عدالت عظمی کشمیر کونسل میں غیر ریاستی ملازمین کی بھرتیوں کو پہلے ہی غیر قانونی قرار دے چکی ہیں۔دوسری جانب وزیر اعظم چوہدری انوار الحق نے منتخب ممبران کونسل کو مکمل نظر انداز کر رکھا ہے، کشمیر کونسل ممبران کی منظوری کے بغیر کونسل کے تمام اختیارات کو آزادکشمیر حکومت کو منتقل کیے جانے کے چاروں نوٹی فکیشنز کو قانونی و آئینی ماہرین نے بھی خلاف قانون قرار دے دیا ہے۔ ماہرین کے مطابق آزادکشمیر کے آئین میں کشمیر کونسل اور اس کا سیکرٹریٹ اسلام آباد میں موجود ہے جس کو ختم نہیں کیا جاسکتا ، کونسل ذرائع کا کہنا ہے کہ آزادکشمیر کے وزیر اعظم چوہدری انوار الحق کشمیر کونسل سیکرٹریٹ کو ختم کرتے ہوئے اور اس کے لاجز کو وزرا حکومت کی رہائش اور کونسل سیکرٹریٹ کی عمارت کو طاقتور اداروں کو تحفہ دینے کے در پے ہیں جبکہ آزادکشمیر قانون ساز اسمبلی کے منتخب چھ ممبران کے علاوہ تین سینیٹرز اور تین وفاقی وزرا بھی اس کونسل کے ممبران ہیں جبکہ وزیر اعظم پاکستان کشمیر کونسل کے چیئرمین ہیں، کونسل کے منتخب ممبران سے معاون سٹاف کی سہولیات بھی واپس لے لی گئی ہے۔

سٹیٹ ویوز میں شائع خواجہ کاشف میر کی رپورٹ کے مطابق آئینی و قانونی ماہرین کا غیر ریاستی ملازمین کی آزادکشمیر میں تعیناتیوں بارے کہنا ہے کہ ماضی میں کشمیر کونسل نے اپنے رولز میں ترمیم کرکے ریاستی لوگوں کی بجائے پاکستانی شہریوں کو بھرتی کرنے کی گنجائش رکھی تھی۔ ان رولز کو آزاد کشمیر ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا اورہائی کورٹ نے ان رولز کی وہ شرط کالعدم قرار دے دی تھی، کشمیر کونسل نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی جس پر سپریم کورٹ نے وہ اپیل خارج کردی تھی مگر کونسل نے اس فیصلے پر عملدرآمد نہیں کیا ۔ قانونی ماہرین کے مطابق ان ملازمین کی آزادکشمیر میں تعیناتیاں غیر قانونی ہیں ،کشمیر کونسل میں جو پاکستانی شہری بھرتی ہوئے تھے قوانین میں تبدیلی کرتے ہوئے ان ملازمین کی حد تک پشتنی باشندہ کی شرط سے استثنے دینا ہوگا وگرنہ انہیں ملازمت سے فارغ کتنا قانونی تقاضا ہے۔ ذرائع کے مطابق وزیر اعظم آزادکشمیر سے کئی مرتبہ درخواست کی گئی کہ کشمیر کونسل کے منتخب نمائندوں سے ملاقات کی جائے جس میں کونسل ممبران ان تمام امور پر اپنی رائے کا اظہار کر سکیں لیکن وزیر اعظم چوہدری انوارالحق کونسل ممبران سے با قابطہ ملاقات کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ ممبران کونسل کا کہنا ہے کہ کشمیر کونسل کا وزارت امور کشمیر سے کوئی تعلق باقی نہیں ہے، کونسل کے بارے میں تمام اختیارات ممبران کونسل کا مینڈیٹ ہیں، تیرویں آئینی ترمیم کے بعد جتنے بھی کونسل کے ڈیپوٹیشن پر ملازم تھےآزاد حکومت نے ان ملازمین کو واپس کرنا تھا، کونسل کے غیر ریاستی ممبران کو وزارت امور کشمیر میں بھیجا جا سکتا تھا لیکن جلد بازی کرتے ہوئے غیر قانونی کام کیا گیا۔ کونسل میں موجود ایسے ملازمین جن کا سروس ریکارڈ انتہائی خراب اور ان پر سنگین نوعیت کے مقدمات درج ہیں ان کو کونسل سے نکالنے کی بجائے چار چار اہم چارج ان کو سونپ دیئے گئے ہیں جبکہ ڈیپوٹیشن پر کشمیر کونسل میں ملازمت کرنے والے تمام ملازمین کو آزادکشمیر کی سول سروس کا حصہ بنانا غیر قانونی ہے، ان ملازمین کی خدمات اپنے اصل محکمہ جات کو سونپی جانی چاہیے تھی لیکن آزاد حکومت نے انہیں اپنے زمہ لے لیا ہے۔ یاد رہے کہ وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان نے 30 جنوری کو کونسل کے اختیارات منتقل کرنے کے حوالے سے چار نوٹی فکیشن جاری کیے تھے۔ سینئر وزیر کرنل(ر) وقار احمد نور نے وزرا کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ کشمیر کونسل سے متعلق جملہ اثاثہ جات، ملازمین ،گاڑیوں اور منقولہ و غیر منقولہ جائیداد کو آزادکشمیر حکومت کو منتقل کر دیا گیا ہے ۔کشمیر کونسل کے 44 ملازمین جن میں 35 ریگولر اور 9 ڈیپوٹیشن پر ہیں کشمیر کونسل میں رہیں گے باقی 140 ریگولر ملازمین،77 کانٹیجنٹ ملازمین اور ایک کنٹریکٹ ملازم کو آزادکشمیر کے محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن سے منسلک کر دیا گیا ہے۔36 گاڑیاں آزادکشمیر حکومت کو منتقل کر دی گئی ہیں اور آزادجموں و کشمیر لاجز بلڈنگ کو بھی آزادکشمیر حکومت کو منتقل کر دیا گیا ہے ۔

سال 2018 میں آزادکشمیر میں وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان نے پاکستان میں مسلم لیگ ن کی حکومت کے دوران تیرویں آئینی ترمیم کا مسودہ وفاقی حکومت سے منظور کرایا تھا ، اس مسودے کی منظوری کے بعد آزادکشمیر قانون ساز اسمبلی نے اس ترمیم کی دو تہائی اکثریت سے منظوری دے دی تھی۔ اس ترمیم کے نتیجے میں کشمیر کونسل سے مالی اور انتظامی اختیارات آزادکشمیر حکومت کو سونپ دیئے گئے تھے۔ کشمیر کونسل کی بیوروکریسی نے آزادکشمیر حکومت کے ماتحت ہونے سے انکار کر دیا تھا جبکہ اہم دستاویزات سمیت کونسل کے حوالے آزادکشمیر حکومت کے حوالے نہیں کیے گئے تھے۔ 2018 سے 2022 تک آزادکشمیر حکومت کونسل کے تین سو سے زائد ملازمین کو بغیر کام کیے تنخواہیں اور مراعات دیتی رہی تاہم چوہدری انوار الحق وزیر اعظم بنے تو انہوں نے کشمیر کونسل ملازمین کو تنخواہیں دینے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ وزیر اعظم پاکستان کی ہدایت کے باوجود آزادکشمیر حکومت نے ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی نہیں کی تھی تام رواں سال جنوری کے اختتام پر کشمیر کونسل کے اثاثے اور ملازمین کو آزادکشمیر حکومت کے حوالے کیا گیا تو ملازمین کی تنخواہیں اور مراعات بحال کر دی گئی ہیں۔ سینکڑوں ملازمین کو سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن میں جوائیننگ دے دی تھی اور ان ملازمین کو فلحال کہیں تعینات نہیں کیا گیا۔ ملازمین کو کہا گیا ہے کہ اپنے گھروں میں آرام کریں آپ کو جلد ہی تعینات کر کے اطلاع کی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق کونسل کے ملازمین نے 20 کروڑ روپے سے زائد کے بلات تیار کر لیے ہیں جو آزادکشمیر حکومت سے منطور کرائے جائیں گے۔

دوسری جانب رفعت اللہ بیگ نے مقدمہ بعنوانی " رفعت اللہ بیگ بنام وزارت امور کشمیر وغیرہ" میں وزارت امور کشمیر ، کشمیر کونسل ، آزاد حکومت کے ساتھ ساتھ کشمیر کونسل کے پاکستانی شہریت کے حامل ملازمین کو فریق مقدمہ بناتے ہوئے سپریم کورٹ آزادکشمیر میں چیلنج کر دیا ہے اور رٹ سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے فریقین کو۔ سٹسز بھی جاری کر دئیے گئے ہیں۔ دائر رٹ میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ آزادجموں کشمیر کا عبوری آئین، پاکستانی شہریت کے حامل افراد کو آزاد کشمیر حکومت میں حق ملازمت نہیں دیتا۔ مگر چوہدری انوار الحق کی حکومت اور وزارت امور کشمیر نے ملی بھگت کرکے سینکٹروں پاکستانی شہریوں کو جن میں چوکیداروں اور چپڑاسیوں سے لیکر اعلی افسران تک شامل ہیں کو مستقل بنیادوں پرآزاد حکومت میں نہ صرف تقرر اور تعینات کیا ہے بلکہ پاکستانی شہریت کے حامل مستقل اور ڈیپوٹیشن پر آئے ملازمین کو کشمیر کونسل میں ہی تعینات رکھا ہے۔رٹ کے مطابق انوار حکومت کے اس غیر آئینی و غیر قانونی اقدام سے پاکستانی شہری کشمیر کونسل کے ساتھ ساتھ اب آزاد حکومت کے تمام اداروں میں بھی پھیل گئے ہیں جوکہ آئین کے آرٹیکل 2، 31، 49 اور 51 الف کی صریحا خلاف ورزی ہے۔ جبکہ آئین کے آرٹیکل 31 کے ضمن 4 اور شق 18 کی رو سے کشمیر کونسل کے تمام ملازمین بالخصوص پاکستانی شہریت کے حامل افراد کی تنخواہ اور پنشن کی ذمہ داری حکومت پاکستان کی ہے جسے غیر آئینی طور پر انوار حکومت نے اپنے سر لے رکھا ہے۔ اس اپیل میں یہ استدعا کی گئی ہے کہ تمام پاکستانی شہریت کے حامل ملازمین کو چاہے وہ کشمیر کونسل میں ہوں یا آزاد حکومت میں انہیں فوری برطرف کیا جائے۔ انکے پنشن کے اخراجات آئین کے مطابق حکومت پاکستان ادا کرے۔ پاکستانی شہریت کے حامل ملازمین جن میں فیصل نثار جوائینٹ سیکرٹری ، سہیل احمد ڈپٹی سیکرٹری، صمد طالب سیکشن آفیسر اور عزیر رزاق سیکشن آفیسر وغیرہ کو آئین کے آرٹیکل 51 ضمن 3 کے تحت فوری طور پر برطرف کیا جائے۔ سپریم کورٹ نے رٹ قابل قبول کرتے ہوئے فریقین مقدمہ کو نوٹس جاری کر دیئے ہیں۔

واپس کریں