دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ملک میں آئین کی پامالی ،سنگین آئینی بحران کا سخت نوٹس نہ لینے اور اپوزیشن کے محتاط روئیے پر عوامی حلقوں کی طرف سے سوشل میڈیا پہ سخت تنقید
No image اسلام آباد( کشیر رپورٹ) عمران خان حکومت کی طرف سے اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی صورتحال میں غیر آئینی اقدامات اورسپریم کورٹ کی طرف سے فوری ریلیف فراہم نہ کئے جانے پر اپوزیشن کی طرف سے سخت جوابی اقدامات کے بجائے محتاط روئیہ اپنانے پر سوشل میڈیا پر عوامی حلقو ں کی طرف سے متعلقہ حلقوں کے علاوہ اپوزیشن کے خلاف بھی ناراضگی اور تنقید کا اظہار کیا جا رہاہے۔سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی طرف سے از خود نوٹس کے مقدمے کی سماعت منگل کو تیسرے دن تیسری سماعت ہوئی اور اگلی سماعت اگلے دن تک ملتوی کی گئی ہے۔ اپوزیشن رہنمائوں کی طرف طرف سے موجود ہ صورتحال پر بیانات تو دیئے جا رہے ہیں لیکن عملی طور پر عوامی احتجاج کی قیادت نہ کرنے پر عوامی حلقو ں کی تشویش میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

سوشل میڈیا پہ عوامی حلقوں کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ اپوزیشن محتاط روئیے کی حکمت عملی تبدیل کرے۔آج اگر اپوزیشن نے آئین کی پامالی پر میدان عمل میں عوام کی قیادت نہ کی تو عوام کا اعتماد بری طرح متاثر ہو گا۔آئین کی پامالی اور عدلیہ کی طرف سے آئینی خلاف ورزی پر سخت کاروائی نہ کرنے کی صورتحال میں اپوزیشن کیا کرے گی؟ اپوزیشن حالات حاضرہ پر رننگ کمنٹری کے بجائے عوام کو یہ بتائے۔

عوامی حلقوں کا سوشل میڈیا پہ کہنا ہے کہ آئین و قانون کے تحفظ میں تاخیر سے ملک و عوام کو آئین شکنوں کے رحم و کرم پر چھوڑا گیا ہے۔عدم اعتماد کی تحریک اسمبلی میں جمع ہونے کے بعد وزیر اعظم اسمبلی تحلیل نہیں کر سکتا، عمران خان کا اقدام غیر آئینی ، غیر قانونی ہے۔سپریم کورٹ میںمقدمے کی سماعت اسی طرح چلتی رہی تو ڈالر کے مقابلے میں روپیہ دو سو روپے سے بھی تجاوز کر جائے گا۔آئین شکن مشرف سے لاڈ پیار کے عریاں نظاروں کے بعد اب ملک اور عوام دوسرے آئین شکن عمران خان سے ہونے والے لاڈ پیار کے نظارے دیکھ رہے ہیں۔یہ بھی کہا گیا کہ آئین شکنی تو صاف ظاہر ہے، کشمیری مہاورہ ہے کہ '' سوکھی مچھلی کے اعضائے مخصوصہ تلاش کرنا بے فائدہ ہے'' ، اسی طرح عمران خان اور اس کے حواریوں کی آئین شکنی کے ثبوتوں کی تلاش سوکھی مچھلی کے اعضائے مخصوصہ کی تلاش کی طرح ڈھونڈی جا رہی ہے۔

پاکستان میں عوامی حاکمیت کے قیام کی جمہوری جدوجہد سب سے معتبر اور مقدس ہے ملک میں غاصبانہ حاکمیت کا کوئی بھی جواز جائز نہیں ہو سکتا۔2تاریخ کو اسمبلی سیکرٹریٹ نے 3تاریخ کا جو ایجنڈا جاری کیا تھا اس میں ووٹنگ شامل تھی، عدم اعتماد کی تحریک جمع کرتے ہوئے مخصوص بنیادوں پہ نا منظور کر سکتا تھا لیکن کیونکہ عدم اعتماد تحریک کے تمام لوازمات پورے تھے اس لئے یہ ناجائز طریقہ استعمال کیا جس کی آئین و قانون میں کوئی گنجائش نہیں، آدھا ملک تو توڑ دیا ، اب کیا باقی ماندہ پاکستان کے بھی ٹکڑے کرنے ہیں؟

آئین و قانون کے مطابق عمران خان اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے خلاف نہیں جا سکتا تھا، لیکن ہوا کیا؟ اور سپریم کورٹ نے سوائے تاریخیں دینے کے کیا کر لیا؟ حالانکہ ملکی سنگین ترین صورتحال میں پہلی سماعت میں ہی معاملہ سدھارنا اس کی ذمہ داری تھی ، یہاں ایک سرکاری محکمے کی ہی دھونس ، ہٹ دھرمی پر مبنی غاصبانہ حاکمیت چلتی ہے، آئین و قانون نہیں، ہائیبرڈ نظام، ڈیپ سٹیٹ ، اگر آئین و قانون ہی بالا تر ہوتا تو آج پاکستان کا یہ حال نہ ہوتا ۔اب آئین ہی نہیں اپوزیشن کے لئے عوام میں ان کی ساکھ بھی دائو پر ہے۔مسلم لیگ(ن) پیپلز پارٹی اور مولانا فضل الرحمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوامی اضطراب کی نمائندگی میں عوامی احتجاج کی قیادت کریں تا کہ اداروں اور دنیا کو معلوم ہو کہ پاکستان میں شدت سے عوامی تشویش پائی جا رہی ہے۔



واپس کریں