دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
'بی بی سی' کے فیکٹ چیک نے انڈیا کے جھوٹے پروپیگنڈے کو بے نقاب کر دیا
No image لندن۔ برطانیہ کے میڈیا ادارے 'بی بی سی' نے اپنی ایک'' فیکٹ چیک'' رپورٹ سے ثابت کیا ہے کہ انڈیا کی حکومت اور فوج کی طرف سے بھر پور طور پر جھوٹ اور غلط بیانی سے کام لیا جاتا ہے۔' بی بی سی' نے اپنی اس رپورٹ میں انڈیا کی طرف سے اس پروپیگنڈے کو جھوٹ ثابت کیا ہے جس میں یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ انڈیا کی فوج نے لداخ کے علاقے میں کوہ کیلاش پہ قبضہ کر لیا ہے۔
' بی بی سی' رپورٹ کے مطابق پچھلے ایک ہفتے سے سوشل میڈیا پر یہ دعوی کیا جارہا ہے کہ انڈین فوج نے کوہِ کیلاش اور مانسروور جھیل پر قبضہ کرلیا ہے۔ اس دعوے کو روزانہ کی بنیاد پر پھیلایا جارہا ہے۔ اس خبر کے ساتھ ایک تصویر بھی کافی شیئر کی جارہی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ انڈین فوجی کوہ کیلاش پر 'ترنگا' یعنی انڈین پرچم لہرا رہے ہیں۔اس میں یہ دعوی کیا گیا ہے کہ یہ کوہ کیلاش کو انڈیا میں شامل کیے جانے کے بعد کی تصاویر ہیں۔
اسی تصویر کو میجر جنرل جی ڈی بخشی(ر)کے ٹوئٹر اکانٹ سے بھی ٹویٹ کیا گیا ہے لیکن اس میں یہ لکھا گیا ہے کہ انڈین فوج کیلاش پہاڑ کو اپنے قبضے میں لینے کی طرف گامزن ہے۔اس ٹویٹ کو تین ہزار سے زیادہ مرتبہ ری ٹویٹ کیا گیا ہے۔کیلاش پہاڑ پر قبضے کی یہ خبر یہیں نہیں رکی۔ اس کے بعد سوشل میڈیا پر ایک نجی ٹی وی چینل کی خبروں کا سکرین شاٹ لے کر بہت سے صارفین نے ٹویٹ کیا کہ انڈین فوج نے کیلاش پہاڑی سلسلے پر قبضہ کرلیا ہے۔
' بی بی سی' کے فیکٹ چیک میں اس تصویر کا جائزہ لیا گیا جس میں انڈین فوجی ترنگا لہرا رہے ہیں اور پیچھے کیلاش پہاڑ نظر آ رہا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ '' جب ہم نے گوگل ریورس امیج کے ذریعے اس تصویر کو تلاش کیا تو ہمیں ان فوجیوں کی تصویر ملی جنھوں نے بہت سے مقامات پر انڈین پرچم لہرایا تھا لیکن پس منظر میں کہیں کیلاش پہاڑ نہیں تھا۔اس تصویر کو اخبار انڈیا ٹوڈے کی ویب سائٹ پر 26 جنوری سنہ 2020 کو ایک پِکچر گیلری میں استعمال کیا گیا تھا اور اس میں بتایا گیا تھا کہ کیسے جموں وکشمیر کے ایل او سی پر 71 ویں یوم جمہوریہ کے موقعے پر بچوں اور فوجی جوانوں نے یہ قومی تہوار منایا۔ریورس امیج سرچ کی تلاش کے دوران ان نو فوجیوں کی ایک اور تصویر ایک فیس بک پیج پر ملی جس میں پانچویں جوان نے اپنے ہاتھوں میں ترنگا لے رکھا ہے اور اس تصویر کو 17 جون کو شیئر کیا گیا تھا۔جب ہم نے یانڈیکس سرچ پورٹل کے ذریعے اس تصویر کو ریورس سرچ کیا تو یہی تصویر 17 اگست 2020 کو ایک یوٹیوب ویڈیو میں استعمال ہوئی تھی۔کیلاش پہاڑ پر فوجیوں کے مبینہ جھنڈے لہرانے والی تصویر اور ان تصاویر سے موازنے کے بعد یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس میں پس منظر کے سوا سب کچھ ایک جیسا ہے۔اس سے صاف ظاہر ہے کہ فوجیوں کی تصویر کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے اور پس منظر میں مانٹ کیلاش چسپاں کر دیا گیا ہے۔
' بی بی سی' کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر ایک نجی ٹی وی چینل کے حوالے سے بتایا جارہا ہے کہ انڈیا نے کیلاش پہاڑی سلسلے پر قبضہ کرلیا ہے۔دلی یونیورسٹی میں جغرافیہ کے ایک پروفیسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انڈیا کی سرحد کے اندر کیلاش رینج موجود نہیں ہے۔وہ کہتے ہیں: 'کیلاش پہاڑی سلسلہ مغربی تبت کے ٹرانس ہمالیہ میں موجود ہے۔کیلاش رینج میں کوہ کیلاش آتا ہے جو لداخ رینج کے خاتمے کے بعد شروع ہوتا ہے۔ لداخ میں صرف ہائر ہمالیہ کی لداخ رینج ہے مغربی تبت میں ختم ہوتی ہے اور وہاں سے کیلاش کی حدود کا آغاز ہوتا ہے۔'
لداخ میں ایل اے سی پر انڈیا اور چین کے درمیان اپریل سے تنازع جاری ہے۔اسی سلسلے میں 15 جون کو لداخ کی وادی گلوان میں انڈیا اور چین کے فوجیوں کے مابین ایک جھڑپ ہوئی تھی جس میں 20 انڈین فوجی ہلاک ہوگئے تھے۔اس کے بعد 29 اور 30 اگست کی درمیانی شب کو دونوں ممالک کے درمیان سرحد پر تنا کی اطلاعات موصول ہوئیں لیکن دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر اشتعال انگیزی کے الزامات عائد کیے ہیں۔
انڈیا کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے منگل کو لوک سبھا (پارلیمان کے ایوان زیریں)میں کہا تھا کہ چین نے ایل اے سی یعنی لائن آف ایکچول کنٹرول پر بڑی تعداد میں فوج تعینات کی ہے اور اس نے زیادہ مقدار میں گولہ بارود بھی اکٹھا کیا ہے۔ راج ناتھ سنگھ نے جمعرات کو راجیہ سبھا(ایوان بالا)میں کہا کہ لداخ میں انڈیا کو ایک چیلنج درپیش ہے اور وہ اس چیلنج کا سامنا کرے گا۔لوک سبھا اور راجیہ سبھا یعنی پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے سرحدی علاقے میں کسی تبدیلی کے بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انڈیا نے کسی بھی جگہ پر قبضہ نہیں کیا ہے۔بی بی سی ہندی کی فیکٹ چیک تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ کوہ کیلاش کی بتائی جانے والی تصاویر مکمل طور پر جعلی اور فرضی ہیں اور انڈین فوجیوں نے مانٹ کیلاش پر کوئی قبضہ نہیں کیا ہے۔

واپس کریں