مقصود منتظر
اس وقت کشمیر میں شمال سے لیکر جنوب تک اور مغرب سے لیکر مشرق تک مجاہدین کا کنٹرول ہے ۔ ہر شہر اور ہرگاؤں کے چوک چوراہوں پر مجاہدین کی ٹولیاں تعینات ہیں ۔ کہیں کہیں ہوائی فائرنگ کی آواز بھی سنائی دے رہی ہیں اور فلک شگاف نعروں کی صدائیں بھی سماعت سے ٹکرارہی ہے۔ لوگ مجاہدین کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہوکر ، یہ کشمیر ہمارا ہے اس پر راج ہم کریں گے ، کے نعرے بلند کررہے ہیں ۔گھر کی کھڑکی سے ذرا جانکیں تو بعض گھروں پر ہوا میں رقص کرتے ہوئے سبز پرچم بھی نظر آرہے ہیں ۔۔ کل چودہ اگست ہے اور چھوٹا پاکستان کہلانے والا ٹاون سوپورکے علاقہ زینہ گیر میں مسلح مجاہدین پریڈ کی فائنل تیاریوں میں مصروف ہیں ۔ اس بار بارہمولہ کے علاوہ دیگر اضلاع کے جنگجو میں اس سالانہ پریڈ میں شرکت کررہے ہیں۔ یہ تاریخی پریڈ وارپورہ گاؤں کے قریب وولر جھیل کے کنارے وسیع میدان میں ہونے والی ہے۔ سبز رنگ کی قیمض شلوار اور فورس ٹین جاگرس پہنے ہزاروں اسلحہ بردار نوجوان اپنی اپنی پلٹون میں مشقیں کررہے ہیں ۔ مشقوں میں وقفے کے دوران مہمان مجاہدین کی خوب خاطر داری کی جارہی ہے۔ ان کیلئے وازوان کے علاوہ بڑے پیمانے پر کھانے پینے کا بندوست کیا جاچکا ہے۔ درجنوں بکرے اور گائے بیل ذبح کیے جاچکے ہیں ۔۔۔ پچھلی سال کی نسبت اس سال پریڈ دیکھنے گردو نواح کے درجنوں گاؤں کے مکینوں سمیت دیگر اضلاع اور قصبوں کے لوگ بھی آرہے ہیں ۔ آس پاس کے علاقوں میں سیکیورٹی کو یقینی بنانے کیلئے مسلح نوجوان ٹرکوں پر گشت کررہے ہیں۔ ہر سو آزادی کے ترانوں کی گونج ہے ۔
آج چودہ اگست ہے، موسم دلکش اور دن خوشگوار ہے۔ جھیل کنارے آباد گاؤں میں پرچموں کی بہار ہے۔ وولر کے کنارے پر واقع نمل کا میدان لوگوں سے کھچا کھچ بھرچکا ہے ۔ پرچم اٹھائے اور صدائے اللہ اکبر بلند کرتے ہوئے مجاہدین چبوترے پر تقریب کے مہمان خصوصی کو سلامی پیش کررہے ہیں۔ پریڈ دیکھنے والے لوگ بھی پرجوش نعروں کا جوش و جذبے سے جواب دے رہے ہیں ۔ یہ صدائیں دور دور تک گونج رہی ہیں۔ آزادی پسند جنگجووں کی ٹولیوں کی قیادت ان کے ایریا کمانڈرز کررہے ہیں ۔ دراز قد کے مہمان خصوصی چبوترے پر ہاتھ لہر کر مجاہدین کو داد دے رہے ییں ۔۔۔ مہمان خصوصی مسلح تحریک کے آپریشنل کمانڈر عبدالمجید ڈار ہیں۔
بات اس دور کی ہورہی ہے جب کشمیر کے طول وعرض میں کشمیری مجاہدین کا بول بالا تھا۔ یہ سنہ انیس سو بانوے کا کشمیر ہے ۔ مسلح تحریک عروج پر تھی ۔ تین سال پہلے انیس سو نواسی میں بھارتی قبضے کیخلاف اچانک جو مسلح جدوجہد شروع ہوئی تھی وہ اب ہر پوری وادی میں پھیل چکی تھی۔ اسی دور میں کشمیر کے نوجوان ٹرکوں پر سوار ہوکر سوپور اور کپواڑہ سے ہوتے ہوئے اس پار آزاد کشمیر جاتے تھے۔ ایک ایک گروپ سینکڑوں نوجوانوں پر مشتمل ہوتا تھا۔ چند ہفتے بعد وہ ہتھیار سمیت واپس آکر تحریک میں باضابطہ طور پر شامل ہوجاتے تھے۔
اسی دور میں لوگوں اپنے مسائل کے حل کیلئے سرکاری عدالتوں کے بجائے مجاہدین کی قائم کردہ شرعی عدالتیں کا رخ کرتے تھے۔ یہی وہ وقت تھا جب کہا جاتا تھا کہ کشمیر کی آزادی کا اعلان بس ہونے والا ہے۔ ہندوستان کے حکمران بھوکھلاہٹ ، فوج اور ایجنسیاں تقریبا کشمیر چھوڑنے کا مائنڈ بنا چکی تھیں۔۔سنہ پچانوے تک حالات اسی طرح رہے اور پھر بھارت نے آہستہ آہستہ اپنی گرفت دوبارہ مضبوط کی ۔ چند سال میں ہزاروں نوجوانوں کو شہید کردیا گیا اور تحریک کمزرو ہوتی چلی گئی۔ بھارتی حکمرانوں کو ابھی بھی کشمیر کھوجانے کا ڈر سونے نہیں دے رہا تھا ایسے میں وہ مجاہدین کوبار بار مذاکرات کی پیش کش بھی کرتے رہے۔ ابھی چونکہ مجاہدین کی طاقت کا کچھ بھرم بچا تھا جس کا عسکری کمانڈر مجید ڈار نے بھرپور فائدہ اٹھانے کیلئے کی کوشش کی۔سنہ دوہزار دو میں بھارت اور کشمیری مجاہدین کے درمیان پہلی بار (جو آخری بھی ثابت ہوئے) مذاکرات ہوئے۔ دونوں فریق ٹیبل پر آگئے۔ مجاہدین کی جانب سے عبدالمجید ڈار اور عامر خان نے نمائندگی کی ۔ حریت رہنما بھی بات چیت کے پہلے دور میں شامل ہوئے۔
چونکہ بندوق کے بل بوتے پر کشمیری فریق کے طور پر ان مذاکرات میں شامل ہوئے ۔یہ بات پاکستان کی اس وقت کی اسٹبلشمنٹ کو پسندنہیں آئی اوردوسرا دور شروع ہونے سے پہلے ہی کشمیر کی عسکری قیادت اور امیر حزب المجاہدین پرمذاکرات ختم کرنے کیلے دباو ڈال دیا۔ عبدالمجید ڈار میدان میں رہتےہوئے روز نوجوانوں کو شہید ہوتے دیکھ رہے تھے۔ وہ یہ سمجھ چکے تھے کہ اتنی بڑی تعداد میں ہونے والی شہادت کے بعد تحریک آزادی ہمشہ آج والا دم خم نہیں رہ سکتا ۔۔وہ مجاہدین اور بندوق کے زور کا پورا فائدہ حاصل کرکے کشمیریوں کو مسئلہ کااصل فریق منواتےچاہتے تھے۔ اس دور کی جھلک انڈین خفیہ ایجنسی را کے سابقہ چیف دلت کی کتاب میں بھی ملتی ہے۔۔ مسلح جدوجہد کے سب سے باصلاحیت عکسری کمانڈر عبدالمجید ڈار کو کشمیریوں کی وکالت اور نمائندگی کرنے پر راستے سے ہٹادیا گیا۔ خفیہ ہاتھوں یا منصوبہ سازوں نے انہیں تئیس مارچ دوہزار تین کو اپنے نامعلوم ایجنٹوں کےہاتھوں قتل کروادیا۔مجید ڈار کی شہادت اصل میں کشمیریوں کی جدوجہدآزادی کو پیرالائز کرنے کی سازش تھی۔ چونکہ تنظیم کے دباؤ کو مسترد کرچکے تھے اور وہ مذاکرات جاری رکھنے کے حامی تھےاس لیے انہیں راہ میں حائل پتھر سمجھ کر ہٹادیا گیا۔
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کی تحریک آزادی کے دوران ہزاروں نوجوانوں کے ساتھ باصلاحیت عسکری و حریت رہنماوں نے جام شہادت نوش کیا مگر مجید ڈار کی موت بڑا سانحہ تھا۔ یہ وہ شخص تھا جو آج کی صورتحال پہلے ہی بھانپ چکے تھے۔ انہیں اس بات کا اداراک ہوچکا تھا کہ پاکستان کی سپورٹ ہر وقت ساتھ نہیں رہے گی ۔ وہ بھارتی اور عالمی سازشوں سے بھی وقت تھے اور انہیں آنے والے طوفان کا اندیشہ بھی تھا۔ شاید اسی سوچ اور فکر نے انہیں بروقت کشمیریوں کو بطور فریق منوانے پر مجبور کیا ۔ شہید مجید ڈار ان کمانڈورں اور حریت رہنماوں کی گمنام موت سے بھی واقف تھے جو یہ سوال اٹھاتے تھے کہ اگر مجاہدین اور تحریک کے عروج پر ہم کشمیر کو حاصل نہ کرسکے تو پھر کب۔۔۔ ان کے ذہن پر یہ سوال بھی ضربیں مار رہا تھا کہ سیاسی سفاری واخلاقی حمایت اپنی جگہ مگر جب میدان تیار ہے تو یکمشت قبضہ کیوں نہیں کیا جاتا۔اس طرح کے اور بھی کئی سوال انہیں بار بار سوچنے پر مجبور کرتے تھے۔لیکن سوچ سمجھ کر وہ کربھی کیا سکتے تھے۔ ایک راہ ان کو جو سوجی تو دشمن تو دشمن اپنے بھی ان کے دشمن بن گئے۔
آج مجید ڈار کے اپنوں کو ان کی باتیں حکمت عملی سوچ اور فکر سمجھ آچکی مگر وہ وقت کہاں سے لائیں جب وہ بھارتی حکمرانوں کے ساتھ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اور برابری کی سطح پر مذاکرات کررہے تھے۔ آج کشمیر کی جملہ قیادت سر پیٹھ رہی ہے مگر اب ان کی سنتا کون۔آج کشمیری مکمل بے بس اور محکوم ہیں ۔ ان کی لیڈر شپ بھارتی جیلوں میں مقید ہے اور بچے کھچے لوگ سری نگر کے بزرگ بابےیہ جملے دل ہی دل میں دہراتے ہیں۔ بس زندگی کٹ رہی ہے ۔
واپس کریں