مقصود منتظر
پرانے وقتوں میں نکمے اور نااہل سرکاری ملازموں کو ایسے علاقوں میں ٹرانسفر کیا جاتا تھا جہاں زندگی کی بنیادی سہولیات کا فقدان ہوتا تھا اورہر وقت جان کا خطرہ بھی سر پرمنڈلاتا تھا ۔ وقت بدل گیا اور دنیا نے ترقی کی ۔ کما حقا ہو ہر علاقے میں بنیادی سہولیات آگئیں، بیک ورڈ علاقے بھی فاروڈ ہوگئے۔ لیکن پاکستان اور بھارت ایسے دو دیش ہیں جہاں جان کو خطرے والا معاملہ جوں کا توں جاری ہے۔ اگر کوئی پاکستان بھارت جاتا ہےتو اسے ہر وقت یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں ۔۔را۔۔ کسی الزام میں اٹھا نہ لے۔ اسی طرح اگر کوئی ہندوستانی پاکستان کا سفر کرتا ہے تو وابگہ بارڈ کراس کرتے ہی اس کے ذہن پر آئی ایس آئی کا خوف سوار ہوجاتا ہے۔ یہ معاملہ صرف خوف اور خطرے کی حد تک محدود نہیں ہے، کئی پاکستانی شہری ہندوستان میں بلاوجہ پکڑے گئے اور جیل چلے گئے۔ اسی طرح پاکستان میں بھی کئی ہندوستانی ایجنسیوں کے ہتھے چڑھے۔ ایسی خطرناک صورتحال کو جانتے بوجھتے بھی دو ماوں ۔۔۔ سیما اور انجو نے ایسا قدم اٹھایا کہ عقل دھنگ رہ جاتی ہے۔
پاکستانی خاتون سیما حیدر نےہندوستانی لڑکے سچن مینا کی خاطر سیما ریکھا کراس کی ۔ سیما غیر قانونی طور پر نیپال سے بھارت داخل ہوئی ۔ یاد رہے بھارت اور نیپال کے درمیان ایک جگہ ایسی ہے جہاں سے نیپالی اور ہندوستانی لوگ بآسانی ایک دوسرے کے ملک میں آجا سکتے ہیں ۔ سیما نے بھی اسی کراسنگ پوائنٹ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت میں داخل ہوکر ،کراس بارڈر لو اسٹوری ، رقم کی۔ اسی طرح راجستھان کی انجو دیر بالا کے نصراللہ سے شادی کرنے کیلئے ویزے پر وابگہ سے پاکستان آئی ۔ دونوں خواتین شادی شدہ ہیں۔ سیما چار اور انجو دو بچوں کی ماں ہے۔ اندھے پیار میں دونوں نے سستی شہرت تو سمیٹ لی مگر پاکستان اور بھارت میں قائم خاندانی نظام اور ازدواجی نظام کاری ضرب لگائی ۔ بلا شبہ پاکستان اور بھارت ترقی اور سہولیات میں ترقی یافتہ ممالک سے پیچھے ہیں مگر یہاں کا خاندان نظام اب بھی مثالی سمجھا جاتا ہے۔ ممتا کی بات ہوتو مشرقی خاتون کا حوالہ دیا جاتا ہے لیکن سیما اور انجو نے بیوی رشتے کاخیال رکھا نہ ہے ماں کی ممتا کا ۔ سیما بچوں سمیت سچن کی پتی بن گئی مگر اتنا بولڈ اسٹپ ایک ماں کیسے اٹھاسکتی ہے۔ یہ سوال ہر ذی الشعور کے زبان پر ہے۔
انجو دو بچوں کو چھوڑ کر سرحد پار آئی ۔ یہ مشرقی روایت کے بالکل برعکس ہے ۔ یوں تو ایسے واقعے پاکستان اور بھارت کے معاشروں میں روز پیش آتے ہیں لیکن ان کے اثرات ایک علاقے تک محدود ہوتے ہیں۔ سیما اور انجو کا گھروں سے بھاگ کر دوسرے دیش میں شادی رچانے کے اثرات بھی بین الاقوامی ہیں ۔ یہ دونوں واقعات یہاں کے خاندانی اور ازدواجی نظام پر خود کش حملے کے مترادف ہیں۔
ایک خاتون دس پندرہ سال مرد کے ساتھ زندگی بسر کرتی ہے اوراس دوران کئی بچے بھی اس کے بطن سے جنم لیتے ہیں۔ پھر یکا یک خبر آتی ہے کہ وہ خاتون تو دوسرے دیش کے مرد سے شادی کررہی ہے۔ یہ واقعی شاکنگ ہے تشویشناک ہے۔ نہ صرف اروند اور حیدر کیلئے بلکہ ان کے بچوں کیلئے بھی۔ ہمیں ایسی پریم کہانیوں کی مکمل حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ کیونکہ اگر ایسے واقعات کاسلسلہ شروع ہوگیا تو نہ صرف شوہر بلکہ بچے بھی اپنے ماں کی حرکات کو شک کی نظرسے دیکھا کریں گے یوں ماں کا مقدس رشتہ پامال ہوگا۔ بعض لوگ دونوں پریم کہانیوں کو پاک بھارت لو ڈپلومیسی قرار دے رہے ہیں۔ ان کے بقول یہ بیک ڈور ڈپلومیسی کی ہی ایک کڑی ہے۔ لیکن میرے خیال میں ایسا صرف فلموں میں ہی ممکن ہوسکتا ہے۔ حقیقت میں اس طرح کے واقعات دونوں ملکوں کے معاشروں کیلئے خطرناک ہیں۔
واپس کریں