دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
گنگا چوٹی کےچہرے پرداغ دھبے،انسانی وحشت کے عکاس
مقصود منتظر
مقصود منتظر
کشمیر اور خوبصورتی ہم معنی لفظ ہیں۔ وادی کشمیر ہو یا آزاد کشمیر ، جموں ہو یا پونچھ ،لداخ کرگل ہو یا گلگت بلتستان۔ سارے علاقے خوبصورتی اور دلکشی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ لیکن بعض مقامات پر اس خوبصورتی کو داغدار اور تباہ کرنے میں انسان بڑی تیزی سے اپنی وحشت دکھانے میں مصروف ہیں ۔کشمیر کی سحر انگیز وادیوں میں میری پسندیدہ جگہ گنگا چوٹی بھی ہے جو آج کل فطرت کے رنگوں کی قدر و قیمت سے نا آشنا انسانوں کے ہتھے چڑھ رہی ہے۔ حال ہی میں یہاں کی سیر کی اور گنگا کے چہرے پر داغ دبے دیکھ کر دکھ دل خون کے آنسو روتا رہا۔۔

آزادکشمیر میں وادی نیلم اور وادی جہلم کے بعد سیاحوں کیلئے بہترین مقام باغ اور چکار کے سنگم پر واقع آسمان سے باتیں کرنے اورہروقت بادلوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلنے والی گنگا چوٹی ہے ۔ یہ سطح سمندر سے تین ہزار پنتالیس میٹر یعنی نو ہزار نو سو نوے فٹ ہے ۔ پیر پنچال ہمالیہ رینج پر واقع یہ جگہ مقامی اور پاکستانی سیاحوں کیلئے بہترین اور آسان تفریحی مقام ہے کیونکہ یہ مری سے محض دو گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ سڑک بھی کشادہ اور بہترین ہے اور راستہ جگہ جگہ دلکش نظاروں سے استقبال کرتا ہے ۔ کوہالہ پل سے بائیں مڑتے ہی دھیرکوٹ سڑک کے بل کھاتے موڑ مسافروں اور سیاحوں کو اپنی سحر میں جگڑ لیتے ہیں ۔یہاں ایک طرف مری اور دوسری طرف کشمیر کے پہاڑ ہیں اورسر سبز جنگل کنکریٹ دنیا میں رہنے والوں کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتے ہیں ۔

باغ شہر سے نکل کر چڑھائی کا سفر کرنا پڑتا ہے جو گاڑی کیلئے تھکادینے والا تو ہیں تو سواروں کیلئے ایک نیا تجربہ ثابت ہوتا ہے۔ سدھن گلی پہنچ کر دو اضلاح کی ہوائیں بدن کو چھوتی ہیں تو راحت کی سوپر ڈگری کا احساس ہوتا ہے ۔دو اضلاع کی حدود سے اوپر جاتے ہوئے گنگا چوٹی کا راستہ پیر سوہاوہ سے زیادہ خوبصورت ہے ۔ سڑک بالکل پکی ہے مگرچڑھائی کے باعث چھوٹی گاڑیاں ایک دو بار سانس لینے اور پانی پینے کا مطالبہ کرتی ہے جو ڈارئیو کو بلامشروط ماننا پڑتا ہے۔

بل کھاتی سڑک کا آخری موڑ کاڑتے ہی ایک کھلے اور سبز میدان آپ کو ویلکم کہتا ہے ۔اس کے بعد دھند آپ کے بدھن کو چھوتے جارہی ہیں ۔ آپ اس دھند کو چھوسکتے ہیں ۔ یہ پرستان جیسا سماں ہوتا ہے ۔ دو پہر کو شام کا منظر محوس ہوتا ہے ۔ یہاں دھند کی لہر یں رقص کرتے ہوئےایک چوٹی سے دوسری چوٹی پر جاتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔ سبززار سے یہاں کا موسم پر لطف ہے ۔ یاد رہے گرمی ہو یا سردی ، برفباری ہو یا بادلوں کا رقص ، گنگا ہر موسم میں حسین ہے ،خوبصورت ہے، دلکش ہے دلربا ہے ۔

گنگا چوٹی جب کنورای تھی تب اس کے حسن اور بے باکی میں کوئی ثانی نہیں تھی ۔ یہ غیر آلودہ تھی ۔ یہ انسان کے پنجوں سے محفوظ تھی۔ اس کی راعنائی کا جواب نہ تھا۔ یہ سحر انگیز چوٹی تھی۔ صاف ستھری جگہ تھی ۔ فطرت کی ثنا خوانی کرتی تھی ۔ لیکن آج اس کا خوبصورت چہرہ کالے دبوں سے بھرا پڑا ہے ۔ اس کا سینہ جگہ جگہ زخمی ہے کیونکہ اب اس کا وجود انسان کے پنجے میں ہے ۔قدرت کے اس شاہکار پر لوگوں نے جگہ جگہ رنگ برنی خیمے لگائے ہوئے ہیں ۔ جہاں کہیں چائے پانی یا بکسٹ ٹافیاں فروخت ہورہی ہیں یا رات کو ٹھہرنے کا معمولی سا بندوبست ہے ۔ کہیں بریانی بک رہی ہیں تو کہیں کڑائیاں ۔اس بات سے انکار نہیں کہ یہاں ٹینٹوں یا خیموں کی ضرورت ہے یا یہاں کے لوگوں کو سیاحت سے فائدہ پہنچنا چاہیے لیکن گنگا چوٹی کی خوبصورتی کو داو پر لگا پر کوئی اگر اپنے فائدے کا سوچے تو یہ فطرت کے ساتھ کھلا لڑائی ہے ۔چوٹی کے بیس ٹو میں بے ڈھنگ بس اڈا اس جگہ پر قائم کیا گیا ہے جو یہاں پہلا ہموار مقام تھا ۔ یعنی سبز قالین بچھا ہوا ایک میدان بالکل اوول کرکٹ گراونڈ کی مانند ۔۔ مگر نادان اور خوبصورتی کے احساس سے ناآشنا انسانوں نے اس خوبصورت میدان کو لاری اڈا بناکر گویا گنگا کو اس کے ماتھے پر چمکتے تلک یا تل سے محروم کردیاہے ۔

بیس تھری گنگا کا ابھرا ہوا سینہ ہے۔ جہاں پہنچ کر ہر آنے والا کسی دوسرے جہاں میں پہنچ جاتا ہے ۔ گنگا کا سینہ ہر وقت دھند میں لپٹا رہتا ہے اور یہاں کا نظارہ آپ کو آنکھیں ایک سیکنڈ کیلئے بند کرنے نہیں دیتے ہیں ۔ یہاں قدرت کے سبز قالین پر بیٹھ کر چائے پینے کا جو مزہ ہے وہ سرینا جیسے فائیو اسٹار ہوٹل میں نہیں ہے ۔ لیکن گنگا کا سینہ جگہ جگہ زخمی ہے کیونکہ وہی بے رنگ بے ڈھنگ خیمے وہ بھی بے ترتیب قائم ہے ۔ عین میدان کے بیچ میں یہ رنگ برنگی ٹینٹ گنگا کو ممبئی کا سیلم بناتے ہیں ۔تین سال پہلے جب میں بیس تھری میں تھا تو کافی دیر بیٹھ کر فطرت کے رنگوں سے باتیں کرتا رہا لیکن اس بار یہاں سبزار کے بجائے خستہ ٹینٹوں کی حالت زار پر رونا آیا ۔ کاش کہ انتظامیہ نے ان ٹینٹ مالکوں کو یہ بتایا ہوتا ہے ، خیمے لگاو مگر ڈھنگ سے ، ایک لائن میں اور ایک سائیڈ پر ۔صبح پانچ بجے جب میں سورج نکلنے کے منظر کے انتظار میں تھا تب یہی ٹینٹ مجھے اندر سے کھارہے تھے ، اور گنگا انتہائی بے بسی میں مجھ سے یہ سوال کررہی تھی کہ ارے او۔۔ انسان تو کیسا اشرف المخلوقات ہے ، تو نے ہزارہا سال گزار کر بھی کوئی نظم کوئی ڈھنگ نہیں سیکھا۔ اتنا ظلم تو راون نے سیتا سے بھی نہیں کیا جو تو میرے ساتھ کررہا ہے۔ یاد رکھ ۔فطرت کا اس کا انتقام لے گی۔
واپس کریں