دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آزاد کشمیر میں سیاسی جماعتوں کی کمزوری اور اس کے خطرات
اطہرمسعود وانی
اطہرمسعود وانی
آزاد کشمیر کے قیام کے بعد سالہا سال مسلم کانفرنس ہی اس خطے کی واحد سیاسی جماعت رہی۔ بعد ازاں لبریشن لیگ قائم ہوئی اور شملہ سمجھوتے کے بعد ذوافقار علی بھٹو نے وزیر اعظم پاکستا ن کے طور پر آزاد کشمیر میں پیپلزپارٹی قائم کرائی۔اسی کی دھائی میں ہی جماعت اسلامی بھی قائم ہوئی۔اس وقت آزاد کشمیر الیکشن کمیشن میں34سیاسی جماعتیں درج ہیں جن میںپاکستان مسلم لیگ ن آزاد جموں و کشمیر، پاکستان تحریک انصاف آزاد جموں وکشمیر، آل جموں وکشمیر جمعیت علماء اسلام، جماعت اسلامی آزاد جموں وکشمیر، جماعت فلاح انسانیت آزاد جموں وکشمیر، قومی اتحاد پارٹی جموں و کشمیر، جمعیت علماء جموں و کشمیر، متحدہ قومی موومنٹ آزاد جموں وکشمیر،جموں وکشمیر یونائیٹڈ موومنٹ،تحریک لبیک پاکستان آزاد جموں وکشمیر،مجلس وحدت مسلمین آزاد جموں و کشمیر، مشن کشمیر ٹاسک فورس آزاد جموں وکشمیر، عام آدمی پارٹی پاکستان آزاد جموں وکشمیر،جموں و کشمیر ڈیموکریٹک پارٹی،جموں وکشمیر عوامی تحریک،پاک سرزمین پارٹی آزاد جموں و کشمیر، تحریک جوانان پاکستان آزاد جموں وکشمیر، پاکستان پیپلز پارٹی آزاد جموں وکشمیر، آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس، جموں و کشمیر پیپلز پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی شہید بھٹو آزاد جموں و کشمیر، صدائے حق پارٹی آزاد جموں و کشمیر، مرکزی جمعیت اہلدیث آزاد کشمیر، جموں وکشمیر عوامی اتحاد، جموں و کشمیر لبریشن لیگ، جمعیت علماء اسلام جموں وکشمیر،پاک کشمیر پارٹی آزاد جموں و کشمیر، عوامی مسلم لیگ آزاد جموں وکشمیر، تحریک تحفظ انسانی حقوق پارٹی آزاد جموں وکشمیر،راہ حق پارٹی آزاد جموں وکشمیر، پاکستان کنزرویٹیو پارٹی آزاد جموں وکشمیر، جموں وکشمیر نیشنل لبریشن موومنٹ اور اللہ توکل پارٹی آزاد جموں وکشمیرشامل ہیں۔ان میں سے اکثر پارٹیاں عوام کے لئے اجنبی اور تانگہ پارٹیوں کی حیثیت کی حامل ہیں اور متعدد الیکشن میں حصہ بھی نہیں لیتیں۔

اس وقت آزاد کشمیر اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف، فاروڈ بلاک پاکستان تحریک انصاف،پاکستان پیپلز پارٹی،پاکستان مسلم لیگ ن ، مسلم کانفرنس اور آزاد جموں وکشمیر پیپلز پارٹی کی نمائندگی ہے۔موجودہ حکومت تحریک انصاف فاروڈ بلاک کی ہے جبکہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن اس حکومت کی اتحادی سیاسی جماعتیں ہیں۔آزاد کشمیر میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے کے بعدسیاسی جماعتوں کی کمزوری کا عمل تیز تر ہوا اور موجودہ حکومت قائم کرانے کے طریقہ کار نے پارلیمانی سیاسی جماعتوں کی رہی سہی ساکھ بھی خاک میں ملا دی ہے۔

اب یہ کوئی راز کی بات نہیں رہی کہ آزاد کشمیر کی سیاست پہ سلامتی کے ذمہ دار محکمے کے انٹیلی جنس ادارے کا مکمل کنٹرول ہے۔ موجودہ حکومت بھی انہوں نے ہی قائم کرائی اور پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن سے بھی تحریک انصاف کے باغی ارکان کی حکومت کی حمایت کراتے ہوئے انہیں اس حکومت کا اتحادی بنایا گیا۔یہ اب تک واضح نہیں ہو سکا کہ حکومت سازی کے اس عمل اور طریقہ کار سے کیا مقاصد حاصل کئے گئے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ اس سے آزاد کشمیر حکومت ، حکومت کی تشکیل اور سیاست پر مکمل کنٹرول حاصل کیا گیا لیکن اس عمل سے آزاد کشمیر کے حساس خطے میں وسیع تر قومی مقاصد کو کن نقصانات سے دوچار کیا گیا، اس کا احساس و ادراک نظر نہیں آتا۔

موجودہ حکومت کے دور میں ہی آزاد کشمیر میں آٹے اور بجلی کی قیمتوں کے معاملے پہ عوامی احتجاجی تحریک شروع ہوئی اور اس تحریک سے مجبور ہو کر آٹے اور بجلی سے متعلق مطالبات تسلیم کئے گئے۔عوامی ایکشن کمیٹی یہاں تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ اس کے مرکزی افراد نے حکومت اور سیاست کی خرابیوں کو موضوع بناتے ہوئے کڑی تنقید شروع کر دی اور سیاسی جماعتوں کی بے عملی، کمزور ی کی صورتحال سے پیدا ہونے والے سیاسی خلاء میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کی۔اسی حوالے سے مختلف عوامی ، سیاسی حلقوں کی طرف سے یہ کہا جانے لگا کہ عوامی ایکشن کمیٹی کو ایک نئی سیاسی جماعت کے قیام پر توجہ دینی چاہئے۔تحریک انصاف کے باغی ارکان کی قائم کردہ حکومت کے سربراہ وزیر اعظم چودھری انوار الحق کے حوالے سے بھی ایسی اطلاعات سامنے آئیں کہ وہ ایک نئی سیاسی جماعت قائم کرنے کے لئے رابطے کر رہے ہیں لیکن ان کوششوں میں کوئی پیش رفت دیکھنے میں نہ آ سکی۔اس حوالے سے یہ امکان بھی ظاہر ہو تا رہا کہ یہ نئی سیاسی جماعت کے قیام کے بجائے کسی سیاسی جماعت میں بھی شامل ہو سکتے ہیں لیکن اس حوالے سے بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتوںمیں عرصہ دراز سے برادری ازم ہی میرٹ ہے تاہم اب آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتیں بدترین صورتحال سے دوچار ہیں۔آزاد کشمیر کے آئندہ الیکشن میں تحریک انصاف اور اس کے باغی ارکان کا کوئی خوشگوار مستقبل نظر نہیں آتا۔مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی بھی یہی آس بدستور جاری ہے کہ پاکستان میں قائم ان کی جماعتیں ان کو آزاد کشمیر کا اقتدار دلائیںگی لیکن پاکستان کی سیاسی صورتحال میں اقتدار دلانے کی یہ آس کمزوری ،ناتوانی اور خوش گمانی کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔پاکستان کی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے لئے اب یہ بہت مشکل ہو چکا ہے کہ وہ آزاد کشمیر کے اقتدار کی تھالی سجا کر اپنی مقامی جماعتوں کو پیش کر سکیں۔ اس معاملے میں بھی مقتدر ادارے کی مرضی اور منشا مرکزی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔آزاد کشمیر کی سیاست کی کمزوری سے اس خطے اور پاکستان کے وسیع تر قومی مفادات کے لئے کن سنگین خطرات کے دروازے کھل جاتے ہیں، اس کا احاطہ اور احساس از حد ضروری ہے۔


واپس کریں