'' قائد اعظم اور مشاہیر کشمیر، مراسلت'' کے نام سے قومی اہمیت کی حامل کتاب کی اشاعت
اطہرمسعود وانی
ہائر ایجوکیشن آزاد کشمیر کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ،آزاد کشمیر شعبہ اردو میں بورڈ آف سٹیڈیز اور شعبہ کشمیر سٹیڈیز پنجاب یونیورسٹی کے رکن،آزاد کشمیر کے معروف ماہر تعلیم اور مصنف ڈاکٹر ظفر حسین ظفر نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور ریاست جموں وکشمیر کی شخصیات کے خطوط پر مبنی ایک کتاب ''قائد اعظم اور مشاہیر کشمیر'' کے نام سے شائع ہے۔166صفحات پر مبنی اس کتاب میں مہاراجہ ہری سنگھ،وزیرانتظامیہ ریاست جموں وکشمیر،شیخ عبداللہ،چودھری غلام عباس،غلام محمد، پنڈت پریم ناتھ بزاز،شمس الدین خان،لارڈ ویول،آغا شوکت علی،کونرڈ،ماسٹر غلام محمد نسیم،قریشی محمد یوسف،میر واعظ یوسف شاہ اور دیگر شخصیات کی قائد اعظم کے ساتھ ہونے والی خط و کتابت شامل ہے۔حرف چند کے نام سے کتاب کا ابتدائیہ سید سلیم گردیزی نے تحریر کیا ہے اورڈاکٹر ظفر حسین ظفر نے عرض مرتب کے نام سے کتاب کا تفصیلی تعارف پیش کیا ہے۔
یہ خطوط 1943سے 1946کے دوران تحریر کئے گئے۔اس عرصے میں قائد اعظم قیام پاکستان کی جدوجہد میں انتہائی مصروف تھے لیکن اس کے باوجود قائد اعظم نے 1944میں کشمیر کا دورہ کیا اور اس کے بعد بھی ریاست جموں و کشمیر کی صورتحال سے متعلق ریاستی شخصیات سے رابطے میں رہتے ہوئے اہم امور سے متعلق اپنی رہنمائی فراہم کرتے رہے۔یعنی قیام پاکستان کی جدوجہد کے عروج ،کٹھن حالات میں بھی قائد اعظم محمد علی جناح کا ریاست کشمیر کے عوام سے قریبی رابطہ استوار رہا اور قائد اعظم ریاست کے مظلوم عوام کو اپنی رہنمائی فراہم کرنے کے علاوہ برٹش حکومت کے سامنے کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کرتے رہے۔ اسی دوران قائد اعظم اپنی شدید علالت کے باوجود پاکستان کے قیام کی کوششوں کے حوالے سے انڈین کانگریس کی مکارانہ سیاست اور انگریز حکمرانوں کا مردانہ وارتن تنہا مقابلہ کر رہے تھے ۔قائد اعظم محمد علی جناح نے پہلے کوشش کی کہ ریاست جموں وکشمیر کی نیشنل کانفرنس اور مسلم کانفرنس متحد ہو جائیں لیکن شیخ عبداللہ نے انڈین کانگریس کو اپنا ہمنوا بنایا تو قائد اعظم نے مسلم کانفرنس کو مضبوط بنانے پر زور دیا۔مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح اپنی کتاب '' میرا بھائی '' میں لکھتی ہیں کہ ریاست جموں وکشمیر میں جنگ شروع ہونے پر قائد اعظم نے پاکستان کے انگریز کمانڈر انچیف کو حکم دیا کہ '' مارچ آن یورز ٹرپس اینڈ کیپچر جموں اینڈ کشمیر بوتھ''۔ کشمیر کے ساتھ قائد اعظم کی گہری لگاوٹ کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ محترمہ فاطمہ جناح اپنی کتاب میں تحریر کرتی ہیں کہ وفات پانے سے قبل قائد اعظم کے آخری الفاظ یہ تھے کہ '' آئین ....، کشمیریوں کو اپنا فیصلہ کرنے کا حق دیجئے''۔
پاکستان کے ایک مائیہ ناز بیوروکریٹ، علمی و ادبی شخصیت ڈاکٹر ندیم شفیق ملک2020میں اچانک وفات پاگئے ۔بلاشبہ ڈاکٹر ندیم شفیق ملک ایک قیمتی انسان ہی نہیں بلکہ حقیقی طور پر قومی اثاثے کی شخصیت کے حامل تھے۔انہوں نے درجنوں کتابیں تحریر، مرتب کیں۔ کشمیر کا ساتھ ان کا قلبی تعلق تھا۔ ڈاکٹر ندیم شفیق ملک کچھ عرصہ صدر پاکستان کے سیکرٹری صدارتی امور کے عہدے پہ بھی فائز رہے اور اس دوران انہوں نے ریاست کشمیر کی کئی شخصیات کے ساتھ صدر پاکستان کے اجلاس بھی منعقد کرائے۔ ڈاکٹر ندیم شفیق ملک کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے قومی اہمیت کی حامل ایسی متعدد ستاویزات کسی نا کسی طریقے سے حاصل کیں جو خفیہ رکھی گئی تھیں۔خاندانی اور ذاتی دوستی کے علاوہ مجھے ان کے ساتھ کام کرنے کا اعزاز بھی حاصل رہا اور اس دوران میں نے ان کی فراہم کردہ کئی اہم دستاویزات کا انگریزی سے اردو ترجمہ بھی کیا۔ ان میں قیام پاکستان سے پہلے قائد اعظم کے نام بچوں کے لکھے گئے خطوط، قومی اسمبلی میں1948سے1974کے دوران کشمیر پر ہونے والی تقاریر اور قائد اعظم اور ریاست جموں وکشمیر کی شخصیات کے درمیان لکھے جانے والے خطوط، ٹیلی گرام کے تراجم بھی شامل ہیں اور ان تراجم کی کتابیں بھی شائع ہوئیں۔ڈاکٹر ظفر حسین ظفر سے میرا تعارف اور رابطہ بھی ڈاکٹر ندیم شفیق ملک کی معرفت ہوا۔
19اگست1946 کور مسلم کانفرنس کے سیکرٹری جنرل آغا شوکت علی نے قائد اعظم محمد علی جناح کو ایک خط میں لکھا کہ، ''اس وقت ہماری پالیسی لڑائی ، جو جلد ہی شروع ہو سکتی ہے،کے لئے خود کو مضبوط بنانا ہے،تب ہم مسلم محسوسات کے خلاف اینگلو۔ہندو سازش کی توقع کریں گے،جو بھی نظم و ضبط کے کنارے عدم سہولت اور خطرناک غم و غصے سے پھٹ گیا ،کانگریس کے لئے وارننگ ہے اگر وہ پہلے ہی اقتدار کے امکان کے نشے میں نہیں ہیں تو ۔آپ کو نہیں لگتاکہ ہم جوابی اقدام اور ناپاک سرمایہ دارانہ اتحاد کو مٹانے کے لئے روس کے ساتھ منافع بخش تعلقات قائم کر سکتے ہیں؟ ترجمہ کرنے کے دوران یہ خطوط دیکھنے اور پڑہنے کے بعد مجھے اشتیاق ہوا کہ آغا شوکت علی کی اس بات کا قائد اعظم کیا جواب دیتے ہیں ،لیکن دستاویزات کے ریکارڈ میں قائد اعظم کے جوابی خط کی غیر موجودگی سے اشارہ ملتا ہے کہ ضرور قائد اعظم نے اس کے جواب میں جو کہا ،وہ امریکی مفادات کی پاسداری میں ریکارڈ سے غائب کر دیا گیا۔
راولاکٹ آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ظفر حسین ظفر نے '' قائد اعظم اور مشاہیر کشمیر'' کے نام سے مراسلت شائع کرتے ہوئے ایک اہم کام انجام دیا ہے اور یہ کتاب حوالے( ریفرنس) کے طور پر بھی پیش کی جا سکتی ہے۔ ڈاکٹر ظفر حسین ظفر نے کتاب مرتب کرتے ہوئے ضروری تقاضوں کا پورا خیال رکھا ہے۔ ڈاکٹر ظفر حسین ظفر نے اس کتاب میں خطوط ، ٹیلی گرامز کو اصل ترتیب کے بجائے الگ طور پر شامل کیاہے جیسے ہر شخصیت کے قائد اعظم کو لکھے گئے خطوط کو اکٹھا کر کے ایک ساتھ شائع کیا ہے۔ میری تجویز ہے کہ کتاب کے اگلے ایڈیشن میں ان خطوط کو اپنی اصل ترتیب کے مطابق شائع کیا جائے، اس سے اس وقت کے حالات و واقعات ایک ترتیب سے سامنے آتے ہیں جس سے اس وقت کے حالات و واقعات کو سمجھنے میں آسانی رہتی ہے۔میں ڈاکٹر ظفر حسین ظفر صاحب کا مشکور ہوں کہ انہوں نے قومی اہمیت کی حامل ان دستاویزات کو شائع کرتے ہوئے نہایت اہم کام انجام دیا ہے۔
بر سر تذکرہ یہاں ایک اور بات بھی بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ایک دو بار میں نے مختلف شخصیات کو قائد اعظم کے حوالے سے ایسی باتیں کرتے دیکھا جو حقیقت کے برعکس تھیں۔ میرا خیال ہے کہ انہوں نے ان خطوط میں شامل کوئی ایک خط پڑھا ہو گا اور اس خط سے انہوں نے ایسا تاثر لیا جو حقیقت کے برعکس تھا۔ اس کی ایک مثال کہ پاکستان کے ایک معروف صحافی حامد میر نے کچھ عرصہ قبل اپنے ٹی وی پروگرام میں یہ دعوی کیا کہ قائد اعظم کو ریاست جموں وکشمیر کے پاکستان میں شامل ہونے کا اتنا یقین تھا کہ وہ وادی کشمیر میں جائیداد خریدنا چاہتے تھے۔میرا خیال ہے کہ حامد میر نے قائد اعظم کا وہ خط یا اس کا جواب پڑھا ہو گا جو قائد اعظم کے متوقع دورہ کشمیر کے سلسلے میں ان کی رہائش کے لئے موزوں جگہ کی تلاش کے لئے تھا، یہ خطوط اس کتاب میں شامل ہیں۔ دوسری بات یہ کہ قانون کی رو سے ریاست جموں وکشمیر میں کوئی غیر ریاستی باشندہ جائیداد خرید نہیں سکتا تھا ۔
واپس کریں