دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ایک تقریب میں کشمیر پر کچھ سچی سچی باتیں !
اطہرمسعود وانی
اطہرمسعود وانی
وفاقی ادارہ 'نیشنل سوشل ویلفیئر کونسل' کے زیر اہتمام 'یوم یکجہتی کشمیر ' کے حوالے سے ایک خصوصی تقریب اسلام آباد ہوٹل میں منعقد ہوئی۔چیئرمین کونسل ڈاکٹر ندیم شفیق ملک کی صدارت میں منعقدہ اس تقریب میں پالیمانی سیکرٹری رام چند،پارلیمانی سیکرٹری وجیہہ اکرام،ممبر قومی اسمبلی و پارلیمانی کشمیر کمیٹی نورین فاروق ابراہیم،چیئرمین جموں کشمیر کونسل فار ہیومن رائٹس سید نزیر گیلانی،حریت رہنما سید یوسف نسیم،حریت رہنما غلام محمد صفی ،خولہ خان اور دیگر شخصیات نے شرکت کی۔شروع کے چند مقررین کی جذباتی انداز میں غیر حقیقی تقاریر سنیں تو تقریب کے موضوع،''مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کا بحران،زمینی حقائق،بدلتی صورتحال اور ہماری سماجی ذمہ داریاں'' کے موضوع سے ہٹ کر بات کرنا مناسب سمجھا۔میری تقریر کا انداز اور بیان کردہ امور صفی صاحب اور یوسف نسیم صاحب کے علاوہ باقی مقررین کے بھی پیش نظر رہے ،بالخصوص صدر تقریب ڈاکٹر ندیم شفیق ملک بھی حقائق کے پوشیدہ امور بیان کرنے پر مجبور ہو گئے۔مہمان خصوصی پارلیمانی سیکرٹری رام چند نے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی حمایت کرتے ہوئے رائے شماری کے ذریعے مسئلہ کشمیر پرامن طور پر حل کرنے پر زور دیا اور اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ چندمقررین نے واضح کیا ہے کہ کشمیر کوئی مذہبی تنازعہ نہیں بلکہ ایک ریاست کے عوام کو مستقبل کے فیصلے کا حق دینے کا معاملہ ہے۔

پارلیمانی سیکرٹری وجیہہ اکرام نے کہا کہ تکلیف ہوتی ہے کہ کشمیر پر صرف باتیں ہی ہوتی ہیں،سیمینار کر لئے،بات کرنا بھی ضروری ہے کہ بات کریں گے تو بات آگے پہنچے گی،تاہم صرف بات کرنے سے بات بنتی نہیں ہے۔اس کے لئے ہمیں عملی حکمت عملی اختیار کرنا ہو گی۔انہوں نے کہا کہ کشمیر کے حوالے سے ہم نے انٹرنیشنل لابنگ بالکل نہیں کی،جو کمی رہی وہ ہماری نالائقی کی وجہ سے رہی۔اگر مسئلہ کے حل کی طرف جانا ہے تو ہم نے کشمیر کا مسئلہ محض چلائے نہیں رکھنا کہ روزی روٹی چلتی رہی بس،دنیا میں اسلحہ بیچنے والوں کا کاروبار چلتا رہے۔مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم ہمارے سامنے ہیں،ضرورت اس بات کی ہے کہ ان پر ہی رونے کے بجائے آگے بڑہیں اور حقیقی طور پر کشمیر کے لئے کام کریں۔وجیہہ اکرام نے اس عزم کا اظہار کیا کہ کشمیر یوں کو ایک دن حق خود ارادیت ضرور ملے گا۔انہوں نے کشمیریوں کو سلام پیش کیا کہ جو پتھروں سے بھارتی فوج کا مقابلہ کرتے ہوئے انڈیا کو ناکام بنارہے ہیں۔کشمیری پاکستان کے پرچم میں مدفن ہوتے ہیں اس سے بڑا اور کوئی ریفرنڈم نہیں ہو سکتا۔ممبر پارلیمانی کشمیر کمیٹی نورین فاروق ابراہیم نے وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے مثبت اقدامات کی نوید سنائی۔نورین فاروق نے بتایا کہ انہوں نے تقاریر میں دی جانے والی تجاویز نوٹ کی ہیں،ہم کشمیر کمیٹی میں اس کے مطابق پالیسی بنائیں گے اور آپ دیکھیں گے کہ کشمیر کے بارے میں بہت مثبت پیش رفت ہو گی۔خولہ خان( خان آف منگ) نے موجودہ حکومت کی طرف سے کشمیر کاز کے حوالے سے کی جانے والی مختلف سرگرمیوں کا ذکر کیا۔

اظہار خیال سے پہلے میں نے ڈاکٹر ندیم شفیق ملک صاحب کا اس بات پہ شکریہ ادا کیا کہ وہ کشمیر سے متعلق ہر موقع پر مختلف اہم شخصیات کو ایک جگہ اکٹھا کرتے ہوئے یہ سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں کہ ہم کشمیر کے حوالے سے کیا کر سکتے ہیں۔میں نے گوش گزار کیا کہ مقبوضہ کشمیر میں کیا ہو رہا ہے،وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی کیا کیا جہتیں ہیں۔پیلٹ گن سے اندھے،زخمی ہونے والے،ہاف وڈوز،یتیم بچے،جیلوں میں ہزاروں قید اور ان کو بھارت کی جیلوں میں رکھا جاتا ہے،ان کے گھر والوں کی بدترین حالت،بھارتی فوج کے فوجی آپریشن،آئے روز نوجوانوں کی ہلاکتیں،کشمیری فریڈم فائٹرز کی شہادتیں۔سوشل میڈیا کا دور ہے،یہ باتیں آئے روز آپ کے علم میں آتی ہیں،لیکن ان پر پاکستان کے میڈیا کو عوام اور دنیا کو باخبر کرنا چاہئے ،وہ نہیں کیا جاتا۔دنیا پاکستان کی نمائندگی کے طور پر پاکستانی میڈیا دیکھتی ہے اور جب دنیا یہ دیکھتی ہے کہ پاکستان کے میڈیا میں کشمیر کو کوئی اہمیت نہیں دی جا رہی ،ہندوستان کے پروپیگنڈے کا کوئی کائونٹر نہیں کیا جا رہا تو یہ بات '' الارمنگ'' ہو جاتی ہے۔کشمیری عوام کو پاکستانی عوام پر بھر پور اعتماد ہے اس کا اظہار وہ گزشتہ ستر سال سے دیکھتے آئے ہیں،ان کو ہمارے جزبات کے اظہار کے،جزباتی اپروچ کی ضرورت نہیں ہے،انہیں اس بات کی ضرورت ہے اور ہمارا یہاں بیٹھ کر عالمی طاقتوں کو مخاطب کرنادرست نہیں کیونکہ عالمی طاقتیں،عالمی ادارے حکومت کی بات سنتے ہیں اور اس پر توجہ دیتے ہیں،عوام کی تشویش ان کے لئے اہم نہیں ہے۔ہمارا مخاطب حکومت پاکستان،،پاکستان کے پالیسی ساز ،اربا اختیار ہونے چاہئیں۔ہمیں حقیقی طور پر دیکھنا چاہئے کہ پاکستان کے کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے کیا تقاضے ہیں،میڈیا کے شعبے میں کیا تقاضے ہیں،سفارتی سطح پہ کیا تقاضے ہیں۔پاکستان کی ہر حکومت کہتی ہے کہ مسئلہ کشمیر پر بھر پور سفارتی مہم چلائی جائے گی،کئی پرائم منسٹر یہ کہتے ہوئے چلے گئے اور اب آگئے، جو بھی آتے ہیں یہی کہتے ہیں کہ سفارتی حوالے سے مسئلہ کشمیر پر بھر پور توجہ دی جائے گی لیکن عالمی سطح پر جس طرح ہونی چاہئے،جس طرح ہندوستان پوری منصوبہ بندی کے تحت کرتا ہے، اس طرح کی سفارتی سرگرمیاں دیکھنے میں نہیں آتیں،ہماری اس میں'' ڈے بائی ڈے'' پالیسی نظر آتی ہے۔اظہار یکجہتی کشمیریوں کے ساتھ سالہا سال سے منایا جارہا ہے لیکن اسی اظہار یکجہتی کے دوران ہم نے یہ بھی دیکھا کہ مقبوضہ کشمیر کے حریت پسندوں کے آزاد کشمیر میں کیمپ بند کئے گئے،انڈیا کو یہ موقع دیا گیا کہ وہ سیز فائر لائین پہ باڑ لگائے اور خار دار تاروں کی باڑ لگاتے ہوئے کشمیر اور کشمیریوں کو جابرانہ طور پر تقسیم کرنے والی کنٹرول لائین کی تقسیم کو مزید مضبوط بنائے۔

ہمیں تو اپنی حکومت سے یہ کہنا چاہئے کہ ہم ستر سال سے آپ کو کشمیر پر قدم بقدم پیچھے ہی جاتے دیکھ رہے ہیں۔ آج کی باخبر دنیا کی عوام ہر بات کو '' دو جمع دو '' کر کے دیکھتی ہے۔ہم ستر سال سے یہی عوام کو بتا رہے ہیں کہ ہمارا دینی تعلق ہے،ہماری شہ رگ ہے،آج پاکستانی عوام کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ کشمیر سے آپ کو کیا کیا فائدے ہیں۔ کشمیری عوام تو یہ دیکھتے ہیں کہ ہندوستان اور پاکستان باہمی معاہدے کے تحت کشمیر کے وسائل سے بھر پور طور پرمستفید ہو رہے ہیں ،کشمیر کے دریائوں سے پیدا کی جانے والی بجلی انڈیا کو روشن کر رہی ہے،اس کی ترقی کی بنیاد فراہم کر رہی ہے،پاکستان میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے،لیکن مسئلہ کشمیر کو حل کرنے میں دونوں ملکوں کی صلاحیتوں کو کیوں زنگ لگ جاتا ہے؟ اس میں صرف پاکستان انڈیا کی خواہشات کی بات ہی نہیں اس میں عالمی طاقتیں بھی ملوث ہیں جنہوں نے اس مسئلہ کشمیر کا ایک بیج دونوں ملکوں کے درمیان رکھ دیا ہے کہ اسی دشمنی میں دونوں ملک لگے رہیں،دنیا کا اسلحہ ہندوستان خریدتا رہے،پاکستان خریدتا رہے،اس خطے کے لوگ ترقی نہ کر سکیں۔ہمیں انسانیت کی بنیاد پر،کشمیر کا مسئلہ کوئی مذہبی مسئلہ نہیں ہے،یہ ایک ریاست کے عوام کے حق خود ارادیت کا مسئلہ ہے کہ انہیں اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق ان کو اپنی رائے کے اظہا ر کا موقع دیا جائے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔

کشمیری عوام پرعزم ہیں آج اٹھارہ بیس سال کا لڑکا بھی بے خوف ہے ،وہ انڈین فوج کے بڑے افسروں سے ، ان کے کورکمانڈر سے دوبدو ہو کر ان سے ڈائیلاگ کرتا ہے،وہ بالکل بھی خوفزدہ نہیں ہے۔جدھر فائرنگ ہوتی ہے ،تمام آبادی اس طرف چل پڑتی ہے،پتھرائو کرتے ہوئے بھارتی فورسز کی فائرنگ سے شہید ہوتے ہیں،وہ اپنے لئے کچھ نہ کچھ حاصل کر لیں گے لیکن ہمیں ،پاکستانیوں کو اپنے گریبان میں جھانکنا ہے کہ ہم کشمیریوں کے لئے کیا کیاکر سکتے تھے لیکن ہم نے وہ وہ کام بالکل بھی نہیں کئے۔وزارت خارجہ ،وزارت دفاع،آئی ایس پی آر،اطلاعات و نشریات،امور کشمیر ،اس طرح کے پانچ چھ شعبے ہیں حکومت کے جو کشمیر سے متعلق مختلف امور کو انہیں مخاطب کرنا چاہئے لیکن وہ ہمیں ان پر کام کرتے نظر نہیں آتے۔پاکستان کے اداروں کی کشمیریوں کے ساتھ مشاورت ہونی چاہئے ،وہ مشاورت ہمیں بالکل بھی نظر نہیں آتی۔ہمیں اس بات پہ توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ہم کشمیر کے لئے جو کر سکتے ہیں،وہ ہم نہیں کر رہے، اور کشمیری عوام یہ چیز دیکھ رہے ہیں۔

تقریب کے صدارتی خطاب میں ڈاکٹر ندیم شفیق ملک نے کہا کہ وانی صاحب کی تقریر نے،صفی صاحب کی تقریر نے یوسف نسیم صاحب کی تقریر نے میرا روائیتی شکریہ ختم کر دیا ہے،میں بھی ویلی سے نسلی طور پر تعلق رکھتا ہوں تو چلیں میں بھی کچھ دل کی باتیں کر لوں۔آپ، ہم کھل کر یہ کیوں نہیں کہتے کہ پاکستان کے تمام مسائل کی ذمہ داری سول اور ملٹری بیو رو کریسی پر ہے۔پاکستان کے عوام نے آپ کو کبھی نہیں چھوڑا۔جو سول اور ملٹری بیورو کریسی پاکستان کو تباہ و برباد کر رہی ہے ،ستر سالوں میں،اس نے آپ کو کہاں سے انصاف دینا ہے۔آپ نے یہ فرمایا کہ باڑ بنائی گئی،کیمپ بند کئے گئے،تو یہ بھی تو فرمائیں کہ اس وقت ایک ڈکٹیٹرموجود تھا،اس ڈکٹیٹر نے پاکستان پر قبضہ کیا ہوا تھا،نہ اس نے کسی سے مشورہ کیا،اس نے اپنی ذاتی صوابدید پر ،ڈنڈے کے زور پر،جو اس کی سمجھ میں آیا ،وہ اس نے کیا۔لہذا یہ قصور نہ پاکستان کا ہے ،نہ پاکستانی عوام کا ہے،وہ ان چند لوگوں کا ہے جن کو حکومت پاکستان کہتے ہیں ،جن کو بیوروکریسی کہتے ہیں،جن کو لوگوں نے تنخواہیں اس لئے دیں کہ وہ پاکستان کا کیس لڑیںگے،اس لئے نہیں دیں کہ وہ پاکستان کی طرف سے ،،، ۔میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں۔

دوسرا آپ مجھے یہ بتائیں،میں آپ سے سوال کرتا ہوں ،وانی صاحب نے میڈیا کی بات کی،آپ کو،ہم کو پتہ ہے کہ روزانہ جو مقبوضہ کشمیر کے نیوز پیپرز ،جو نیٹ پہ دیکھتے جا سکتے ہیں،اس میں آزاد کشمیر کی کتنی نمائندگی ہے؟لداخ،گلگت بلتستان،جموں کے لوگوں کی کتنی نمائندگی ہے؟اس میںکشمیری پنڈت کی کتنی نمائندگی ہے؟وہ سارے اخبارات ویلی میں موجود ہیں۔جب ہم ویلی کے لوگ نہیں بدلتے تو دوسرے سے ہم کیا گلہ کرسکتے ہیں۔دوسروں کو کیوں مورد الزام ٹہراتے ہیں۔ہمیں اپنے گریبان میں بھی جھانکنا چاہئے۔حریت کانفرنس ہمارے پاس موجود ہے،یہاں پاکستان چیپٹر ہے،وہاں جو چیپٹر ہے وہ کتنے ظلم و ستم سے گزر رہا ہے،مگر آپ مجھے یہ تو بتائیں کہ32،33،34،35،36جماعتیں کیوں ہیں؟کیوں ایک جماعت نہیں ہیں؟وہ ایک جماعت میں کیوں مدغم نہیں ہو جاتے؟وہ ایک آواز کیوں نہیں بن جاتے؟یہ کس کا قصور ہے؟کون اس کا ذمہ دار ہے؟کم از کم پاکستان،یہاں بیٹھے لوگ اس کے ذمہ دار نہیں ہیں۔میرے دادا نے1920میں ہجرت کی ،میرے والد ،میری دادی،ہم تیسری نسل یہاں پاکستان میں رہ رہے ہیں ،ہمیں تو کسی تعصب کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔غلطیاں ہیں تو ہماری اپنی ہیں۔آپ نے کہا کہ پاکستان کی قیادت نے غلط فیصلے کئے ،آپ نے بالکل درست فرمایا،کیا کشمیر کی قیادت نے غلط فیصلے نہیں کئے ؟کیا شیخ عبداللہ صاحب کشمیر کے نہیں تھے،مولانا یوسف اور دوسروں کے دوران لڑائی نہیں ہوئی جو مسلم کانفرنس کے لوگ تھے،کیا محبوبہ مفتی کشمیری نہیں ہیں،کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ جو پرو انڈین ہیں ،جو انڈین گورنمنٹ کے ساتھ ہیں ،جو انڈیا کے حق میں بات کرتے ہیں وہ کشمیری نہیں ہیں،ہیں جناب بالکل ہیں،کشمیری گورنمنٹ میں بھی ہیں،کشمیری پارلیمنٹ میں بھی ہیں ،کشمیری آرمڈ فورسز میں بھی ہیں،کشمیری پولیس میں بھی ہیں،جموں و کشمیر کی ساری پولیس کیا کشمیریوں پر مشتمل نہیں ہے،کیا وہ ظلم و ستم کے ساتھی نہیں ہیں،تو جہاں ہماری غلطیاں ہیں وہاں کشمیریوں کی بھی غلطیاں ہیں،تو ہمیں کھل کر یہ بات کہنی چاہئے کہ،کیونکہ یہاں بہت سے نوجوان ایسے بیٹھے ہیں جن کے پاس کشمیر کے بارے میں وہ علم نہیں جو میرے اور آپ کے پاس ہے۔پھر آپ نے بتایا کہ کشمیری کتنی قربانی دے رہے ہیں،یقینا قربانی دے رہے ہیں اس میں کوئی شک نہیں ہے،مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا ہے، امام احمد بن حنبل کو خلیفہ وقت نے کوڑے لگانے کی سزا سنائی تو ان کے ساتھ قید ایک مشہور ڈکیٹ نے ان سے کہا کہ ہمت نہ ہارنا،میں نے جرائم کی وجہ سے سینکڑوں کوڑے کھائے ہیں لیکن میں پیچھے نہیں ہٹا، تم توانصاف کے لئے کوڑے کھا رہے ہو اس لئے تم پیچھے نہ ہٹنا۔ہم یہاں بیٹھ کر کشمیری اور پاکستانی سارے کیا امریکن سٹیزن شپ کے لئے ،یورپ کے لئے کیمپس میں نہیں رہتے،سالہا سال انتظار نہیں کرتے رہتے،کیونکہ ہمیں پتہ ہے کہ ہم ادھر جائیں گے تو ہمارا مستقبل روشن ہے،یقینی ہے تابناک ہے،ہمارے بچوں کا مستقبل روشن ہے،ایسا ہی کشمیر کے معاملے میں ہے،انشا ء اللہ جب بھی کشمیری پاکستان میں شامل ہوں گے تو ان کا اور ان کی نسلوں کا مستقبل روشن ہو گا۔

آپ نے یہ بات کی کہ آزاد کشمیر کے بچے باغی ہو رہے ہیں،آپ نے بالکل ٹھیک بات کی،مگر آپ یہ بتائیں کہ کتنے اشوز ہیں جو کہ آپ کو پاکستان گورنمنٹ کے ساتھ ہیں اور کتنے اشو ز لوکل ہیں۔آزاد کشمیر میں مقامی الیکشن ہوتے ہیں تو وہاں ٹرانسپیریسی قائم کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟اے جے کے گورنمنٹ کی یا پاکستان گورنمنٹ کی؟جو فنڈز پہلے ہی انہیں دیئے جاتے ہیںاس کو مناسب طور پر خرچ کرنا کس کی ذمہ داری ہے،آزاد کشمیر یا پاکستان گورنمنٹ کی،ایسا ہی گلگت بلتستان کے معاملے میں ہے اور ایسا ہی لداخ اور ایسا ہی مقبوضہ کشمیر میں بھی ہے۔کشمیری کے طور پر میں یہ سمجھتا ہوں کہ جب تک ہم اپنے آپ کو درست نہیں کرتے ،سکائی از دی لمٹ، آپ جتنا کام بہتر کر سکتے ہیں وہ کریں،باقی پاکستان گورنمنٹ کے ساتھ کشمیریوں کے ساتھ چھوٹے چھوٹے اشوز ہیں،وہ کوئی بڑے اشوز نہیں ہیں۔آپ پڑہنے لکھنے والے آدمی ہیں،آپ کے والد صاحب خواجہ عبدالصمد وانی ہمارے محترم بزرگوں میں سے تھے،انہوں نے بہت کام کیا،آپ بتائیں کہ آزاد کشمیر کی یونیورسٹیوں میںکتنا کشمیر پر،مقبوضہ کشمیر پر،لداخ پہ،گلگت بلتستان پہ،جموں پہ علمی کام ہو رہا ہے؟جواب کہ کوئی کام نہیں ہو رہا۔ایک گھنٹے میں 260سے زیادہ ٹوئٹس کشمیر پر ہوتی ہیں،اس میں صرف 6آزاد کشمیر کی ہوتی ہیں اور وہ بھی سلام دعا کی ہی ہوتی ہیں۔ایک سو حریت کے بچوں کی ہوتی ہیں،باقی160سب انڈین ہوتے ہیں،تو سوشل میڈیا پہ کام کرنے سے ہمیں کون روکتا ہے۔میری زندگی کا تجربہ ہے کہ جب جہاں کوئی پرابلم ہوتی ہے کوئی آواز اٹھتی ہے تو دوسرا فریق بھی کچھ نہ کچھ اس کا ذمہ دار ہوتا ہے،صرف اکیلا نہیں۔آپ نے شملہ معاہدہ کی بات کی،شملہ معاہدہ بنیادی طور پرایک قانونی دستاویز ہے،شملہ سمجھوتہ یہ کہتا ہے کہ انڈیا اور پاکستان اپنے باہمی تنازعات بات چیت سے حل کریں گے،انڈیا خود کہتا ہے کہ میرا جھگڑا ہے چین سے اقصائے چن پر جو کشمیر کا حصہ ہے،تو کشمیر ایک باہمی معاملہ نہیں ہے بلکہ تھرڈ پارٹی اشو ہے۔اگر کشمیریوں کو نکال بھی دیں تو پاکستان،انڈیا ،چائنا تینوں اس کے فریق ہیں۔آخری لائین اس میں لکھی ہے کہ پاکستان کے لوگ اتنے کمزور نہیں تھے انہوں نے کہا تھا کہ ہم یونائیٹڈ نیشن کے چارٹر کے حوالے سے بات کریں گے،چارٹر میں یہی ہے کہ جب دو ملک آپس میں تبازعہ پر بات چیت کرتے ہیں ،تنازعہ حل نہیں ہوتا تو یو این آ جاتی ہے،شملہ معاہدے سے ہمارے کوئی ہاتھ نہیں کاٹے گئے۔یہاں تین نسلوں کا بدلہ لیا جاتا ہے ،ہم کشمیریوں کو کیسے بھول سکتے ہیں۔

میرے نزدیک اصل مسئلہ یہ ہے کہ کشمیر بنیادی طور پر سیاسی مسئلہ ہے،یہ سیکورٹی اشو نہیں ہے،سیکورٹی کی اپنی ذمہ داریاں ہیں ،فوج ہے،آرمڈ فورسز ہیں،وہ سارے اپنے محاذ پہ ڈٹے ہوئے ہیں اور کامیاب ہیں۔انڈیا کو معلوم ہے کہ کشمیر پر اس کا قبضہ غاصبانہ ہے،جب تک چلتا ہے چلائو۔وانی صاحب جب بھی آتے ہیں یہی تقریر کرتے ہیں اور میں اپنا کام بھول کر دوسرے کام شروع کر دیتا ہوں۔میں نے صدر پاکستان کے پرنسپل سیکرٹری کے طور پر 5فروری کے حوالے سے حریت کانفرنس ، آزاد کشمیر حکومت اور گلگت بلتستان حکومت کی صدر پاکستان سے الگ الگ ملاقاتیں کرائیں۔آزاد کشمیر والے بار بار ہمیںکہیں کہ فارن آفس ہمیں بریفنگ نہیں دیتا۔سیکرٹری فارن آفس اعزاز صاحب وہاں موجود تھے،انہوں نے کہا کہ ہم نہیں دیتے تو انہوں نے کبھی ہمیں خط لکھا کہ ہمیں برفنگ دی جائے؟آزاد کشمیر کے صدر ،وزیر اعظم فارن آفس کو خط لکھ کر کہہ سکتے ہیں کہ انہیں کشمیر کے حوالے سے بریفنگ دی جائے۔پاکستان ووٹ کی طاقت سے بنا تھا۔1946کے الیکشن میں عوام نے من حیث القوم پورے ہندوستان کے مسلمانوں نے یہ فیصلہ کیا ،یہ ریفرنڈم تھا کہ پاکستان بننا ہے یا نہیں بننا۔کشمیر ہمیشہ سے پاکستان کا حصہ ہے،1933میں جب رحمت علی نے پاکستان کا نام تجویز کیا تو پاکستان کا 'ک'کشمیر کا تھا،کشمیر کبھی متنازعہ نہیں تھا۔میرا یقین ہے کہ ریفرنڈم جب بھی ہو گاتو کشمیری جوق در جوق پاکستان کو ووٹ دیں گے۔اور اگر کسی وجہ سے نہیں دیتے تو یہ ان کا حق ہے ،ہم اس کا احترام کرتے ہیں،ان کو سلوٹ کرتے ہیں اور مکمل طور پر اس کی تائید کرتے ہیں۔
تحریر۔11فروری2019



واپس کریں