اطہرمسعود وانی
انہی دنوں ایک ٹی وی مزاکرے میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے اس بات کی تصدیق کی کہ وہ مفتاح اسماعیل، بیرسٹر مصطفی نواز کھوکھر و دیگر شخصیات کے ساتھ مل کر ایک نئی سیاسی جماعت قائم کرنے پہ کام کر رہے ہیں۔اسی مزاکرے میں شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل نے سیاسی جماعت میں موروثی سیاست کی مخالفت کی اور سیاسی جماعت کے بنیادی اصولوں کو مدنظر رکھنے کی ضرورت پہ زور دیا۔ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے نام پہ علاقائی، لسانی ، خاندانی اور شخصی گروپ قائم ہیں جو خود کو سیاسی جماعت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
یہاں یہ دیکھنا ضروری ہو جاتا ہے کہ سیاسی جماعت کے ایسے کون سے بنیادی اصول ہوتے ہیں جو ایک سیاسی جماعت کے لئے ناگزیر ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں سیاسی جماعتوں میں بنیادی اصول پس پشت ڈالنے کی وجہ سے کم افراد ہی ایسے ہیں جو سیاسی جماعت کے لازمی لوازمات کو سمجھتے ہیں۔سیاسی جماعت کی سب سے اہم ضرورت یہ ہوتی ہے کہ اس کا لیڈر چاہے کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو، وہ فیصلے کرنے میں کلی اختیار نہیں رکھتا بلکہ ورکنگ کمیٹی(مجلس عاملہ) کے فیصلے کا پابند ہوتا ہے۔مروجہ سیاست میں لیڈر کو فیصلے کرنے میں کلی اختیار دینے کے لئے ایک حربہ یہ بھی استعمال کیا جاتا ہے کہ مجلس عاملہ کے ارکان کی تعداد اتنی زیادہ رکھ دی جاتی ہے کہ اس فورم میں کسی معاملے کو زیر غور لاتے ہوئے اس پہ بحث اور کثرت رائے سے فیصلہ کرنا ممکن نہیں رہتا ۔1950کی دھائی کے آخر میں آزاد کشمیر کی سیاسی جماعت مسلم کانفرنس کے صدر چودھری غلام عباس کو ہنگامی صورتحال کے پیش نظر مجلس عاملہ نے چند ماہ کے لئے آمر کے اختیار تفویض کئے تا کہ وہ ہنگامی صورتحال میں مجلس عاملہ سے منظوری کے بجائے از خود فیصلہ کر سکیں۔
حقیقی سیاسی جماعت میں اصول، نظرئیے کی بنیاد پہ مخالفت کرنے والے کو جماعت کا حقیقی خیر خواہ تصور کیا جاتا تھا لیکن اب کی سیاست میں جماعتی رہنمائوں پہ اصلاح کے لئے تنقید کرنے والے کو ناپسندیدہ قرار دیا جاتا ہے اور اسے جماعت کا مخالف تصور کیا جاتا ہے۔آج کی سیاسی جماعتوں کے اندر خوشامد کا کلچر مضبوطی سے قائم ہے اور جماعت کے نظریات کے بجائے جماعتی لیڈر کی شخصیت سے محبت پر زور دیتے ہوئے اسی کا پرچار کیا جاتا ہے۔یعنی شخصیت پرستی کا چلن ہے۔پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں میں ایک بھی ایسی سیاسی جماعت نظر نہیں آتی جسے سیاسی جماعت کے اصولوں کے مطابق چلایا جا رہا ہو۔نام تو سیاسی جماعت کا ہے لیکن حقیقت میں سیاسی جماعت کے نام پہ خاندانی، شخصی، علاقائی ،لسانی یا فرقہ وارانہ گروپ ہیں۔
سیاسی جماعتوں میں مجلس عاملہ کے کردار کو نمائشی انداز میں رکھا جاتا ہے اور فیصلوں میں مشاورت کے لئے پارلیمانی پارٹی سے مجلس عاملہ کا کسی حد تک کام لیا جاتا ہے۔سیاسی جماعتوں میں ایسی شخصیات ناپید ہو چکی ہیں کہ جو انتخابی سیاست میں حصہ نہ لیتی ہوں اور جماعت کی فیصلہ سازی میں ان کا کردار اہم ہو۔پاکستان میں آئین و قانون کی بالادستی کی سوچ اور خواہش تو پائی جاتی ہے لیکن اس حوالے سے کوشش نہ ہونے کے برابر ہے۔سیاسی جماعتیں ملک پہ مسلط ہائبرڈ نظام کی ماتحتی میں حکومت حاصل کرنے پہ ہر دم آمادہ رہتی ہیں اور حکومتی مفادات حاصل کرنے لئے ان کے درمیان کھینچاتانی جاری رہتی ہے۔سیاسی جماعتوں کے موجودہ طریقہ کار کو دیکھتے ہوئے یہ امید کرنا خود فریبی ہے کہ سیاسی جماعتوں سے آئین وقانون ، پارلیمنٹ کی بالادستی کی جدوجہد کی توقع رکھی جائے۔
اطہر مسعودوانی
03335176429
واپس کریں