دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ظلم وجبرکی بدترین صورتحال میں مقبوضہ کشمیر اسمبلی الیکشن کی حیثیت
اطہرمسعود وانی
اطہرمسعود وانی
اطہر مسعود وانی

مقبوضہ جموں وکشمیر اسمبلی کے الیکشن ایسی صورتحال میں کرانے کا اعلان کیا گیا ہے کہ جب مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں، اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق پرامن ، منصفانہ طور پر حل کرنے کا مطالبہ کرنے والی تمام آزادی پسند جماعتوں کے رہنمائوں کو مختلف الزامات میں سالہا سال سے جیلوں میں قید ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی ہٹ دھرمی،دھونس کی مخالفت اور مذمت کرنے پر گرفتار اور قید کر دیا جاتا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ جس پر مخالفانہ بات کرنے کا شک بھی ہو، اسے بھی گرفتار کے کے جیل میں قید کر دیا جاتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے سیاسی رہنمائوں، کارکنوں کو بھارت کی دور دراز علاقوں کی جیلوں میں بری حالت میں قید رکھا گیا ہے۔آزاد ی کی مزاحمتی تحریک میں شامل افراد کی جائیدادیں ضبط کرنے کا سیاہ قانون نافذ کرتے ہوئے ایک ہزار سے زائد رہائشی، کمرشل عمارات اور آراضی مستقل طور پر ضبط کی گئی ہے۔مختصر یہ کہ دس لاکھ کے قریب بھارتی فوجیوں، نیم فوجی دستوں کو نہتے کشمیریوں کے خلاف حالت جنگ کی طرح متحرک کرتے ہوئے کشمیریوں کو بندوق کی نوک پہ رکھا گیا ہے۔ خود بھارتی میڈیا اور عالمی اداروں و تنظیموں نے کشمیریوں کو بندوق کی نوک پر خاموش رکھنے کی صورتحال کی تصدیق کی ہے۔گزشتہ چند ماہ سے جموں کے پہاڑی اضلاع میں کشمیریوں کی مسلح مزاحمتی تحریک میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے اور ان کے مختلف حملوں میں متعدد افسران سمیت 60سے زائد بھارتی فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔

بھارتی الیکشن کمیشن کے اعلان کے مطابق مقبوضہ جموں وکشمیر کی ریاستی اسمبلی کی90سیٹوں کے الیکشن تین مراحل میں18ستمبر سے ہوں گے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر اسمبلی الیکشن تین مراحل میں18ستمبر،25ستمبر اور یکم اکتوبر کو کرائے جائیں گے۔پولنگ کے پہلے مرحلے میں 18 ستمبر کو پلوامہ، اسلام آباد، شوپیاں، کولگام، رام بن، کشتواڑ اور ڈوڈہ میں 24 سیٹوں پرالیکشن کرائے جائیں گے ۔ دوسرے مرحلے میں 26 سیٹوں پر 25 ستمبر کو گاندربل، سری نگر، بڈگام، پونچھ، ریاسی اور راجوری اور یکم اکتوبر کو آخری مرحلے میں 40 سیٹوں پربانڈی پورہ، کپوارہ، بارہمولہ، ادھم پور، جموں، سانبہ اور کٹھوعہ میں الیکشن ہوں گے۔مقبوضہ جموں و کشمیر اسمبلی کی نشستوں کی مجموعی تعداد 119 ہے۔ ان میں سے پانچ کو نامزدگی کے ذریعے پورا کیا جاتا ہے جب کہ 24 نشستیں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے لیے محفوظ رکھی گئی ہیں۔

5اگست2019کے اقدام کے بعد گزشتہ پانچ برسوں کے دوران وفاقی حکومت اور مقامی انتظامیہ نے کئی قوانین میں ترمیم کی ہے اور متعدد ایسے نئے قوانین متعارف کرائے ہیں جس کے نتیجے میں جموں و کشمیر کے اختیارات میں مزید کمی آگئی ہے۔جموں و کشمیر کے سابق وزرائے اعلی عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی نے اعلان کیا ہے کہ جب تک جموں و کشمیر وفاق کا زیرِ انتطام علاقہ رہے گا وہ اسمبلی انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے۔جمعے کو جموں و کشمیر اسمبلی کے انتخابات کے شیڈول کا اعلان ہوا تو مرکز کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سوا مقبوضہ کشمیر کی تمام بھارت نواز سیاسی جماعتوں نے جموں و کشمیر کا ریاست کا درجہ بحال کرنے کا مطالبہ دہرایا ہے۔بھارت نواز سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس کے صدر اور سابق وزیرِ اعلی ڈاکٹر فاروق عبد اللہ نے کہا کہ جموں و کشمیر کا ریاست کا درجہ بحال کیا جانا چاہیے تاکہ قانون سازی کے اختیارات مکمل طور پر ریاستی اسمبلی کو لوٹائے جاسکیں۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس وقت جموں و کشمیر کے لیے قوانین بھارتی پارلیمان میں بنائے یا ترمیم کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ جموں و کشمیر کے لیے سالانہ بجٹ نئی دہلی میں پارلیمنٹ میں پاس ہوتا ہے اور دیگر اہم انتظامی فیصلے بھی یا تو وفاقی حکومت کرتی ہے یا حکومت کا مقرر کردہ لیفٹننٹ گورنر اس کا مجاز ہوتا ہے۔

مقبوضہ جموں ،کشمیر و لداخ اسمبلی کے آخری انتخابات 2014 میں ہوئے تھے جبکہ بھارتی حکومت کی طرف سے 5اگست2019کو مقبوضہ کشمیر کی ریاستی حیثیت ختم اور ریاست کو بھارت کی مرکزی حکومت کے زیر انتظام علاقوں کے طور پر جموں و کشمیر اور لداخ کے دو الگ حصوں میں تقسیم بھی کیا گیا ۔مقبوضہ جموں وکشمیر کی ریاستی اسمبلی کے الیکشن10سال کے بعد کرائے جا رہے ہیں۔19 جون 2018 کو پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کے خاتمے کے بعد مقبوضہ جموں وکشمیر میں گورنر راج نافذ کر دیاگیا تھا۔ وزیر اعلی محبوبہ مفتی نے بھارتی حکومت سے تنگ آ کر اپنی حکومت ختم کردی تھی، اس پر بھارتی گورنر نے بھارتی حکومت کی ایماء پہ نئے وزیر اعلی کے انتخاب کے بجائے گورنر راج نافذ کر دیا تھا۔5اگست2019کو بھارتی حکومت نے مقبوضہ جموں وکشمیر کی ریاستی حیثیت ختم کرتے ہوئے ریاست کو دوحصوں( جموں وکشمیر اور لداخ) میں تقسیم اور مرکز کے زیر انتظام علاقے کی حیثیت دے دی تھی۔اس اقدام کے لئے بھارتی حکومت نے پہلے ہی مقبوضہ کشمیر میں تین لاکھ سے زائد سیکورٹی فورسز بھارت سے مقبوضہ کشمیر متعین کی جہاں پہلے ہی تقریبا دس لاکھ فوج متعین تھی۔ بھارتی حکومت نے اس اقدام سے پہلے ہی مقبوضہ کشمیر کے تمام سیاسی، سماجی رہنمائوں، انسانی حقوق کے کارکنوں کو قید کر دیا جو ایک سال سے زائد عرصہ قید میں رہے۔

مقبوضہ جموں وکشمیر میں 1986-87میں آزادی پسند جماعتوں کے اتحاد مسلم متحدہ محاذ نے اس عہد کے ساتھ ریاستی اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لیا کہ الیکشن میں کامیابی اور حکومت کی تشکیل کے بعد مقبوضہ کشمیر اسمبلی کی بھارت سے الحاق کی نام نہاد قرار داد کو ختم کر دیا جائے گا۔مقبوضہ کشمیر کے نوے فیصد شہری مسلم متحدہ محاذکے پلیٹ فارم پہ متحد ہوگئے۔کشمیریوں کی مسلح مزاحمتی تحریک کی تنظیموں کے اتحاد متحدہ جہاد کونسل کے موجودہ سربراہ سید محمد یوسف شاہ المعروف سید صلاح الدین نے مسلم متحدہ محاذ کے ایک امیدوار تھے اور یاسین ملک سمیت مسلح مزاحمتی تحریک کے کئی کمانڈر ان کے باڈی گارڈ تھے۔ بھارتی حکومت نے اس الیکشن میں بدترین دھاندلی کرتے ہوئے مسلم متحدہ محاذ کے امیدواروں کو الیکشن میں ہروایا اور بھارت نواز جماعت کے امیدواروں کے کامیاب ہونے کا اعلان کرایا۔اس پہ مقبوضہ کشمیر میں عوامی سیاسی تحریک شروع ہوگئی اور بھارت کے خلاف لاکھوں کے جلوس، مظاہرے اور جلسے ہونے لگے۔ اس پہ بھارتی حکومت نے فورسز کے ظالمانہ استعمال سے کشمیریوں کو دبانے کی کاروائیاں شروع کر دیں۔ اس صورتحال میں کشمیریوں نے بھارت کے خلاف سیاسی جدوجہد کے ساتھ ساتھ مسلح مزاحمتی تحریک بھی شروع کر دی۔ کشمیریوں کی یہ تحریک اقوام متحدہ کی زیر نگرانی رائے شماری کے ذریعے مسئلہ کشمیر کے پرامن، منصفانہ حل کے مطالبے کے ساتھ بھارت کے خلاف تحریک شروع ہوئی جو گزشتہ 38سال سے مسلسل جاری و ساری ہے۔

اس دوران اب تک ایک لاکھ سے زائد کشمیری بھارتی فورسز کے ہاتھوں شہید ہوئے ہیں، مقبوضہ کشمیر کے ہر علاقے میں شہداء کے قبرستان قائم ہوئے، مختلف علاقوں میں کشمیریوں کی سینکڑوں اجتماعی قبریں ہیں جنہیں بھارتی فوج نے شہید کرنے کے بعد انہیں خفیہ طور پر اجتماعی قبروں میں دفن کیا، بڑی تعداد میں خواتین کی عصمت دری کے واقعات پیش آئے جس میں کنن پوش پورہ کا واقعہ بھی شامل ہے جس میں کنن پوش پورہ نامی گائوں کا بھارتی فوج نے محاصرہ کرتے ہوئے سات سال کی معصوم بچی سے لے کر ستر سال کی ضعیف خاتون کی عصمت دری کی، ہزاروں بھارتی تشدد سے معذور، ہزاروں ٹارچر سیلز اور ہزارو ں جیلوں میں قید کئے گئے، بھارتی فورسز کے ہاتھوں اجتماعی قتل عام کے درجنوں واقعات پیش آئے۔ بھارت کے ان انسانیت سوز بھیانک مظالم، انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں کے مسلسل سلسلے کے خلاف اقوام متحدہ، عالمی تنظیموں سمیت کئی یورپی ملکوں کی متعدد رپورٹس سامنے آ چکی ہیں۔

بھارتی حکومت کے 5اگست2019کے اقدام کے باوجود مقبوضہ جموں وکشمیر اور مسئلہ کشمیر کی عالمی سطح پہ متنازعہ حیثیت میں کوئی فرق نہیں پڑا۔بھارت کشمیر کا مسئلہ اپنی فوجی طاقت کے بھر پور اور ظالمانہ استعمال سے حل کرنے کی پالیسی پہ عمل پیرا ہے۔اس کے ساتھ ہی بھارتی حکومت مقبوضہ جموں وکشمیر میں ڈیموگریفک چینجز کے ذریعے مسلمانوں کی تعداد کم کرنے کے مرحلہ وار منصوبے پر عمل بھی کر رہی ہے۔کشمیر میں شہریوں کے خلاف متعدد غیر منصفانہ، غیر انسانی قوانین اور فورسز کے ظالمانہ استعمال سے بندوق کی نوک پر خاموش اور مجبور کیا جا رہا ہے۔ بھارت جس طرح مسئلہ کشمیر کشمیرکے عوام کی رائے دہی سے حل کئے جانے کے اقوام متحدہ، عالمی برادری سے کئے گئے اپنے عہد سے مکر گیا ۔ پھر بھارت نے کشمیر کا مسئلہ پاکستان کے ساتھ مزاکرات سے پرامن اور منصفانہ طور پر حل کرنے کا عہد کیا لیکن پھر مختلف بہانے بناتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے مزاکرات سے راہ فرار اختیا ر کرتا آ رہا ہے۔ عالمی برادری سے بھی بھارت یہی کہتا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ پاکستان کے ساتھ مزاکرات سے حل کیا جائے گا لیکن بھارت کے اس عہد کو بھی پچاس سال ہو چکے ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ بھارت ظلم وجبر، قتل و غارت گری، سیاسی و دیگر سازشوں کا ہر حربہ استعمال کرنے کے باوجود کشمیر کو ہتھیانے میں ناکام ثابت ہوا ہے۔کشمیر کا مسئلہ ایک سیاسی مسئلہ ہے لیکن بھارت اپنی بڑی فوجی طاقت کے زعم میں کشمیر کا مسئلہ بندوق کے نوک پر حل کرنا چاہتا ہے۔ آزادی کے لئے کشمیریوں کی مزاحمتی تحریک عشروں سے ، نسل در نسل جاری ہے۔



واپس کریں