دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ریاست جموں وکشمیر1947کے چند تاریخی حقائق، ریکارڈ درست رکھنے کے لئے
اطہرمسعود وانی
اطہرمسعود وانی
آزاد کشمیر میں بعض حلقوں کی طرف سے ریاست جموں وکشمیر کے تاریخی حقائق کو غلط انداز میں پیش کرتے ہوئے من پسند تعبیر کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ریکارڈ کو درست رکھنے کے لئے تاریخی حقائق کی تفصیل درج ذیل مضمون میں بیان کی جا رہی ہے۔( بحوالہ کتاب '' کشمیر کی کہانی '' از خواجہ عبدالصمد وانی)۔ قرار داد الحاق پاکستان کا متن کشمیر کے معروف دانشور ، صحافی ، سیاسی رہنما پنڈت پریم ناتھ بزاز کے اخبار میں شائع ہوا تھا۔ خواجہ عبدالصمد وانی نے 1954-55میں اپنے دورہ دہلی میں پنڈت پریم ناتھ بزاز سے ملاقات کی تھی اور ان کا وہ اخبار بھی ساتھ لائے تھے جس میں اس قرار داد کا متن شائع ہوا تھا۔ وانی صاحب نے بعد ازاں اس قرار داد کا متن ہفت روزہ کشیر میں شائع کیا تو اس قرار داد کا مکمل متن سب کے علم میں آیا۔

3 جون 47 ء کے قانون آزادی ہند میں ریاستوں کا حق الحاق!
15 اگست 47 ء کو برصغیر پاک و ہند کی آزادی کے وقت 600 دیسی ریاستوں کے مستقبل کا سوال سامنے آیا۔ یہ ریاستیں ہندومہاراجوں مسلمان نوابوں اور سکھ سرداروں کے قبضے میں تھیں۔ 3 جون 47 ء کے قانون آزادی ہند میں ان ریاستوں کو یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ بھارت یا پاکستان سے الحاق کریں یا دونوں سے الگ آزاد رہیں۔ مگر اس صورت میں حکومت برطانیہ ان کو دولت مشترکہ میں شامل نہیں کرے گی۔ 25 جولائی 47 ء کو برصغیر میں انگریزی حکومت کے آخری نمائندہ یعنی وائسرائے لارڈ مونٹ بیٹن نے والیان ریاست ہائے ہند کو چیمبر آف پرنسز کے ایڈریس کے جواب میں ریاستی حکمرانوں کو مشورہ دیا کہ وہ الحاق کے سوال کا فیصلہ کرتے وقت ملکی حالات، عوام کی خواہشات اور ریاست کے جغرافیائی محل وقوع کا خیال رکھیں۔ انہوں نے ان کو متنبہ کیا تھا کہ وہ خود مختار رہنے کی لائن پر نہ سوچیں کیونکہ ایسا کرنا عوام کے مفاد سے غداری ہوگی۔ ان حالات میں جموں وکشمیر کی صورتحال واضح تھی ۔یہاں مسلمانوں کی آبادی 77 فیصد سے بھی زیادہ تھی البتہ حکمران ہندو تھا۔ ریاست کی قابل عبور سرحد کا بیشتر حصہ پاکستان سے ملتا تھا۔ سیاسی اقتصادی جغرافیائی اور اس قسم کے دیگر تمام امورات پاکستان سے الحاق کے حق میں جاتے تھے۔ یہ بات بھی محل نظر تھی کہ یہاں کے عوام بالخصوص مسلمان عوام ربیع صدی سے ڈوگرہ راج کے خلاف جدوجہد آزادی میں مصروف تھے۔ چنانچہ 47 ء میں بھی مسلم کانفرنس کے صدر چوہدری غلام عباس اور ان کے ساتھی نیشنل کانفرنس کے لیڈر شیخ محمد عبداللہ او ران کے رفقاء تحریک آزادی کے سلسلے میں قید تھے۔ یہاں کے عوام کی غالب اکثریت الحاق پاکستان کے حق میں ہے۔ چنانچہ 19 جولائی 47 ء کو سری نگر میں چوہدری حمیداللہ خان مرحوم کی صدارت میں مسلم کانفرنس کی ایک نمائندہ کنونشن نے ایک قرارداد کے ذریعے الحاق پاکستان کا پرزور مطالبہ کیا ۔

قرارداد الحاق پاکستان
ا۔آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کی یہ کنونشن اس قرارداد کے ذریعے قیام پاکستان پر اپنے اطمینان قلبی اور مسرت کا اظہار کرتے ہوئے قائداعظم کو اپنی مبارکباد پیش کرتی ہے۔
ب۔ برصغیر کی ریاستوں کے عوام کو امید تھی کہ وہ برطانوی ہندوستان کے دوسرے باشندوں کے دوش بدوش قومی آزادی کے مقاصدکوحاصل کریں گے اور تقسیم ہندوستان کے تمام باشندے آزادی سے ہمکنار ہوئے۔ وہاں 3 جون1947 ء کے اس اعلان نے برصغیر کی نیم خود مختار ریاستوں کے حکمرانوں کے ہاتھ مضبوط کئے ہیں اور جب تک یہ مطلق العنان حکمرا ن وقت کے جدید تقاضوں کے سامنے سرتسلیم خم نہ کریں گے۔ ہندوستانی ریاستوں کے عوام کا مستقبل بھی تاریک رہے گا۔ ان حالات میں ریاست جموں وکشمیر کے عوام کے سامنے صرف تین راستے ہیں۔
(i)۔ ریاست کا بھارت سے الحاق
( ii )۔ ریاست کا پاکستان سے الحاق
(iii)۔ کشمیر میں ایک آزادو خود مختار ریاست کا قیام
مسلم کانفرنس کی یہ کنونشن بڑے غوروخوض کے بعد اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ جغرافیائی اقتصادی لسانی و ثقافتی اور مذہبی اعتبار سے ریاست کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہایت ضروری ہے۔کیونکہ ریاست کی آبادی کا 80 فیصد حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے اور پاکستان کے تمام بڑے دریا جن کی گزر گاہ پنجاب ہے کے منبع وادی کشمیر میں ہیں اور ریاست کے عوام بھی پاکستان کے عوام کے ساتھ مذہبی ثقافتی اور اقتصادی رشتوں میں مضبوطی سے بندھے ہوئے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ ریاست کا الحاق پاکستان سے کیا جائے ۔ یہ کنونشن مہاراجہ کشمیر سے پرزور مطالبہ کرتا ہے کہ کشمیر ی عوام کو داخلی طورپر مکمل خود مختاری دی جائے اور مہاراجہ ریاست کے آئینی سربراہ کی حیثیت اختیار کرتے ہوئے ریاست میں ایک نمائندہ قانون ساز اسمبلی کی تشکیل کریں اوردفاع مواصلات اورامو رخارجہ کے محکمے پاکستان دستور ساز اسمبلی کے سپرد کئے جائیں۔
کنونشن یہ قرار دیتی ہے کہ حکومت کشمیر نے ہمارے یہ مطالبات تسلیم نہ کئے اور مسلم کانفرنس کے اس مشورے پر کسی داخلی یا خارجی دبائو کے تحت عمل نہ کیاگیا اورریاست کا الحاق ہندوستان کی دستور ساز اسمبلی کے ساتھ کردیا گیا۔ تو کشمیری عوام اس فیصلے کی مخالفت میں اٹھ کھڑے ہوں گے اور اپنی تحریک آزادی پورے جوش و خروش سے جاری رکھیںگے۔
یہ تاریخی قرارداد آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے اجلاس خاص (کنونشن) نے 19 جولائی 1947 ء میں سری نگر میں پاس کی تھی۔
اس قرارداد میں حکمران کو خبر دار کیا گیا تھا کہ اگر عوام کی مرضی کے خلاف بھارت سے الحاق کرنے کی کوشش کی گئی تو مسلم عوام اس کی پوری طاقت کے ساتھ مخالفت کریں گے۔5 ستمبر 47 ء کو کسان مزدور کانفرنس کی مجلس عاملہ نے عبدالسلام یاتو کی صدارت میں ایک قرارداد کے ذریعے مطالبہ کیا کہ ریاست جموں وکشمیر میں مسلمانوں کی بھاری اکثریت ہے اور ریاست کے جغرافیائی محل وقوع کا تقاضا ہے کہ ریاست کا الحاق پاکستان سے کیا جائے۔ اس قرارداد کی منظوری جماعت کی جنرل کونسل نے بھی کی تھی۔ 18 ستمبر 47 ء کو کشمیر سوشلسٹ پارٹی (جس میں ہندوئوں کی اکثریت تھی) نے بھی ایک قرارداد کے ذریعے ریاست کا الحاق پاکستان سے کرنے کا مطالبہ کیا ۔

کانگریسی سازش
نیشنل کانفرنس کی دار کونسل (جو مجلس عاملہ کی حیثیت میں کام کر رہی تھی) نے غلام محی الدین مہرہ کی صدار ت میں وسط اگست میں ایک جلسہ کیا۔ اس میں کل 13 ممبروں میں سے آٹھ ممبران نے الحاق پاکستان کے حق میں رائے دی ۔الغرض یہ بات صاف تھی کہ ریاست جموں وکشمیر کے عوام کی ٹھوس اور غالب اکثریت الحاق پاکستان کی خواہش مند ہے۔ لیکن مہاراجہ ہری سنگھ عوام کی خواہشات سے بے نیاز رہ کر کانگرسی لیڈر وں کے ساتھ ایک گہری اور عوا م دشمن سازش میں مصروف تھے کانگریسی لیڈر بھی ریاست کو بھارت میں شامل کرنے کے لئے بے تاب تھے اور اس مقصد کے لئے سازشوں میں لگے ہوئے تھے۔ 3 جون 47 ء کے اعلان سے چند دن قبل ہی کانگرس کے صدر آچاریہ کرپلانی کشمیر آئے اور یہاں نیشنل کانفرنسی کارکنوں ہندو لیڈروں اور مہاراجہ ہری سنگھ اور ا نکے مشیروں کے ساتھ پراسرار ملاقاتیں کرتے رہے۔ کانگریس کے کمیونسٹ لیڈر بھی ان دنوں بار بار کشمیرآئے۔ اگست 47 کے پہلے ہفتے میں کانگرس کے ''روحانی باپ'' گاندھی جی بھی غالباً زندگی میں پہلی اورآخری بار کشمیر چلے آئے۔ جونہی انہوں نے اپنے دورے کا اعلان کیا تو ریاست کے عوامی نمائندوں نے ان کے خلاف زبردست احتجاج کیا ۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ گاندھی جی کانگرسی لیڈروں اور ہری سنگھ کی ناپاک سازش کی آخری منزلیں طے کرانے آ رہے ہیں چنانچہ مسلم کانفرنس کی مجلس عمل کے صدر میر واعظ مولانا محمد یوسف شاہ نے گاندھی جی کی آمدسے چند دن قبل مندرجہ ذیل بیان جاری کیا،
''اگر مہاراجہ بہادر نے مسٹر گاندھی کے اثرورسوخ میں آکر کشمیر کو ہندو انڈیا میں شامل کیا تو ریاست میں خلل امن کا زبردست اندیشہ ہے ۔ مجھے امید ہے کہ مہاراجہ بہادر اس نازک ترین موقع پر تدبر سے کام لیں گے اور کوئی ایسا قدم نہیں اٹھائیں گے جس سے مسلمانان کشمیر کے ناراض ہو جانے کا اندیشہ ہو''۔
(روزنامہ ہمدرد سرینگر)
جب ریاست میں گاندھی جی کے دورے کے خلاف ایک طوفان برپا ہوا تو انہوں نے کشمیر جانے سے قبل دہلی میں ایک بیان جاری کیا،
'' میں کشمیر اس لئے نہیں جارہا ہوں کہ مہاراجہ بہادر پر کسی قسم کا دبائو ڈال دوں کہ وہ انڈین یونین میں شامل ہوں۔ اس سوال کا فیصلہ کرناکہ ریاست کو پاکستان میں شامل ہونا چاہئے یا ہندوستان میں وہاں کے عوام کا کام ہے۔میں اس میں کوئی دخل نہیں دینا چاہتا ۔ نہ میں وہاں نیشنل کانفرنس کے لیڈر شیخ عبداللہ اوران کے رفقاء کو جیلوں سے رہا کرانے کے لئے جا رہا ہوں''۔
(روزنامہ ''ٹریبون'' لاہور)
لیکن اس کے ساتھ ہی ٹریبون اپنے نامہ نگار خصوصی کے حوالہ سے مندرجہ ذیل خبر بھی شائع کی،
'' گاندھی جی کا دورہ کشمیر اس مقصد کے لئے ہو رہا ہے کہ مہاراجہ صاحب گاندھی جی سے ملاقات کریں گے اورالحاق کے بارے میں ان کا مشورہ حاصل کرینگے'' ۔
جب گاندھی جی اپنے اس پراسرار مشن کے سلسلہ میں کشمیر آئے تو بارہ مولااور سری نگر میں مسلم کانفرنس کی طرف سے ان کے خلاف زبردست مظاہرے ہوئے۔ مشتعل عوام نے ان کی کار پر پتھروں کی بارش کی''۔
ان کی سرینگر آمد پر صدر مسلم کانفرنس پارلیمنٹری بورڈ میجر سید علی احمد شاہ اسمبلی میں مسلم کانفرنسی پارٹی کے ڈپٹی لیڈر خواجہ غلام احمد جویلر اورپارٹی کے چیف وہپ سردار محمد ابراہیم نے مندرجہ ذیل مشترکہ بیان جاری کیا،
''ہمیں ڈر ہے کہ کہیں مہاراجہ بہادر پر انڈین ڈومینین کے ساتھ شامل ہونے کیلئے دبائو نہ ڈالا جائے اس لئے ہم مسلمانان کشمیر کی طرف سے یہ صاف ظاہر کر دینا چاہتے ہیں کہ ہم پاکستان ڈومینین کے ساتھ شامل ہوناچاہتے ہیں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ مسٹر گاندھی اپنے وعدے کی بناء پر اس بدنصیب ریاست کی سیاست میں دخل نہ دیں۔ اگر انہوں نے ریاست کی سیاست میں دخل دیاتو حالات بگڑ جائیں گے''۔
(روزنامہ ہمدرد سرینگر)
گاندھی جی نے آتے ہی 3 اگست کو مجاہد منزل میں نیشنل کانفرنس کے کارکنوں سے خطاب کیا اور انہیں مشورہ دیا کہ وہ مہاراجہ صاحب کے خلاف نہ بولیں ۔ اسی دن انہوں نے وزیراعظم کشمیر پنڈت رام چند کاک سے دوبار ملاقات کی ۔ مہاراجہ ہری سنگھ کے گروجی سے بھی ملے اور خود مہاراجہ ہری سنگھ سے بھی طویل ملاقات کی۔ اس کے بعد واپس چلے گئے ان کی واپسی کے ایک ہفتے بعد ہی وزیراعظم کا ک کو سبکدوش کر کے ایک ڈوگرہ جرنیل جنگ سنگھ کو وزیراعظم کشمیر مقرر کیا گیا۔ کاک کے متعلق یہ افواہ تھی کہ وہ ریاست کوخود مختار رکھنے کے حق میں تھے۔ 15 اگست 47 ء کو قیام پاکستان پر ریاست جموں وکشمیر میں جگہ جگہ مسلمانوں نے پورے جوش وخروش کے ساتھ یوم پاکستان منایا ۔ سری نگر کی جامع مسجد میں میر واعظ کشمیر کی صدارت میں ایک لاکھ اسلامیان کشمیر کا احتجاج ہوا۔ جس میں الحاق پاکستان کا پرزور مطالبہ کیا گیا۔ 27 اگست کو مسلم کانفرنس کے قائم مقام صدر چوہدری حمید اللہ خان اورصدر مجلس عمل میر واعظ مولانا محمد یوسف شاہ کا ایک مشترکہ بیان جاری ہوا جس میں انہوں نے کہا،
''ہم مہاراجہ بہادر کو خبردار کرتے ہیں کہ اگر اس نے انڈین یونین میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تو ریاست کے تمام مسلمان اس کی مزاحمت کریں گے۔ ریاست کے مسلمانوں کی رائے یہ ہے کہ کشمیر پاکستان میں شامل ہو کیونکہ جغرافیائی تسلسل اور تمدن واشتراک عمل اس کا تقاضا کر رہے ہیں۔ اگر اکثریت کے جذبات و احساسات کو نظرانداز کرنے کی کوشش کی گئی تو مسلمان ہر نازک صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں''۔
(روزنامہ ''ہمدرد'' سرینگر)

ریاست میں کشمیری مسلمانوں کو دبانے کی پالیسی
27اگست 47 ء کو ریاست جموں وکشمیر کا پاکستان کے ساتھ باقاعدہ ''جوں کا توں معاہدہ ''ہوا۔ ہندوستان نے اس قسم کا معاہدہ کرنے سے انکار کردیا ۔ یہ بھی ایک فریب کارانہ چا ل تھی۔30 اگست 47 ء کو مسلم کانفرنس کی طرف سے وزیراعظم کشمیر کو ایک یادداشت پیش کی گئی جس میں مندرجہ ذیل مطالبات پیش کئے گئے۔
(1 )۔ کشمیر فوراً پاکستان میں شمولیت کا اعلان کرے ۔
(2) ریاست کے جدید آئین کیلئے ایک آئین ساز اسمبلی قائم کی جائے۔
(3)۔ ریاست میں فوری طور پر ذمہ دارنظام حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے۔
(4)۔ کشمیر پاکستان کی آئین ساز اسمبلی میں شمولیت کا اعلان کرے۔
(5)۔شہری آزادی کو بحال کیا جائے اور مسلم کانفرنس کے صدر چوہدری غلام عباس خان اور ان کے ساتھیوں کو رہا کیا جائے ۔
(6)۔ پونچھ کے حالات پر خاص توجہ دی جائے ۔
قیام پاکستان کے دن ہی پونچھ میں پاکستان کے حق میں جلسے اور مظاہرے شروع ہوگئے۔ اس سے پہلے ہی وہاں عدم ادائیگی محصولات کی تحریک جاری تھی۔ ڈوگرہ حکومت نے اہل پونچھ کو زبردستی دبانے کی کوشش کی۔ چنانچہ 26 اگست 47 ء کو باغ کے ایک جلسہ عام پر فوج نے فائرنگ کی جس سے متعدد مسلمان شہید ہوگئے ۔مسلم کانفرنسی کارکنوں کی ایک بڑی تعداد قید کردی گئی۔ (ان میں سے کانفرنس کے ایک مخلص کارکن اور باغ مسلم کانفرنس کے جنرل سیکرٹری سید خادم حسین شاہ مرحوم کو ڈوگرہ ظالموں نے جیل میں ہی شہید کردیا ۔ اس مجاہد کے لبوں پر آخری دم تک پاکستان زندہ باد کے الفاظ رہے) مسلم کانفرنس نے 5 ستمبر 47 ء کو یوم پونچھ منایا ۔ قائم مقام صدر مسلم کانفرنس نے ایک بیان میں اس قتل عام کی شدید مذمت کی اور کہاکہ
'' قتل عام کا مقصد الحاق پاکستان کی تحریک کوختم کرنا ہے''۔
19 ستمبر 47 ء کو مسلم کانفرنس نے پھر ایک بار''یوم پاکستان'' منایا اور ہر جگہ عام جلسے کر کے الحاق پاکستان کامطالبہ کیا گیا۔ستمبر کے پہلے ہفتے میں ہی نیشنل کانفرنس کے صدر شیخ محمد عبداللہ کو بھدرواہ جیل سے بادامی باغ چھائونی لایا گیا۔ اس دوران کانفرنس کے دو جلاوطن لیڈر بخشی غلام محمد اور غلام محمد صادق پر سے پابندی ختم کی گئی ۔ وہ جلاوطنی کے دوران کانگرسی لیڈروں سے ساز باز کر آئے تھے اور شیخ محمد عبداللہ کے ساتھ پراسرار ملاقاتیوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ اچانک 29 ستمبر 47 ء کو شیخ محمد عبداللہ اپنی معیاد قید مکمل کرنے سے پونے دو سال پہلے ہی رہا کردیئے گئے۔ 7اکتوبر 47 ء تک ''کشمیر چھوڑ دو'' تحریک کے تمام قیدی رہا کئے جا چکے تھے لیکن مسلم کانفرنس کے صدر چوہدری غلام عباس خان اوران کے ساتھی بدستور نظربند رکھے گئے۔ شیخ صاحب کی رہائی سے تین دن قبل 26 ستمبر کو مسلم کانفرنس کے قائم مقام صدر چوہدری حمیداللہ خان مرحوم کا داخلہ بھی ریاست میں بند کردیا گیا، وہ لاہورآئے تھے۔دوسرے دن کشمیر اسمبلی کا اجلاس ہوا تو مسلم کانفرنس اسمبلی پارٹی کے ڈپٹی لیڈر خواجہ غلام احمد جیولرنے چوہدری حمید اللہ خان کے ریاست میں داخلہ پر پابندی کے خلاف احتجاج کیا اور بطور احتجاج تمام پارٹی اسمبلی سے واک آئوٹ کر گئی۔ اس کے ساتھ ہی مسلم کانفرنسی کارکنوں کی جلاوطنی نظربندی اور زبان بندی کا سلسلہ شروع ہوا۔
اس سے قبل ہی جنگ سنگھ کی جگہ ایک کٹرہندومہرچند مہاجن کو ریاست کا وزیراعظم مقرر کیا جا چکا تھا۔ انہوں نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں مسلم کانفرنس کوکچلنے کا اعلان کر دیا ۔ البتہ الحاق کے بارے میں یہ بتایا کہ اس کا فیصلہ کرتے وقت عوام کی مرضی کا خیال رکھا جائے گا ۔لیکن یہ کہنے کی باتیں تھیں۔ مسٹر مہاجن توآئے ہی اس لئے تھے کہ ہری سنگھ اور کانگرس کی سازش کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔ اس کے ساتھ ہی کٹھوعہ روڈ کی تعمیر کا کام شروع ہوگیا۔یہ سڑک کشمیر کو بھارت سے ملانے والا واحد راستہ ہے ۔یہ بھی لارڈ مونٹ بیٹن اورریڈ کلف کی سازش اور بددیانتی سے ضلع گورداسپور کی وجہ سے بھارت کو ملا تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ گورداسپور کا بھارت کوملنا کشمیری عوام کے خلاف سازش کی ایک اہم کڑی تھی ۔15 اکتوبر کو وزیراعظم کشمیر نے حکومت پاکستان کے نا م ایک تار روانہ کیا جس میں یہ الزام لگایا گیا کہ ریاست کی ضروریات زندگی کی سپلائی میں رکاوٹ ڈالی جا رہی ہے۔ دوسرے دن ہی وزیراعظم پاکستان خان لیاقت علی خان نے اس کے جواب میں ایک تارحکومت کشمیر کو بھیجا جس میں تمام الزامات کی پرزورتردید کردی گئی اور ساتھ ہی کشمیری مسلمانوں کو دبانے کی پالیسی پر اظہار تشویش کیا گیا۔


واپس کریں