دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آزاد کشمیر حکومت نے قائد اعظم محمد علی جناح میموریل پارک کرولی مظفرآباد کا منصوبہ ختم کر دیا
فرحت علی میر۔فکر آگہی
فرحت علی میر۔فکر آگہی
ـــــــــــ گزشتہ روز جلال آباد پارک ہمیں چہل قدمی کرتے ہوئے دریافت کرنے پر جان کر حیرت بلکہ افسوس ہوا کہ مظفرآباد شہر سے چند کلو میٹر شاہراہ سرینگر کرولی کے مقام پر دریائے جہلم کے کنارے 'قائداعظم محمد علی جناح میموریل تفریحی پارک کی تعمیر کے منصوبہ کو تقریباً دو سالوں سے باقاعدہ ڈیزائننگ کا کام مکمل ہونے کے باوجود گزشتہ سال فنڈز مختص نہیں کئے گئے اور اب آئندہ سالانہ ترقیاتی پروگرام سے منصوبہ کو ہی خارج کیا گیا ہے۔ اس پارک کی افادیت، تقدیس اور حساس نوعیت سے ریاستی عوام کی آگاہی کے لئے چند سطور کا ضبط تحریر لا کر مسند اقتدار پر متمکن حضرات کی توجہ اور مثبت طرز عمل کی امید اور توقع لگائی جانا مقصود ہے۔ ا

مر واقعہ ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے مسلمانان برصغیر کے لئے علیحدہ وطن کی جدوجہد کے فیصلہ کن مرحلے پر یعنی سال 1944 میں خطہ ریاست جموں و کشمیر کاآخری تاریخی دورہ فرمایا۔ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح بھی دورہ کشمیر کے دوران قائد اعظم کے ہمراہ تھیں۔ قائد اعظم مورخہ 8 مئی 1944 سیالکوٹ سے جموں روانہ ہوئے۔ سوچیت گڑھ کی سرحد پر ان کا بے مثال استقبال کیا گیا ۔ قائد اعظم نے تاریخی جلسہ سے انگریزی میں خطاب فرمایا اور اے۔آر ساغر فی البدیہہ تقریر کا ترجمہ کرتے رہے اور تقریر کے ختم ہوتے ہی قائد اعظم نے ساغر صاحب کو گلے لگا لیا اور کہا کہ میری تقریر سے تمھارا ترجمہ بہت ہی مؤثر تھا۔ یہ جملہ کشمیریوں کی ذہانت کے لئے سند تھا۔ 9 مئی 1944 کو سرینگر کیلئے روانہ ہوئے رات بانہال ریسٹ ھاؤس میں قیام کیا۔ 10 مئی کو وہاں سے سرینگر کے لئے روانہ ہوئے۔

وادی کشمیر کے خوب صورت سیاحتی و تاریخی شہر سرینگر میں کروڑوں مسلمانوں کے لیڈر کی تشریف آوری پر استقبالیہ تقریب پرتاب پارک میں منعقد ھوئی۔ قائداعظم نے اڑھائی ماہ مادر ملت کے ہمراہ کشمیر میں جھیل ڈھل میں ایک تاریخی ھاؤس بوٹ میں قیام کیا۔ ریاست جموں و کشمیر میں داخل ہوتے ہوئے دورہ کے آغاز سے اختتام کے دوران جموں اور وادی کشمیر میں قائداعظم کے والہانہ تاریخی استقبال، عوام میں جوش و خروش اور سجاوٹ سے متاثر ہو کرانھوں نے اپنے استقبال اور کشمیریوں کی لازوال محبت کے اظہار کی منظر کشی خود محترم قائداعظم نے اپنے ان سنہری الفاظ میں کی "آپ نے بحیثیت صدر مسلم لیگ اور ہندوستان کے دس کروڑ مسلمانوں کے لیڈر کے ، میرا استقبال کیا ہے جس پر کوئی بادشاہ بھی جتنا چاہے فخر کر سکتا ہے۔ میں آپ کا خیر سگالی کا پیغام ہندوستان کے مسلمانوں کو پہنچاؤں گا اور ہندوستان کے دس کروڑ مسلمان آپ کی جدوجہد آزادی میں برابر کے شریک ہیں"۔

اس دورہ کے دوران قائداعظم کی نیشنل کانفرنس اور آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس سمیت کشمیری قیادت کے ساتھ ملاقاتوں کا احوال اور سرینگر میں کشمیری نوجوان کے۔ایچ خورشید کے حسن انتخاب جیسے تاریخی اور سیاسی حقائق اپنی جگہ دور رس نتائج کے حامل ثابت ہوئے جن کا تذکرہ علیحدہ سے کیا جا سکتا ھے۔ تاہم سرینگر میں طویل قیام کے بعد مورخہ 25 جولائی 1944ء کو قائداعظم نے اوڑی کے راستے مظفرآباد قیام کرتے ہوئے واپسی کے سفر کا انتخاب اور فیصلہ فرمایا۔ اس طرح انہوں نے شاہراہ سرینگر پر تاریخی سفر کیا۔ رات مظفرآباد میں دریائے جہلم اور دریائے کشن گنگا (دریائے نیلم ) کے سنگم دومیل کے کنارے خوبصورت ڈاک بنگلہ میں قیام فرمایا۔ قابل فخر بات ھے کہ رات شہریان مظفرآباد کو اپنے محبوب اور عظیم مہمان خاص کے اعزاز میں عشائیہ دینے کا شرف حاصل ہوا جبکہ اگلے روز قائد اعظم کی جانب سے شہریوں کی محبت کے جواب میں ظہرانہ دیا گیا۔ 26 جولائی 1944ء کی صبح قائداعظم اور مادر ملت نے دریا جہلم اور نیلم کے ملاپ کے کنارے سیر کرنے کے بعد ناشتے کی میز پر مادر ملت نے ماحول کی سحر انگیز ی سے متاثر ہوتے ہوئے قائداعظم کو مخاطب کر کے تاریخی الفاظ ادا کئے کہ "مہاراجہ نے مظفرآباد کو ریاست کا دارالخلافہ کیوں نہیں بنایا"۔ مادر ملت کے الفاظ نے تین سال بعد تعبیر کا روپ دھار لیا اور مظفرآباد انقلابی اور باغی حکومت کا دارالخلافہ بن گیا۔

راقم الحروف نے قائداعظم کے دورہ کی تاریخی اہمیت کا علم و ادراک رکھتے ہوئے سال 2020 کے ماہ دسمبر میں محترم راجہ فاروق حیدر خان وزیر اعظم (وقت) کو شاہراہ سرینگر کے کنارے کرولی کے مقام پر نیلم و جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے لئے ایوارڈ شدہ پچاس کنال اراضی پر ( جو خالی دستیاب تھی اور ہے) قائداعظم کے تاریخی دورہ کشمیر/مظفرآباد کی حسین یاد کے طور پر قائد اعظم سے منسوب تفریحی پارک تعمیر کیا جائے۔ صاحب موصوف نے میری اس تجویز کو شرف پذیرائی بخشتے ہوئے اراضی کی دستیابی اور سنگ بنیاد کے لئے انتظامات کرنے کی ذمہ داری میرے سپرد کر دی گئی اور تعمیلاً راقم الحروف نے اس وقت کے ڈپٹی کمشنر مظفرآباد مسٹر بدر منیر کی سرگرم معاونت سے نیلم و جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی مقامی انتظامیہ سے پچاس کنال اراضی کو پارک کے لئے استعمال میں لانے کی رضامندی حاصل کرتے ہوئے محکمہ زراعت کے سیکرٹری مسٹر بشیر بٹ اور ناظم اعلیٰ مسٹر خورشید لون کو محکمانہ سطح سے تجویز کردہ پارک کے سنگ بنیاد کی تیاری پر مامور کیا۔ اس دوران راقم الحروف تسلسل کے ساتھ جناب وزیراعظم سے پارک کے سنگ بنیاد رکھنے کی رسمی تقریب کے لئے تاریخ اور وقت کے تعین اور حصول کی تگ و دو میں لگا رہا۔ جناب وزیراعظم (وقت) کی اسلام آباد اور مظفرآباد میں کارسرکار میں کل وقتی مصروفیات اپنی جگہ مگر ان کے ہمراہ مامور سٹاف کے دیگر دلچسپیوں اور لیت و لعل سے سامنا کے باوجود ایک ملاقات میں میرے پُر زور اصرار اور تکرار پر جناب وزیر اعظم (وقت) راجہ فاروق حیدر خان نے منصوبہ میں اپنی دلچسپی کا اعادہ فرمایا کہ کل دن میں جہاں بھی اور جس میٹنگ میں مصروف ہوں آپ مجھے پارک کے سنگ بنیاد کے لئے لے جائیں گے۔ میں اس دوران سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد الیکشن کمیشن کا رکن بن چکا تھا مگر منصوبہ کی تاریخی نوعیت سے دلچسپی اور جنون کے باعث میں نے سنگ بنیاد اور پارک کے قیام کو یقینی بنانے کی ٹھان رکھی تھی۔ چنانچہ جناب وزیراعظم کی یقین دہانی پر ہم نے راتوں رات جملہ ضروری انتظامات مکمل کر لئے اس طرح مورخہ 18 جون 2021ء کو پارک کے سنگ بنیاد رکھنے کی مبارک تقریب منعقد ہوئی۔ (شکر الحمدللہ) مابعد منصوبہ سالانہ ترقیاتی پروگرام میں شامل کیا گیا۔

ہماری درخواست پر سیکرٹری زراعت مسٹر ارشاد احمد قریشی نے خصوصی دلچسپی لے کر کنسلٹنٹ کی خدمات حاصل کرکے خوبصورت اور شایان شان پارک کی ڈیزائننگ کا کام کروایا۔ اسی دوران ڈپٹی کمشنر مسٹر عبدالحمید کیانی نے میری درخواست پر اور میرے ہمراہ پارک کے زیر تجویز رقبہ کا معائینہ کیا اور پُر خلوص طور پر حسب تجویز مجوزہ پارک کے سامنے دریائے جہلم کے درمیان جزیرہ نما اراضی یعنی ( delta) کی خالصہ سرکار زائد از سو کنال پارک کے لئے مختص کر دی۔ جو اراضی پل کے ذریعے پارک کی خوبصورتی اور گنجائش میں اضافہ بنے گی۔ میری دانست میں کی گئی ڈیزائننگ کے مطابق تعمیر ہونے کی صورت میں قائد اعظم میموریل پارک اپنے مخصوص محل وقوع اور دریا کی روانی کے باعث ملک میں ایک تفریحی عجوبہ ہو گا۔ لیکن افسوسناک نہیں بلکہ حیرت کدہ بات ہے کہ بیان کردہ تاریخی پس منظر اور انفرادیت کے باوجود قائد اعظم میموریل تفریحی پارک بمقام کرولی مظفرآباد کے تعمیرات کے منصوبہ کو موقوف کیا جا رہا ہے بلکہ اس اہم منصوبہ کو آئندہ سالانہ ترقیاتی پروگرام سے ہی نکالنا تشویشناک بات ہے۔

شنید ہے کہ سالانہ ترقیاتی پروگرام 2023-24 میں ڈڈیال اور بھمبر میں تفریحی پارکس کی تعمیر کے منصوبوں کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو اقدام حکومت کے لئے مستحسن اور قابل تعریف ہے کیونکہ آزاد کشمیر کے شہری اور گنجان آباد علاقوں میں تفریحی سہولتوں کی فراہمی اوراہمیت کے پیش نظر متعدد پارکس اور پرائمری اور مڈل سکولوں کے ساتھ لازماً کھیلوں کے میدانوں کو تعمیر کرنا ایک ناگزیر عوامی ضرورت ہے۔ جیسا کہ تقریباً چار لاکھ آبادی کی رہائشی اور تصرف میں آنے والے دارالخلافہ شہر مظفرآباد میں چند کنال پر مشتمل ایک ہی قدیم پارک جلال آباد میں ہے جس کی حالت زار ناگفتہ بہہ ہے۔ مگر یہ امر قطعی طور مناسب نہیں کہ پہلے سے شروع کئے گئے عوامی افادیت کے منصوبہ کو بند کر دیا جائے بالخصوص قائد اعظم کے تاریخی دورہ کشمیر سے منسوب تفریحی یادگاری پارک جیسے تاریخی اور منفرد نوعیت و اہمیت کے منصوبہ کو التوا ہی نہیں بلکہ مسترد و موقوف کرنا ناقابل فہم بات دکھائی دیتی ہے۔

مجھے یقین ہے کہ موجودہ صاحب بصیرت اور تاریخی حوالوں کا ادراک رکھنے والے وزیر اعظم جناب انوارالحق کو متذکرہ پارک کے منصوبہ بارے علم نہ ہو گا اس لئے جناب وزیراعظم سے فوری اصلاح احوال کی توقع رکھتے ہوئے تجویز ہے کہ قائداعظم میموریل تفریحی پارک کے منصوبہ کو رواں سالانہ ترقیاتی پروگرام میں شامل و بحال کرتے ہوئے منصوبہ کی بدولت ممکنہ تکمیل کے لئے خاطر خواہ فنڈز مختص کئے جائیں اور بلا تاخیر منصوبہ پر تعمیراتی کام شروع کرنے کے لئے اقدامات کو یقینی بنایا جائے۔ اس منصوبہ کی اہمیت اور حساسیت کو محسوس کیا جائے۔ جناب راجہ فاروق حیدر خان ، جناب شاہ غلام قادر ، جناب سردار عتیق احمد خان ، جناب چوھدری لطیف اکبر اور جملہ معزز اراکین اسمبلی پر بھی لازم ہے کہ وہ قائد اعظم میموریل تفریحی پارک کی تعمیر کے منصوبہ کی بلا توقف بحالی اور تعمیر کے لئے خاطر خواہ فنڈز مختص اور واگزار کرنے کو یقینی بنانے کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ جزاک اللہ


واپس کریں